عوام مہنگائی جھیلنے پر مجبور

موجودہ صدی کہوں یا رواں برس! نہیں کئی برسوں سے مہنگائی نے ہمارے ملک میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے ، کاش کہ یہ مہنگائی خانہ بدوشوں کے طرزِ عمل دہرایا کرتی کہ ایک جگہ چھوڑ دوسری جگہ پر آشیانہ بنائے تب بھی عوام خوش و خرم رہتے کہ کچھ عرصے کے لئے صحیح یہ مہنگائی ٹلی تو سہی، یوں تو مہنگائی نے آج ہر طبقے کے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ پاکستان بھر کے عوام کی زبان پر بس ایک ہی بات رہتی ہے کہ مہنگائی سے مار ڈالا یار!کبھی ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب حکومتی سطح پر مہنگائی میں اضافہ کیا جانا مقصود ہوتا تھا تو اس کے لئے باضابطہ طور پر منصوبہ ساز اس کے لئے منصوبہ تیار کرتے تھے۔ برسرِ اقتدار پارٹی خوف زدہ رہتی تھی کہ اگر ایسی ویسی حرکت ہو گئی تو عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ لہٰذا بے حد احتیار اور تدبر کے ساتھ کم سے کم مہنگائی کی شرح میں اضافہ کیا جاتا تھا ۔ آج تو عالم یہ ہے کہ مہنگائی نے نہ صرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں بلکہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ اور اس سلسلے میں نہ تو کوئی بولنے والا ہے اور ہی اس میں کسی کو دلچسپی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہر طبقے کے لوگوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مہنگائی کی مار صرف ایک ہی طبقے کے لوگ جھیل رہے ہیں ، یہاں تو ہر طبقہ کے لوگوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔ آج ملک بھر میں لاکھوں انسان صرف مہنگائی کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اس بے لگام مہنگائی نے لوگوں کے لئے گھر کا خرچ چلانا مشکل بنا دیا ہے۔ کھانے کی اشیاءسے لیکر پہننے اوڑھنے کی تمام چیزیں غریب اور متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں۔ آپ ببانگِ دہل یہ کہہ سکتے ہیں کہ سُوئی سے لیکر جہاز تک ہر چیز مہنگائی کا شکار ہے۔

انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی تمام پارٹیاں وعدوں کی پٹاریاں کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیتی ہیں مگر اقتدار میں پہنچتے ہی تمام وعدے وعید فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ فی الحال سیاسی پارٹیوں کے ذہنوں میں عوام کے لئے بڑے بڑے فلاحی منصوبے اور مہنگائی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کو بھی ختم کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ مگر کیا یہ پارٹیاں جو آپس کے چپقلش سے ہی آزاد نہیں ہیں وہ عوام کے لئے یہ سب کچھ کر پائیں گی۔ غالباً عوام اب سب کچھ سمجھ چکی ہے کہ نعرے اور وعدے صرف زبانی جمع خرچ ہیں اور اس کی تکمیل نہایت مشکل امر۔مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے کوئی بھی سیاسی پارٹی تیار نہیں لگتی، روزگار کی فراہمی کے لئے بھی کسی کے سر پر جوں نہیں رینگتا۔ معمولی تنخواہ پانے والا شخص اپنے اہلِ خانہ کا کس طرح پیٹ پال سکتا ہے جبکہ اسی تنخواہ میں بچوں کو پڑھانا لکھانابھی ہوتا ہے۔ دوا ئی بھی لینی ہوتی ہے، کنوینس اور دیگر اخراجات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو تو کچھ حد تک سپورٹ حکومت دے دیتی ہے کہ ہر بجٹ میں انہیں کچھ نہ کچھ تنخواہ کی مد میں بڑھا دیا جاتا ہے مگر آج کی مہنگائی کے حساب سے یہ ریشو بھی انہیں مطمئین کرنے میں ناکام ہی ہے۔ اور رہی پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کا تو وہاں کم سے کم تنخواہ مبلغ سات سے آٹھ ہزار روپیہ ہے۔ ان کے لئے تو تفصیلات اکھٹا کرنے کی ضرورت ہی نہیں صرف یہ محاورہ ہی کافی ہوگا کہ ” ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا“۔

اگر اس طرح مہنگائی کی تشریح کر دی جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ملازم پیشہ افراد بہت ہی تنگدستی سے اپنے گزارا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ بہت محدود ہوتی ہیں جس سے ٹھیک طرح سے گھر کا خرچ بھی نہیں چلایا جا سکتا تو بچوں کا مستقبل کیا خاک سدھاری جا سکتی ہے۔ کمپنیاں اپنے طریقوں سے ملازمین کی تنخواہیں مقرر کرتی ہیں اس طرف بھی موجودہ سرکار یا آنے والی نئی سرکار کو توجہ دینے کی اشد ضرور ت ہے۔ اس وقت جس طریقے سے مہنگائی نے اپنا جھنڈا گاڑا ہوا ہے ۔ اس لئے پرائیویٹ اداروں سمیت سرکاری ملازمین کے بارے میں بھی آنے والی سرکار کو غور کرنا چاہیئے کیونکہ نیا بجٹ تو نئی سرکار نے ہی بنانا ہے۔ ویسے تو پرانی سرکار اور نئے آنے والی سرکار دونوں ہی خوب جانتی ہے کہ دونوں کیٹیگری کے ملازمین کس طرح کسمپرسی سے زندگی کاٹ رہے ہیں مگر تجاہل عارفانہ سے کام لیا جاتا ہے ۔ اور اگر اسی طرح سب کچھ چلتا رہا تو اس ملک کے عوام کا خداہی حافظ ہے۔

اوّل تو سرکاری نوکری ایک عام آدمی کو ملتی نہیں اور پرائیویٹ نوکری کسی طرح ملنے کے آثار بھی ہوں تو سرکاری اور پرائیویٹ دونوں ہی جگہ پر تجربہ کا لفظ ذہن پر بارِ گراں گزرتا ہے۔ اب دیکھئے نا کہ ایک جوان جس نے کسی بھی طرح محنت سے پڑھ کر انٹر تک کی تعلیم حاصل کر لی مگر آگے کی پڑھائی اپنے گھریلو حالات کے سبب نہیں کر سکتا یا بعد میں نوکری کے ساتھ ساتھ جاری رکھے گا وہ نوکری کے لئے کہیں بھی جائے تو اس سے تجربہ بھی مانگا جا تا ہے۔ اللہ کے بندے! وہ جس نے ابھی ابھی انٹر کیا ہو اور پہلی مرتبہ صرف اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے نوکری کی تلاش میں نکلا ہے وہ کہاں سے تجربہ لائے گا۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہوگی کہ وہاں نوکری کر سکے تاکہ اسے تجربہ بھی حاصل ہو جائے اس طرح بہتر مستقبل کی آمد تک وہ تجربہ کار کہلائے اور دوسری جگہوں پر تجربہ کا کالم بھی بھرپور طریقے سے پُر سکے۔ اس لئے ضرور یہ ہے کہ تجربہ کے لفظ کو نوکری کے فارم سے حذف کیا جائے اور صرف سرٹیفیکیٹ پر ہی اکتفا کیا جائے تاکہ ہر طبقے کے نوجوان کو روزی میسر آ سکے۔ اگر حکومت نئے ابھرتی ہوئی نسل کے لئے کوئی اسکیم لاتی بھی ہے تو اسے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد ہی ہڑپ کر ڈالتے ہیں اس کے ثمرات اُن افراد تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکیم کی Expiry Dateآ جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جن لوگوں کو ان سے فائدہ مل سکتا ہے انہیں اس کی معلومات ہی نہیں ہوتی اور ان کی حصولیابی کے لئے بھی بہت محنت اور مشقت درکار ہوتی ہے ۔ یہاں آسانی سے کچھ بھی نہیں مل پاتا ہے۔ اس لئے ایسے افراد جن کو اسکیموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ بیچارے بھاگ دوڑ کرنے کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور فائدہ اٹھانے والے اپنا کام کر جاتے ہیں۔

آج مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب اپنے گردوں اور اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہے۔کوئی اپنا ایک گردہ فروخت کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کوئی اپنا دونوں گردہ بھی فروخت کرنے پر بضد ہوتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گردے فروخت کرنے کے بعد وہ زندہ نہیں رہ پائے گا ۔ ہسپتال والے اور گردہ خریدنے والے حیران و پریشان اسے یہ بتاتے ہیں کہ بھائی دونوں گردوں کے بعد آپ مَر جاﺅ گے ۔ بیچنے والا بڑی ہی پھرتی سے جواب عرض کر دیتا ہے کہ ”میں زندہ ہی کب ہوئی میرے بھائی “ مہنگائی نے مجھے اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ میں اپنے ہی جسم کے اعضاءکو فروخت کرنے پر مجبور ہوں۔یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ گذشتہ سات آٹھ سالہ دور نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے، لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اب خود کشی کرنا بہت آسان لگتا ہے اور زندہ رہنا بہت مشکل۔ جس طرح مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکلا ہے اس پر تو واقعی حکومت کا سو فیصد ہاتھ ہے مگر کیا کوئی اس جن کو قابو کرنے کے لئے تیار ہے۔ کوئی دوبارہ اس مہنگائی کے جِن کو بوتل میں واپس بھیج سکتا ہے۔ مہنگائی ہی تمام مسائل کا جڑ ہے ، جرائم اور ہر منٹ درجنوں ڈاکے ، اجرتی قاتل، اور ہر روز اغواءبرائے تاوان کی کئی وارداتیں ہوتی ہیں اور ان سب کی جڑیں ظاہر ہے کہ مہنگائی سے ہی جُڑی ہیں۔بجلی کے بحران کی وجہ سے شارٹ فال میں ہولناک اضافہ ہوا ہسپتالوں میں مریض مرنے لگے ، بیروزگاری کی تعداد میں کئی لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ خدا را اس مہنگائی کی طرف فوری توجہ دیجئے کیونکہ یہ عوام کا بنیادی مسئلہ ہے ۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.