حمید نظامی٬ صحافت اور حکومت

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ نے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ جب جنگ احد کا ذکر فرماتے تو یہ ارشاد فرماتے یہ دن سارے کا سارا حضرت طلحہ ؓ کے حساب میں ہے ۔پھر (تفصیل سے ) بیان فرماتے کہ میدان جنگ سے منہ موڑنے والوں میں سے سب سے پہلے واپس لوٹنے والا میں تھا ،تو میں نے دیکھا ایک آدمی حضوراکرم کی حفاظت کے لیے بڑے زور و شور سے جنگ کر رہا ہے ،میں نے اپنے دل میں کہا کہ خدا کرے یہ حضرت طلحہ ؓ ہوں اس لیے کہ جو ثواب مجھ سے چھوٹنا تھا وہ تو چھوٹ گیا اب مجھے زیادہ پسند یہ ہے کہ یہ ثواب میری قوم کے کسی آدمی کو ملے ۔(اور حضرت طلحہ ؓ میری قوم کے آدمی تھے)اور میرے اور مشرکین کے درمیان ایک آدمی اور تھا جسے میں پہچان نہیں رہا تھااور میں بہ نسبت اس آدمی کے حضور سے زیادہ قریب تھا لیکن وہ مجھ سے زیادہ تیز چل رہا تھا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابو عبیدہ بن جراح ؓ ہیں ۔ہم دونوں حضور کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ آپﷺ کا اگلا دانت شہید ہو چکا ہے اور آپﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہے اور خود کی دو کڑیاں آپﷺ کے رخسار مبارک میں گھس گئی ہیں ۔آپﷺ نے ہم سے فرمایا اپنے ساتھی طلحہؓ کی خبر لو جو کہ زیادہ خون نکلنے کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے ۔(حضور کو زخمی حالت میں دیکھ کر ) ہم لوگ آپﷺ کے اس فرمان کی طرف توجہ نہ کر سکے ( ہم بہت پریشان ہو گئے تھے ) میں حضور کے چہرے سے کڑیاں نکالنے کے لیے آگے بڑھا تو ابو عبیدہ ؓ نے مجھے اپنے حق کی قسم دے کر کہا کہ (یہ سعادت لینے کے لیے ) مجھے چھوڑ دو ۔میں نے (یہ موقع ) ان کے لیے چھوڑ دیا انہوں نے ہاتھ سے کڑیاں نکالنا پسند نہ کیا کہ اس سے حضور کو تکلیف ہو گی بلکہ دانتوں سے پکڑ کر ایک کڑی نکالی کڑی کے ساتھ ان کا سامنے کا ایک دانت بھی نکل کر گر گیا جو انہوں نے کیا اسی طرح کرنے کے لیے میں آگے بڑھا پھر مجھے اپنے حق کی قسم دے کر کہا (یہ سعادت لینے کے لیے)مجھے چھوڑ دو اور انہوں نے پہلی مرتبہ کی طرح دانتوں سے پکڑ کر کڑی کو نکالا اس دفعہ کڑی کے ساتھ ان کا دوسرا دانت نکل گیا۔دانتوں کے ٹوٹنے کے باوجود حضرت ابو عبیدہؓ لوگوں میں بڑے خوبصورت نظر آتے تھے ۔حضورکی خدمت سے فارغ ہو کر ہم لوگ حضرت طلحہ ؓ کے پاس آئے وہ ایک گڑھے میں پڑے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر نیزے اور تیر اور تلوار کے ستر سے زیادہ زخم تھے اور ان کی انگلی بھی کٹ گئی تھی ہم نے ان کی دیکھ بھال کی ۔

قارئین آج کا کالم درج بالا تاریخ کے سنہری واقعہ کی روشنی میں قلم کی حرمت ،حق کی خاطر اور ظالموں کے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے پر جدوجہد کی دلالت کرتا ہے ۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ دین اسلام کی نعمت و دولت ہمیں ایسے ہی مل گئی ہے تو یہ ہماری بھول ہے ہمارے اسلاف نے حق کے اس پیغام کو روئے زمین پر آباد ہر انسان تک پہنچانے کے لیے جو قربانیاں دیں اگر ہم ان قربانیوں کو دل سے سمجھ لیں تو یقین جانیے قول وفعل کے تضادات بھی دور ہو جائیں اور اللہ کا نظام بہت کم وقت میں دنیا پر قائم ہو جائے ۔

قارئین حمید نظامی 1915میں سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1932میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور گریجویشن کے بعد ایف سی کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا ۔اسلامی کالج ہی کے زمانے میں حمید نظامی نے صحافتی زندگی کا آغاز کیا ،وہ کالج کے مجلہ کریسنٹ کے ایڈیٹر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ادبی اور سیاسی رسالے سار بان میں ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی حمید نظامی نے 1937میں مسلمان طلباءکی تنظیم مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن قائم کی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔1940میں لاہور کے منٹو پارک میں قرار پاکستان کی منظوری کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے حمید نظامی کو طلب کر کے ان کی ذمہ داری لگائی کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں تک تحریک پاکستان کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک اخبار کا اجراءکیا جائے ۔حمید نظامی نے قائد اعظم ؒ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے 29مارچ 1940میں پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراءکیا ۔نومبر 1941میں نوائے وقت ہفت روزہ ہو گیا اور جولائی 1944میں یہ اخبار روزنامہ کی حیثیت سے چھپنا شروع ہو گیا ۔14اگست 1947کو پاکستان بننے کے بعد حمید نظامی نے جن نظریات کے تحت پاکستان بنایا گیا تھا ان کے دفاع کے لیے شمشیر بے نیام کا کردار ادا کیا ۔بد قسمتی سے قائد اعظم ؒ اور نواب زادہ لیاقت علی خان بہت جلد داغ مفارقت دے گئے اور ان عظیم قائدین کے بعد بونوں کی ایک حکومت در حکومت کا سیاہ دور شروع ہوا۔حمید نظامی کی قیادت میں نوائے وقت نے سچ لکھنا جاری رکھا اور اس سچ لکھنے کی پاداش میں کبھی تو نوائے وقت ڈکلیریشن منسوخ کیا گیا ،کبھی سرکاری اشتہارات روک دیے گئے اور کبھی دیگر ہتھکنڈے اپنائے گئے ۔جمہوری آمروں اور وردی پوش آمروں کے سامنے حمید نظامی کی قیادت میں نوائے وقت ،صحافیوں اور صحافت نے ہمیشہ ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور اس حرف انکار کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی ۔معاشی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ قلبی دکھ اس حد تک بڑھا کہ حمید نظامی بیمار ہو گئے ان کے چھوٹے بھائی مجید نظامی ان دنوں برطانیہ تعلیم کی غرض سے مقیم تھے بھائی کی علالت کا سن کر وہ واپس آئے تو بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر صرف یہ آخری الفاظ کہے ” میں بہت خوش ہو آپ چلے آئے “ 25فروری 1962کو محض 47سال کی عمر میں حمید نظامی اپنا مشن اپنے چھوٹے بھائی مجید نظامی کے سپرد کر کے جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ان کی اس مختصر زندگی کا سبق بھی یہی تھا کہ جان چلی جائے لیکن سچ کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔

قارئین آج پاکستان اور آزاد کشمیر میں اگر آنکھ کھول کر دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور آذر کا دور ہے اور اسے کسی براہیم کی تلاش ہے ۔طاقت کے ایسے جھوٹے بت تراشے گئے ہیں کہ جو اہل حق اور سچ بولنے والوں کے لیے مشکلات اور پریشانیاں بڑھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان میں تیس سال سے زائد عرصہ کے لیے ایسے ووردی پوش جنرلز اقتدار پر براجمان رہے جو اپنے خلاف کیے گئے تجزیے اور سچ کو اس حد تک برا سمجھتے تھے کہ اخبارات کے مالکان کو جیلوں میں بھیج دیا جانا معمولی بات تھی ۔کئی آمر ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اخبارات پر اس نوعیت کی پابند یاں عائد کیں کہ جو مہذب دنیا میں سوچنا بھی محال ہیں ۔پاکستان اور آزاد کشمیر 2013میں صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین خطوں کی فہرست میں پہلے چند ممالک میں آتے ہیں ۔

قارئین آج کل آزاد کشمیر میں جہاں حکومت کی تبدیلی ،ان ہاﺅس تبدیلی ،قائد ایوان کی تبدیلی سمیت مختلف موضوعات زیر بحث ہیں وہیں پر ریاستی اخبارات کا ایشو گرم ترین موضوعات میں سے ایک ہے ۔ریاستی اخبارات اور ریاستی صحافی عام اخبارات اور عام صحافیوں کی نسبت کچھ مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں ۔یہ صحافی اور اخبارات چونکہ خطہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے معاشرتی ،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کشمیر کو پوری دنیا میں اجاگر کرنے میں ان کا کردار ایک مجاہد جیسا ہے ۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید جو ایک انتہائی سرد گرم چشیدہ اور معاملہ فہم سیاستدان ہیں وہ اس معاملے کی نذاکت کیوں نہیں سمجھ رہے ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی بد قسمتی ہے کہ انہیں ایسے ناسمجھ سیاسی مشیروں اور بیوروکریسی کے بعض کل پرزوں نے یرغمال بنا لیا جو انہیں نہ تو درست دیکھنے دیتے ہیں نہ ہی درست سننے دیتے ہیں اور نہ ہی درست سوچ کر درست فیصلہ کرنا دیتے ہیں ،یہ انہی نا سمجھ لوگوں کی نادانیاں ہیں جن کی وجہ سے آزا د کشمیر میں ترقیاتی انقلاب کے بانی انتہائی ذہین وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کے لیے ان دنوں سیاسی مشکلات ایک سونامی کی صور ت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری عبدالمجید میں یہی وہ فرق ہے کہ جس کی بنا پر وفاق میں چار حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کامیابی سے اپنی حکومت قائم رکھی اور آج آزاد کشمیر میں دو تہائی اکثریت کے باوجود چوہدری عبدالمجید کی وزارت عظمیٰ ایک سوالیہ نشان کے ساتھ زیر بحث ہے ۔چوہدری عبدالمجید کو چاہیے کہ ان ریاستی اخبارات اور ریاستی صحافیوں کو اپنا دشمن مت سمجھےں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے میرٹ پر درست فیصلہ کریں ۔ریاست تمام عوام کے لیے ایک ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جو لوگ یا صحافی ”زرد صحافت “ کرتے ہیں ان کی زندگی انتہائی تھوڑی ہوتی ہے اور ارباب حل و عقد اور ارباب عقل و دانش بہت جلد ان کی اصل کو سمجھ کر ان کی ریٹنگ کر دیتے ہیں یہاں قلم کی حرمت سمجھنے والے با ضمیر صحافی بھائیوں سے بھی ہم گزارش کریں گے کہ وہ گندی مچھلیاں کہ جو صحافت جیسے انتہائی معزز اور مقدس پیشے کو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں انہیں ضرو ر شناخت کیا جائے اور ان کا سد باب بھی کیا جائے ۔یہاں ہم آزاد کشمیر حکومت اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ایک مرتبہ پھر اپنے کالم کی وساطت سے اپیل کرتے ہیں کہ ریاستی اخبارات اور ریاستی صحافیوںکے جائز مطالبات کو ضرور تسلیم کیا جائے ورنہ یہ یاد رکھا جائے کہ حمید نظامی مرحوم کی شکل میں صحافیوں کے لیے ایک ایسی روشن مثال موجود ہے کہ اگر درست معنوں میں ان کی پیروی شروع کر دی گئی تو بڑے سے بڑا فرعون وقت بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔یہاں بقول چچا غالب ہم کہتے چلیں
عشق مجھ کونہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

قارئین یہ تو وہ تمام باتیں ہم نے آپ کے سامنے رکھیں جن کا تعلق صحافت کی دنیا کے ایک شاہین کی روشن زندگی اور روشن ضمیری کے ساتھ تھا اور جن کا تعلق آزا د کشمیر کے ریاستی اخبارات اور ریاستی صحافیوں کے ساتھ ہے اب کچھ سیاسی باتیں اور مخبریاں بھی آپ کے گوش گزار کرتے چلیں ۔

آزاد کشمیر کے مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے متعلق مختلف افواہیں زیر بحث ہیں ۔چائے خانوں ،ہوٹلوں ،نجی محفلوں سے لےکر برطانیہ امریکہ مشرق وسطی سعودی عرب اور نہ جانے کہاں کہاں جہاں کشمیر ی روزگا ر کی تلاش رہتے ہیں وہاں چوہدری عبدالمجید کی وزارت عظمیٰ کا سورج ڈوبنے کے امکانات پر باتیں کی جا رہی ہیں ۔اس سلسلے میں بعض احباب دلچسپ قسم کے ایس ایم ایس بھی مارکیٹ میں لے آئے ہیں اور یار لوگ مسخری کے لیے یہ باتیں فارورڈ بھی کررہے ہیں اور نقل بھی کر رہے ہیں ہم دل آزاری پر مبنی اس حوالے سے کوئی بھی بات نہیں کریں گے کیونکہ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری المعروف کھپے والی سرکار ،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی المعروف مرشد پاک ،موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف المعروف راجہ رینٹل ،پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک المعروف موبائل فون والی سرکار سے لیکر دیگر انگنت حکومتی نمائندوں کے اعمال اور افعال زبان خلق پر نقارہ خدا بن کر بول رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ کس ”عزت مآب “کی اصل حیثیت کیا ہے ۔ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے تمام تعلیمی کارناموں ،ماضی میں نفرتوں اور اختلافات کی جڑ کو ختم کر کے آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز میں میڈیکل کالجز کے قیام ،میگا پراجیکٹ کی بھرمار اور دیگر مثبت کارناموں کے ہم دل سے قائل ہیں اور ان تمام کارناموں پر ہم پہلے بھی یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کر لے چوہدری عبدالمجید وزیراعظم کی حیثیت سے یہ تمام کارنامے انجام دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا چکے ہیں لیکن ہم ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ جسارت کرتے ہیں کہ جناب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید صاحب انگریزی ایک محاورے کا اردو مفہوم کچھ یو ں ہے کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں کہیں آگ لگی ہوتی ہے ۔آپ خود ہی بتائیے کہ جناح ماڈل ٹاﺅن سکینڈل ،میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سکینڈل ،میرپور تا خالق آباد ڈیول کیرج وے سکینڈل ،ادارہ ترقیات میرپور سکینڈل ،جموں کشمیر کونسل سکینڈل اور ایسے درجنوں سکینڈلز میں اربوں روپے کی کرپشن کا تذکرہ بار بار کیوں کیا جار ہا ہے ۔چوہدری عبدالمجید کو چاہیے کہ پہلے ان تمام فرنٹ مینوں کو پکڑیں جو ان کے نام پر لوگوں سے پیسے کھا رہے ہیں اور جو وزیراعظم کے نام پر کروڑوں روپے شاید اپنی جیبوں میں ڈال چکے ہیں یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ریاست کا ایک ایک اخبار چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے ۔بقول شاعر
آپ خود اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

قارئین آزاد کشمیر میں تبدیلی آتی ہے کہ نہیں ،چوہدری عبدالمجید وزرات عظمیٰ بچانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں کہ نہیں ،بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بنتے ہیں کہ نہیں ،ہم طوطا فال نکالنے کی بجائے اپنے استاد محترم آزاد کشمیر کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار اور ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “میں ہمارے رہبر راجہ حبیب اللہ خان کی زبان میں بات کریں گے جس کے مطابق 2013کے پاکستانی انتخابات کے لیے ”پاﺅنڈ پالیٹکس “کے آغاز کا نقارہ بج چکا ہے اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید پر لگائے جانے والے الزامات اور حکومت کی تبدیلی کی باتیں بھی ”بولی کا آغاز“ ہیں۔سوچا جائے تو یہ تمام صورتحال کشمیری قوم ریاست اور سیاست کی توہین ہے اور اگر اہل قلم بھی اس کا حصہ بنتے ہیں تو یقین جانیے یہ صحافت کی توہین بھی ہے کاش اہل قلم اس امر کو سمجھ جائےں ۔

آخر میں حسب راویت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک شخص نے نجومی کو ہاتھ دکھاتے ہوئے پوچھا
”کیا میرے ہاں کوئی اولاد ہو گی “
بقراط صورت بنا کر نجومی نے غور سے ہاتھ دیکھا اور کہا
” تمہارے ہاں تو اولاد نہیں ہو گی ہاں تمہارے لڑکے کے ہاں ضرور ہو گی “

قارئین حکومتوں کے جانے اور آنے کی باتیں کرنے والے بعض اوقات اسی نجومی جیسے ہوتے ہیں ۔ہماری تحریر اور عرضداشت کا مدعا صرف اور صرف اتنا ہے کہ وقت اچھا ہو یا بُرا گزر جاتا ہے فرق نہیں پڑتا لیکن اچھے اور برے کرتوتوں کا فرق ضرور پڑتاہے ۔اللہ ہمیں اور حکمرانوں کو انسان بننے کی توفیق دے ۔آمین۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337057 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More