جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف غیر آئینی اقدامات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ملکی آئین کے تحت کام کرنے والی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف غیر آئینی اقدامات

جماعت اسلامی کے دستور میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ یہ جماعت ملکی آئین کی حدود کو پامال نہیں کرے گی۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒنے جب 26اگست1941ء کو اس جماعت کی تاسیس کی تو یہ دورغلامی تھا،اس وقت جماعت اسلامی کے رکن بننے والوں کے لیے لازم تھا کہ وہ وقت کی حکومت کے کسی ادارے میں کسی طرح کی کوئی درخواست،اپیل،دعوی یا مقدمہ لے کر نہ جائیں گے بلکہ رکنیت کے حصول کے لیے انگریزکی ملازمت جیسی وقت کی اعلی مراعات کو بھی چھوڑنا پڑتاتھا۔جماعت کے اسلامی میں شامل ہونے والوں نے اس دور میں حکومتی مناصب کو خیرآبادکہااوررزق حلال کے دیگرذرائع اختیارکرکے توجماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کی۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کی وجہ ریاست کے اقتداراعلی کاخلاف اسلام ہونا قراردیا۔آزادی کے بعد جب قرارداد مقاصد دستورکاحصہ بناتوجماعت اسلامی نے یہ جملہ پابندیاں ختم کردیں کیونکہ اب ریاست ایک طرح سے مشرف بہ اسلام ہو چکی تھی۔بعد میں جب باقائدہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیاتو دستورجماعت اسلامی کی تدوین نو کی گئی جس میں یہ تحریر کیاگیاکہ اقامت دین کی جدوجہد میں ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے دستوری ذرائع ہی اختیار کیے جائیں گے۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒنے ہر طرح کے غیردستوری و غیرآئینی اقدامات اختیارکرنے کی مخالفت کی اور پرامن جدوجہد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی طرف پیش رفت کرنے کاقصد کیا۔گزشتہ صدی کے ربع آخر میں جب عرب ممالک میں اخوان المسلمون پر ابتلا ء و آزمائش کے پہاڑ توڑے گئے تو انہیں بھی مولانا مودودی ؒ نے یہی نصیحت کی کہ بغاوت کی بجائے اپنی تمام سرگرمیوں کوملکی آئین کے تحت پابندکریں جس کا ثمربارآورآج بخوبی دیکھاجارہاہے۔پاکستان کی تاریخ میں جماعت اسلامی پر پابندیاں بھی لگیں لیکن پھربھی جماعت اسلامی کی قیادت نے غیرآئینی و غیردستوری راستہ اختیارکرنے سے احترازکیااور جب تک وہ پابندیاں لگی رہیں اپنی سرگرمیاں معطل رکھیں تاآنکہ پابندیاں ہار گئیں یاپابندیاں لگانے والے تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگئے۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد ایک مدت تک وہاں کی جماعت اسلامی پر پابندی لگی رہی اور جماعت اسلامی کی قیادت ملک میں روپوش رہی یاملک سے فرار ہی رہی۔وقت کے ساتھ ساتھ حالات نے کروٹ لی اور عدالتوں کے ذریعے سے اور عوام کے اثرونفوذ سے جماعت اسلامی کو کام کرنے کی آزادی میسر آ گئی۔چنانچہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراََ بعد 1973میں جو ملکی انتخابات ہوئے اس وقت چونکہ جماعت اسلام کالعدم تھی اس لیے انتخابات میں حصہ نہ لے سکی۔پانچ سال بعد1978ء میں جو انتخابات ہوئے تو اس وقت تک جماعت کو بحال ہوئے اتنا وقت نہیں گزراتھا کہ مناسب تیاری کی جاتی اور انتخابات میں مناسب امیدوار کھڑے کیے جاتے چنانچہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش 1978ء کے انتخابات سے بھی عملاََباہر ہی رہی۔1986ء میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی نے دس نشستیں حاصل کیں اور یہ کافی حوصلہ افزا تعداد تھی۔ان دس ارکان پارلیمان کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے ملک بھرمیں اپنے دعوتی و تحریکی کام کو ایڑھ لگائی اور بنگلہ دیش کے آئین اور قانون کے تحت اپنی سرگرمیاں محدود رکھیں۔ان مساعی کا نتیجہ نکلا کہ 1991ء میں منعقدہ ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی نے اٹھارہ نشستیں حاصل کر لیں جبکہ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے نمائندگان اس تعدادکے سوا تھے۔یہ سب ملکی آئین اور قانون کے تحت کام کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والا عوامی اعتماد تھا۔1996ء کے انتخابات میں بوجوہ کل تین نشستیں ہی حاصل کی جاسکیں لیکن 2001ء کے انتخابات میں ایک بار پھر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو قوم نے اٹھارہ نشستوں کا اعتماد دے دیابلکہ اس بار تو ملک کی تین دیگر سیاسی جماعتیں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ اس انتخابی معرکے میں شانہ بشانہ تھیں۔اس تمام عرصے کی آئینی وسیاسی و انتخابی جدوجہدمیں جماعت اسلامی کے بعض اراکین پارلیمان کے پاس وفاقی وزارتوں کے قلمدان بھی رہے اورانہوں نے اپنے مناصب کا حق بھی اداکیا۔

اسلامی ممالک میں استعماری قوتوں کی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی مقبولیت قریب اور دور کے طاغوت کے لیے ناقابل برداشت تھی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ نے کبھی دشمن سے شکست نہیں کھائی بلکہ ہمیشہ غداروں نے ہی اس ملت کی کمر میں چھرا گھونپاہے اورآستین کے سانپ ہی اس امت کو ڈستے رہے ہیں۔اسلامی نظام حیات کے جامع تصورکی حامل اس جماعت کو بھی بنگلہ دیش میں تیزی سے کنارے لگانے کاکام اسی طرح کیا جانے لگاجس طرح دیگر اسلامی ممالک میں ایک عرصے سے حاملین دین حق کے خلاف زمین تنگ کی جارہی ہے۔بنگلہ دیش میں اس جماعت کے مخالفین کے ہاتھ میں قیام بنگلہ دیش کی مخالفت کے سوا اور کوئی ہتھیار موجود نہ تھا۔کس کس طرح کے عدسے لگا کر دیکھاگیا،کوئی اخلاقی عیب،کوئی مالیاتی بدعنوانی،کوئی خلاف قانون و خلاف آئین اقدام یا کسی طرح کے ملکی و قومی مفاد کے خلاف کوئی بیان تک ان کے ہاتھ نہ لگا۔اس کام پر جس قدر افرادی قوت اور وسائل خرچ کیے گئے ہوں گے ان کا اندازہ بخوبی کیاجا سکتاہے۔سب ناکامیوں کے بعد بالآخراسی ایک ہتھیارکو استعمال میں لایاگیا اور ایک ملک گیر مہم کے ذریعے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی کردارکشی کی جانے لگی ،یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے زیرزمین اقدامات کے ذریعے تک جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو اس حد تک دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا کہ2008ء کے انتخابات کے نتائج میں جماعت اسلامی کل دو نشستیں ہی حاصل کر پائی اور وہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحادکے باعث۔

ان مصنوعی حوصلہ شکن نتائج کے بعد سے جماعت کے قائدین اور کارکنان کے خلاف ایک مشق ستم ہے جس میں انہیں انتہائی بے دردی سے گھسیٹاجارہاہے اور گویاظلم کی چکی ہے جس کی گردش کم ہونے کو ہی نہیں آرہی۔بنگلہ دیش کی حکومت نے جماعت اسلامی کے قائدین پر بنے مقدمات کو انتہائی چابک دستی سے چلایاہے اور اس مہم میں وہ اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ اعلی اسلامی رواداری اور عفو درگزرکے اسباق تو کجا انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی یاد نہیں رہے۔نہ جانے بنگلہ دیش کی سرزمین پر یہ کس کا کھیل کھیلا جارہاہے کہ دہائیوں تک کام کرنے والی اور عوامی اعتماد کی حامل ایک سیاسی و دینی جماعت یکایک ملک دشمن قرارپارہی ہے ،اس کے خلاف کل ملکی انتظامیہ حرکت میں بھی آ گئی ہے،ملکی مقننہ اس کے خلاف قانون سازی کرنے پر تیارہوگئی ہے اور ایڑی چوٹی کا زور لگاکر اسے خلاف قانون قرار دیے جانے کی انتھک کوشش کی جارہی ہے اور حد تو یہ کہ انٹر نیٹ پر جماعت اسلامی کی حمایت میں بننی والی ویب سائٹس اور متعدد پیجزکو بھی جبراََبند کردیاگیاہے۔اس جماعت کے بزرگ ترین لوگ جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ان کے فرائض ختم ہوچکتے ہیں اور حقوق ہی حقوق باقی رہتے ہیں ایسے بزرگوں کو بھی ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے بستروں سے اٹھاکر عدالت کے کٹہروں میں کھڑاکیاجارہاہے۔جماعت اسلامی کے کارکنان اگر اپنے آئینی و قانونی حق کو بروئے کارلاتے ہوئے کوئی مظاہرہ کرتے ہیں توان پر گولیاں چلاکر انہیں اگلی دنیامیں بھیج دیاجاتاہے۔آخر یہ کونسا قانون ہے جو غیروں کے اشاروں پر اپنوں سے دست و گریباں ہے۔عوام کی اکثریت حکومت کے ان اقدامات سے بے حد نالاں ہے کیونکہ ان حکومتی اقدامات کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں اور عوام کی اکثریت سڑکوں پر نکل آئی ہے اور جگہ جگہ پولیس سے جھڑپیں جاری ہیں جن میں متعدد افرادکے قتل اور زخمی ہونے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں اور بعض شہروں میں تو ہڑتال کاسا سماں بندھاہواہے۔حکمران کچھ بھی کر لیں،بنگلہ دیشی عوام کے سینوں سے ایمان کو تو بہرحال منفی نہیں کیاجاسکتاآخر کو ان پر کیسی ہی قیادت مسلط کر دی جائے وہ پھر بھی امت مسلمہ کے مقدس جسم کاایک لازمی حصہ ہیں۔

بنگلہ دیشی حکومت جس سیکولرازم کی آشیرباد کے لیے اسلام پسندوں کے خلاف یہ چکی چلا رہی ہے کچھ بعید نہیں کہ سیکولرازم کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کے ساتھ یہ بھی بجھ جائیں۔سیکولرازم کی کوکھ سے پھوٹنے والاکیمونزم اپنے انجام کو پہنچ چکاہے،برطانیہ کاسورج کب کا غروب ہو چکا،USSRکاوجود ہی دنیاسے نابود ہو گیا،امریکہ کی آخری ہچکیاں اسے افغانستان کھینچ لائی ہیں اوریہیں سے بہت جلد اس کاتابوت بحراوقیانوس کی طرف روانہ کردیاجانے والا ہے اور جب مہاجن کے یہ سہارے ہی باقی نہیں رہیں گے تو بھارت اور اسرائیل جیسی آکاس بیلیں بھلا کیسے باقی رہ سکتی ہیں؟؟۔آسمانی صحیفوں میں یہ حقیقت آشکاراکردی گئی ہے کہ اس زمین کا مستقبل نبی آخرالزماںﷺ کی تعلیمات سے منسلک ہے ۔اس دنیائے انسانیت کو سیکولرازم کا کذب و نفاق کوئی آسودگی اور راحت فراہم نہیں کر سکاصرف سرکاردوعالم ﷺ کا خطبہ حجۃ الوادع ہی انسانیت کے لیے میٹھا چشمہ فیض اور قرآن مجید کی تعلیمات ہی بنی نوع انسان کے لیے سود ی نظام استحصال سے پاک معاشی و معاشرتی نظام کے ضامن ہو سکتے ہیں۔اور یہ آسمان دیکھے گا کہ اس دنیامیں نور توحید بہرحال ایک ایک گھر کے آنگن کو روشن کرے گا،انشا ء اﷲ تعالٰی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.