کوئٹہ میں جاری فرقہ واریت کی بنیاد پر اجتماعی قتل اور حکمران

2013ءکی نئی سال کی ابتداءمیں پہلی مرتبہ کوئٹہ میں5 جنوری کو راولپنڈی سے کوئٹہ جانےوالی جعفرایکسپریس پر ضلع بولان میں پنیر ریلوے اسٹیشن کے قریب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس واقع میں نیم درجن کو جان بحق اور دو درجن زخمی ہو گئے ۔

پھر پانچ دن بعد 10جنوری کو پاکستان کی تاریخ کی بد ترین دھماکے سے کوئٹہ چند دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھا ایس پی سمیت 83سے 90 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو ئے اور 250 کے لگ بھگ انتہائی زیادہ زخمی بھی ہوئے ۔ پہلا دھماکہ میزان چوک پر ہوا جس میں ایک درجن افراد جاں بحق اور چار درجن زخمی ہوئے اور اسی رات شام علمدار روڈ پر مزید دو دھماکوں میں ایس پی ، میڈیا کے پانچ اہلکارو ں سمیت 72افراد جاں بحق ہوئے جہاں 200سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے ۔جس میں کہا جاتا ہے کہ ایک دھماکہ خود کش تھا۔اس واقع کو لشکر جھنگوی نامی تنظیم نے قبول کر لی۔

اس کے بعد شٹر ڈاؤن اور 3دن سوگ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن عوام کی تحفظ کی زمہ دار حکمران جس میں صدر و وزیر اعظم و صوبائی حکومت و انتظامیہ نے صرف اور صرف میڈیا میں مذمت کرنے بیان قلم بند کروا دی ۔

بعد ازاں لواحقین کی طرف سے نعشوں کے ساتھ دھرنا اور صوبائی حکومت کو ختم کر کے فوج بلانے کی مطالبہ سامنے آیا۔ہزاروں لوگ بارش و سردی کے باوجود بھی نعشوں کے ساتھ دھرنا دیا اور اپنی مطالبہ کو پورا کرنے تک تدفین سے انکار کر دیا تھا۔ اسی دوران گورنر بلوچستان نواب زوالفقار خان مگسی نے اپنے ایک بیان میں فرمایاتھا کہ دھماکہ کے ہم حکمرانی کا حق کھوچکے ۔لیکن بعد ازاں صوبائی حکومت کو تحلیل میں لیکر گورنر راج نافذ کر کے لواحقین کو نعشوں کو دفنانے پر مجبور کر دیا گیا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی دن تک حکمران طبقہ بلوچستان آنے کی موڈ میں نہیں تھے آخر کا ر وزیر اعظم کو مجبوراََ کسی نے جانے کی درخواست کی ہوگی لیکن صدر پاکستان تو آج تک نہیں آئے ہیں۔ اسی دوران پڑوسی ملک ایران کے ایک بہادر صدر محمود احمد نژادی نے بھی حکومت سے درخواست کیا تھا کہ کوئٹہ میں ہونے والی اس درد ناک واقع کا سخت نوٹس لے لیں۔ دوسری طرف افغانستان کو حکمران کو بھی زرا آ گیا مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو احساس تک نہیں تھا ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو برسراقتدار ہے اس کے چیئرمین بلاول زرداری نے آج تک اس معاملے میں کوئی مذمتی الفاظ تک نہیں بولا ہے ۔ جس سے اگلے پانچ سال کی توقع کی جارہی ہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں ایسے شخص کو پاکستان میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے جس اس قدر لا پرواہ سیاستدان و حکمران ہو۔

پھر چند روز امن و اما ن کی زمہ دار تمام دہشت گردی کی مہربانی بھی ہے کہ چند روز خاموشی اختیار کر لیا اور آخر کار ایک ماہ پانچ دن بعد 10 جنوری کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ایک بار پھر 16فروری کو بد ترین بم دھماکہ سے 84افراد لقمہ اجل ہو گئے اور 200 کے لگ بھگ زخمی بھی ہو گئے ۔ یہ دھماکہ مصروف ترین بازار میں ہوا ، ہر طرف انسانی اعضاءبکھر گئے ، چار مارکیٹیں بھی تباہ ہو گئے ، جاں بحق اور زخمیوں میں کافی خواتین و معصوم بچے ساتھ ساتھ یاد رہے کہ سب ک سب بے گناہ بھی تھے۔ڈی آئی جی کے مطابق ایک ہزار کلو تک دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔مذہبی جماعتوں کا بھی سوگ و ہڑتال کا اعلان ۔ایک مرتبہ پھر نوے 90نعشوں کے ساتھ دھرنا شروع ہوا ہے ۔ جو حکومت کی مذاکرات کے بعد ختم ہواہے ۔

بعداں واقعے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی۔تو لشکر جھنگوی کے کارکان کو گرفتار کرنا اور ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہو متعدد گرفتار اور قتل بھی ہوئے ۔ تو کوئٹہ کراچی سمیت معتد علاقوں میں اہل سنت و الجماعت کے رہنماؤں نے سیکریٹری داخلہ اور سی سی پی او سے طویل مذاکرات اور ایف سی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہونے پر دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

واضع رہے کہ 16 فروری کو کوئٹہ میں بم دھماکے کے نتیجے میں 90 سے زائد شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔

واقعے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی ۔ جس کے بعد سیکورٹی اداروں نے اہلسنت و الجماعت اور لشکر جھنگوی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تھا جس میں دونوں جماعتوں کے ابتک درجنوں کارکنا ن گرفتار کئے جا چکے ہیں۔

دوسری جانب لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحٰق نے پنجاب کے شہر رحیم یارخان میں اپنی رہائش گاہ گرفتاری دے دی۔

گرفتاری سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 45دن میں اہلسنت و الجماعت کے 350کارکنان مارے گئے ہیں اگر دھرنے دے دیکر اپنے مطالبات منوانے کا سلسلہ جاری رہا تو ہر جماعت اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیگا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے از کود نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ دھماکے کالعدم تنظیم ملوث ہے تو کریک ڈاؤن کیا جائے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقت کے وزیر اعظم اور گورنر بلوچستان زمہ داری قبول کریں ۔ انھوں نے کہا کہ لوگ لاشیں رکھ کر بیٹھے ہیں ، شاہراہ دستور 5عمارتوں پر حکومت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہو گئیں ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ایجنسیاں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہزار کلو بارود پہنچا کیسے؟ اور آئی بی ججوں کے فون ٹیپ کرنے کے علاوہ بھی کام کرے۔ اب سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ گورنر راج کے بعد سانحہ کوئٹہ کا زمہ دار وزیر اعظم خود ہے ۔

بہرحال سپریم کورٹ کی فتویٰ اپنی جگہ درست ہی ہے لیکن حقیقت میں بھی اسلامی معاشر ے میں ریاست کے اندر ہونے والی تمام اجتماعی برے یا اچھے اعمال جن میں حکمران کا واسطہ یا بل واسطہ بھلے کوئی مداخلت ہی نہ ہو مگر زمہ دار حکمران بھی ہوتا ہے ۔

اگر ایک اچھا کام ہو جاتا ہے جس سے ریاست میں بھلائی ہو جائے تب بھی حکمران ثواب دار ہو جاتے ہیں اسی طرح اگر کوئی بھی غلط کام ہو جاتی ہے تو اس کا بھی زمہ دار حکمران ہی ہوتے ہیں ۔ ریاست کے اند ر اگر کوئی غریب بھوک و افلاک سے ساتھ سوتا ہے ، تکلیف میں ہوتا ہے ، پریشانی ہے ، کوئی مافیہ اسے تنگ کر رہا ہوتا ہے ، اس کی جان و مال کو نقصان پہنچتا ہے ، اسے سہولیات کی فقدان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا اسے بے گناہ قتل کیا جاتا ہے و دیگر صورت میں بھی زمہ دار ی حکمرانوں کی ہوتی ہے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی ، ٹارگیٹ کلنگ، بم دھماکوں، ڈکیتی و سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں جو مشکلات کی سامنا کرنا پڑتا ہے تب بھی حکمران زمہ دار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ماضی کے مشرف کے دور کی تمام جرائم کی زمہ دار مشرف ہی ہے اور حالیہ تمام بم دھماکوں و قتل و غارت کی زمہ دار موجودہ حکمران ہی ہیں ۔

حضرت عمر فاروق ؓ کی عدل کی مثال اس دنیا میں شاید کہیں ملے ۔ جب انکا انتقال ہوا تو ایک چرہاوا دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا اور لوگو ں سے کہنے لگا کہ "آج حضرت عمرفاروق ؓ کا انتقال ہوگیا ہے " لوگوں نے حیرانگی سے پوچھا کہ" تم مدینہ سے سے سینکڑوں میل دور ہو اس سانحہ کا کیسا علم ہوا" تو چرہاوانے کہاکہ" جب تک حضرت عمر فاروق ؓ زندہ تھے تو جنگل میں کسی حیوان زاد میں زراجرت نہیں تھا کہ وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھتے مگر آج ایک بھیڑیا میری بھیڑ کی بچہ لیے گیا " -

اصلی حکمران کی عدل کا عالم تھا کہ کسی مائی کی لعل میں جرم کرنے کی حمت تک نہیں تھی۔ انسان تو دور کی بات جانور میں بھی ہمت نہیں تھا ۔ مگر آج کے نا پاک حکمران طبقہ ہو ش کے ناخن لیں ۔ درحقیقت حکمرانی آسان نہیںبہت مشکل کام ہے ۔کیونکہ میزان دنیا کا مشکل ترین عمل ہے حکمرانیت کی بنیاد میزان سے ہوتی ہے جہان میزان عدل اور انصاف کے ساتھ ہوتا ہے تو حضرت عمر فاروق ؓ جیسے عظیم حکمران پیدا ہوتے ہیں مگر حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی حکومت کو ایک عظیم زمہ داری اور اللہ کی طرف سے عظیم امتحان قرار دیا ہے حکمرانی آسان نہیں ہے جس طرح آج کی دور میں حکمرانیت کا بیڑہ غرق کیا گیا ہے ۔

کوئٹہ میں جاری شیعہ سنی کے لڑائی کے پیچھے بیرون ممالک کا ہاتھ ہے جو اسلام کوکمزور کرنے کی دیرینہ سازش میں مصروف ہے ۔ لیکن حکمران کی زمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کو ان حالات میں ہر قسم کی تحفظ کو یقینی بنائے ۔ لیکن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ کوئٹہ آنے کو تیار ہی نہیں تو کوئٹہ میں موجودہ چیلنچز کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 31 Articles with 30792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.