محسن اعظم قائد اعظم اور پیپلز پارٹی

کیا ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب یا سیاست کوئی نجی معاملہ ہے ؟ یا پھر کچھ عناصر چاہتے ہیں کہ جس طرح مسیحیت، مغرب کے تخیل کے تحت منتشر ہوئی ، اسلام بطور ایک اخلاقی تخیل کے تو برقرار رہے لیکن اس کے نظام ِ سیاست میں فروعی خواہشات شامل ہوں۔پاکستان کی اساس اور موجودہ پاکستانی ماحول میں فرقہ واریت ولسانیت کا عنصر ،بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔پاکستان کوبہ حیثیت منظم ریاست کے تصوراتی رہنما ڈاکٹر اقبال کا ماننا تھا کہ "میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح وبہبو د کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہا ہوں ۔"ڈاکٹر علامہ اقبال نے جناح کو مورخہ 28 مئی 1937 ءکو ایک مکتوب میں لکھا "لیگ کو آخر العمل یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ ایک ایسی جماعت رہنا چاہتی ہے ، جو صرف مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ کی نمائندگی کرے یا وہ عوام کی نمائندگی کرنا چاہتی ہے۔ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ،جو مسلمانوں کے متوسط طبقہ کی مرفہ الحالی کا وعدہ نہیں دے سکتی ، عوام کےلئے کبھی جاذب ِ نگاہ نہیں بن سکے گی۔"علامہ اقبال اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ اسلام کی بنیادی حقیقت کو کس طرح عوام الناس تک پہنچانا ہے اور وہ عمر بھر اسی حقیقت کو پیش کرنے میں جتے رہے ، لیکن یہ احساس بھی ان کے دل میں برابر کھٹک پیدا کر رہا تھا کہ ان کے بعد ہندوستان میں ان نظریات کو عملی طور پر کون آگے بڑھائے گا ؟ ۔تاریخ نے دیکھا کہ ان کی نگاہ انتخاب اس شخص پر ٹھہری جو عمر بھر نیشنلسٹ رہا اور پھر ہندوستانی سیاست سے مایوس اور دل برداشتہ ہوکر لندن میں خلوت نشین ہوگیا ۔محمدعلی جناح کو قائدا عظم بنانے کےلئے ان کی اس جدوجہد کو انگریز مرتب ہیکٹر بولتھیو نے کچھ یوں ان الفاظوں میں قائد اعظم کی سوانح حیات میں بیان کیا ہے کہ"اپنے قیام لندن کے دوران ، مسٹر جناح نے اقبال سے کئی ملاقاتیں کیں ،وہ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے ، لیکن اس کے باوجود جناح نے اقبال کے دلائل کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا ، اس میں قریب دس سال کا عرصہ لگا۔"اقبال کی ان ہی کاوشوں کے نتیجے میں تصور پاکستان کی اصل حقیقت کو ان سنہری لفظوں میں ۸ مارچ 1944 ءکو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تقریر میں کچھ یوں بیان کیا،۔"پاکستان کا آغاز اس دن ہوگیا تھا ، جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا ۔یہ اس زمانے کی بات ہے ،جب یہاں ہنوز مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی"۔بات کس قدر واضح ہوچکی تھی جب اس نظرئے کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں اس وقت دو قوموں کا وجود عمل میں آگیا جب پہلی بار ایک غیر مسلم ،اسلام لے آیا ۔انہوں نے ہندﺅں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کو ایڈورڈس کالج ،پشار میں 27 نومبر 1945 ءمیں اس طرح بیان کیا کہ"ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں ، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے ، ہمارا دین ،ہمیں ایک ایسا ضابطہ حیات دیتا ہے ، جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے ، ہم، اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔"قائداعظم نے 13 جولائی 1947 ءکو نامزد گورنر جنرل کی حیثیت سے دہلی کی پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستان میں اقلتیوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا"میں ان وعدوںمیں سے جو میں نے بارہا اقلیتوں کے بارے کئے ہیں ،منحرف نہیں ہونگا ، میں نے بارہا اقلیتوںکے بارے میں کہا ہے کہ انہیں پورا پورا تحفظ حاصل ہوگا ۔ا قلیتوں کو خواہ وہ کسی جماعت اورفرقے سے متعلق ہوں ،بہرطور پوری طرح تحفظ دیا جائے گا ، ان کو اپنی مذہبی رسومات و عبادات کی پوری آزادی ہوگی،اس میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی ، ان کی جان ، ان کے مال اور ان کے تمدن کی پوری حفاظت کی جائے گی اور انہیں بلا تفریق مذہب وملت و رنگ ہر صورت میں پاکستان کا باشندہ تصور کیا جائےگا۔"اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اقبال کے خواب کو تعبیر دینے والے جناح کے پاکستان میں کیسے تحفظ مل رہا ہے ؟۔یقینی طور پر قائد اعظم کا پاکستان ایسا نہیں ہے بلکہ جس طرح موجودہ حکومت اور سابقہ ادوار میں پالیساں رہی ہیں وہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اقتدار پسند ٹولے کو قائد اعظم کا پاکستان پسند نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ایک نظریاتی المیہ چشم فلک نے دیکھا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے ، ملک دولخت کرنے والے بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا، خود کو قائد اعظم کی جماعت کہنے والی ، مسلم لیگ ق اور پاکستان بننے کی مخالف جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بل کی حماےت کرتے ہوئے ، مسلم لیگ ن ،ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے قومی اسمبلی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج کو ختم کرکے "شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی"کے قیام سے متعلق بل منظور کرلیا۔اقبال اور جناح نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اِن کے دئےے پاکستان کا ایسا حشر اُن جانشینوںکے ہاتھوں ہوگا ، جن کے اکابرین پاکستان بننے کی مخالفت کرتے رہے اور وہ لوگ جنھوں نے اقتدار کےلئے پاکستان کے دو ٹکڑے کرتے ہوئے ، اِدھر ہم ، اُدھرتم کا نعرہ بلند کیا تھا ۔موجودہ حکومت کی پالسیوں نے پاکستان میں قائد اعظم کے تصور اور اقبال کے خواب کو چکنا چور کرکے رکھ دیا ہے، اقلیتوں ، کےساتھ کی جانے والی نا انصافیوں ،فرقہ واریت ، لسانیت کے فروغ کےساتھ قوموں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کےلئے پیپلز پارٹی کے کردار کو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کالے حروف سے لکھا جائے گا۔ مقام افسوس ہے کہ ملکی یکجہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی پالیسی رکھنے والی پیپلز پارٹی نے اقتدار کےلئے جہاں مفاداتی مفاہمتی پالیسی سے ، ناقابل تلافی نقصان پاکستان کو پہنچایا تو دوسری جانب پاکستان کی نظریاتی اساس کے خالقوں پر ملک توڑنے والوں کو ترجیح دی جا رہی ہے ، یہ انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے۔ پاکستان بنانے کےلئے اقبال اور قائد اعظم نے دو قومی نظریہ پر امت مسلمہ کو یکجا کیا اور پوری دنیا سے منوایا کہ پاکستان کا مقصد ، ایسے معاشرے کی تخلیق ہے جہاں ، مسلمانوں کو تو حقوق حاصل ہوںہی، لیکن اس کےساتھ ساتھ غیر مسلم (اقلیت) اور مختلف فرقوں کے افراد کو بھی اپنے مسالک پر مکمل مذہبی آزادی ہو ، لیکن پاکستان کو اس کا اصل تشخص دلانے کے بجائے پیپلز پارٹی ، اے این پی اور مسلم لیگ ق جیسی جماعتیں جو کھیلوار کر ہی ہیں ، اس نے پاکستان کی اساس پر براہ راست حملہ کرکے ، پاکستانی عوام کو اقلیت میں اور اقتدار پرستوں کو اکثریت میں تبدیل کردیاہے !!
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.