حکومت چائے فوجی ہو یا سیاسی
ملک کے اندر نظام حکومت چلانے والو ں کا تعلق چائے ڈکیٹیٹری سے ہو یا
جمہوریت سے ان دونوں حکومتوں میں اگر پاکستان میں کسی نے حکومت انجوائے کی
ہے تو وہ صرف بیورو کریٹس ہیں جنہوں نے ہر دور حکومت میں عوام کے پیسے کو
ڈرامائی انداز میں ہڑپ کیا اثاثے بنائے ،کروڑوں کی پراپرٹی بنائی ،بینک
بیلنس بنایا ان تمام سہولتوں پر پوری آزادی اور استقامت کے ساتھ مزے کیساتھ
کھڑے ہیں بیورو کریٹ نامی آفیسر اس شخصیت کا نام ہے جس کو اگر انتظامی نظام
سے ہٹا دیا جائے تو حکومتی نظام حکومت کے اندر بے شمار حکومتیں بن جاتی ہیں
اور جس وقت حکومتوں کے اندر مزید حکومتیں بن جائیں تو مرکزی حکومت کی مدت
خطرے میں پڑھ جاتی ہے اور مرکز چائے فوجیوں کے پاس ہو یا جمہوری سیاستدانوں
کے پاس اس کو ہر حال میں قائم رہنے میں ہی حکومتی نظام حکومت کی فلاح اور
ترقی ہے میں عرض کر رہا تھا "پرزے" کی بیوروکریٹ نامی پرزہ اپنے اندر
صلاحتیوں ، تجربے اور عقلبندی کی بنیاد پر بہت طاقت رکھتا ہے کاش اگر یہ
طاقت ہمارے ملک کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے استعمال ہو جاتی تو کیا ہی اچھا
ہوتا لیکن افسوس یہ طاقت ان طاقتوں کو مزید طاقتور کرنے کیلئے استعمال ہو
رہی ہے جو پہلے ہی سے طاقت ور ہیں دیکھئے کسی محکمے کے وزیر یا وزارت کا
دماغ اس کا محکمانہ سیکرٹری ہوتا ہے یہ سیکرٹری کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنے
محکمے اور وزیر کو کسی طرح چلاتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ حکومت رہے
نہ رہے ۔محکمہ رہے نہ رہے وہ اپنی مدت ملازمت تک 22ویں سکیل میں سیکرٹری ہی
رہے گا اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ وزیر اور اپنے محکمے کو اپنے اندا
میں چلاتا ہے اگر وزیر تھوڑی سی بھی ہوشیاری دھکا نے کی کوشش کرے تو اس کے
ماتحت وزارت کے اندر مزید وزارتیں پیدا ہو جاتی ہیں تمام بیورو کریٹس آپس
میںاتحاد قائم کرکے متعلقہ وزیر کوگھٹنوں پر بٹھا سکتے ہیں حالانکہ وزیر
کیساتھ حلقے کے عوام کی طاقت بھی ہوتی ہے لیکن عوام کی طاقت اپنی جگہ ۔محکمہ
کے اندر اصل طاقت تو بیورو کریٹس ہوتے ہیں جو نسل در نسل مختلف محکموں میں
براجمان ہیں جن کی موجودگی میں میرٹ پر محکمے کے اندر بھرتی ہونے کیلئے ایک
عام آدمی کیلئے کوئی راستہ نہیں ہے واحد راستہ کسی طاقت وربیورو کریٹ کو
اپنے ہاتھ میں کرنا ہوتا ہے حیرانگی والی بات ہے کہ ہر آنے والی حکومت
پچھلی حکومت کے وزیروں ،مشیروں کے اثاثے اور پراپرٹی چیک کرتی ہے، بینک
بیلنس تلاش کرتی ہے اور آپس میں ہی لڑائی جھگڑا کرکے 5سال پورے کر لیئے
جاتے ہیں شاہد ہی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہوجس کے اندر کسی وزیرنے اسمبلی یا
پارلیمنٹ کے فلور پر یہ بات اٹھانے کی جرات کی ہو کہ فلاح بیورو کریٹ کی
کروڑوں روپے کی پراپرٹی کہاں سے آئی کا حساب کیا جائے اس کے اثاثوں کو چیک
کیا جائے پتہ چلا کہ بیوروکریٹس سیاستدانوں اور فوجیوں کو اس طرف جانے ہی
نہیں دیتے ہر کسی کو آپس میں لڑا کر بیورو کریٹس نے اپنے مزاج کی حکومت
قائم کر رکھی ہے یہ واحد سلطنت ہے جو عوام کے پیسے سے چل رہی ہے اور مزے
بیوروکریٹس لے رہے ہیں ہے نہ محاسبے کی ضرورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |