اے این پی اور ایم کیو ایم
میں زیادہ فرق نہیں۔ دونوں لسانیت کی ترویج میں کوشاں، دونوں ماردھاڑ کی
پالیسی پر گامزن، دونوں بھتہ خوری کی چیمپین ،دونوں میں مسلح گروپ ہمہ وقت
کارروائی کے لیے تیار اوردونوں روشن خیالی کی دعویدارہیں۔ فرق ہے تو صرف
اتنا کہ ایم کیو ایم کے زیر کنٹرول علاقے صفائی ستھرائی میں اپنی مثال آپ،
سڑکیں آئینہ دار۔ ترقیاتی کام جاری، پانی، گیس اور بجلی کامنظم انتظام۔جبکہ
اس کے مقابلہ میں اے این پی کے زیر انتظام علاقے کسی پسماندہ گاؤں کا منظر
پیش کررہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ کچھروں کے ڈھیر، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ پانی
اکثر علاقوں میں ناپید، کہیں ہے تو اس کثرت سے ضیاع، گلی گلی کوچہ کوچہ
سیراب۔آپ بنارس کی مثال لیجیے۔
کراچی کے ایک علاقے کانام کھڈہ مارکیٹ ہے۔ یہ نام کیوں کر پڑا، ہم کچھ کہنے
سے قاصرہیں۔ ہم نے توصرف نام ہی سنا ہے۔ جب بھی بنارس روڈ سے گزر ہوتا ہے
توکھڈہ مارکیٹ نام ذہن میں گردش کرنے لگتاہے۔ولیکاچورنگی سے قصبہ موڑ جاتے
ہوئے یوں لگتا ہے ہم گاڑی میں سوار نہ ہو، کشتی میں ہچکولے کھارہے ہوں، فرق
صرف اتنا ہے کہ کشتی کے سفر میں دل و جان فرح وسرور سے سرشار ہورہے ہوتے
ہیں جبکہ بنارس کے سفر میں جسم وجان کی چولیں ہل رہی ہوتی ہیں۔
ولیکا تاقصبہ موڑ روڈ عرصہ ہائے دراز سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے۔ تقریباًایک
ماہ قبل عوام کی جان جوکھم میں ڈال کر بنارس کی سڑک تعمیر کی۔ لیکنپانی کی
غیر قانونی لائنوں سے جگہ جگہ پانی ابل پڑاہے جس سے تازہ سڑک قبل از مسیح
کا منظر پیش کررہی ہے۔ یہاں سے عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈران گاہے بگاہے
گزرتے ہیں لیکن شاید ان کی گاڑیوں میں جمپس جاپان سے امپورٹ شدہ ہیں جس سے
کھڈوں کاا حساس تک نہیں ہوتا، یاشاید سب ٹھیک کا چشمہ لگارکھا ہے۔بنارس
کانام سنتے ہی پختون بھائی ذہن میں آموجود ہوتاہے۔ یہ اہمیت کی حامل جگہ ہے۔
قریب بہت بڑی مارکیٹ ہے جہاں سے قرب وجوار کے لوگ خریداری کے لیے آتے
ہیں۔میری اے این پی خصوصاً پختون بھائیوں سے گزارش ہے اس اہم جگہ کو ترجیحی
بنیادوں پر اہمیت دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو منچلے کھڈہ مارکیٹ کو بنارس اور
بنارس کو کھڈہ مارکیٹ کہنا شروع کردیں۔ |