ایک ایسے وقت جب پاکستان میں
الیکشن ہونے جارہے ہیں اچانک طالبان دہشتگردوں کی طرف سے حکومت سے مذاکرات
کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا
اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا
فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت
مانگی تھی۔ دہشتگردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا کہ ڈاکٹر
عبدالقدیر پاکستان کا سرمایہ ہیں انکی مذاکرات میں ثالثی کیلئے پیش کش زیر
غور ہے، متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف کارروائیاں مزید تیز کردی جائیں گی یعنی
ابھی دہشت گرد کراچی کے عام لوگوں پر اور ظلم کرینگے۔ حکومت اور طالبان کے
درمیان مذاکرات میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف)
کو ضامن بنانے کے اعلان کے بعد تینوں جماعتوں کے رہنماوں کے نمائندہ وفد کو
قبائلی علاقوں کے دورہ کی دعوت بھی دی ہے۔ دہشت گرد گروہ طالبان کے ترجمان
نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث اور سیکڑوں بے
گناہ پاکستانیوں کے قاتل پانچ طالبان دہشت گرد حاجی مسلم خان،مولوی عمر اور
مولانا محمود سمیت دیگر دو کو بھی رہا کیا جائے ۔ مولوی عمر جو کہ حکیم
اللہ محسود کا خاص ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمان بھی ہے اسکو
سیکورٹی فورسز نے ایک کاروائی کے دوران اگست 2009ء میں گرفتار کیا تھا۔
مسلم خان جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مشہور معروف رہنما ملا فضل
اللہ کا ترجمان ہے ،ملا فضل اللہ کا گروہ سوات میں کاروائیوں میں ملوث
رہاہے۔مسلم خان کو سیکورٹی فورسز نے ایک کاروائی کے دوران ستمبر 2009ء میں
گرفتار کیا تھا۔یہ وہ دہشت گرد ہیں کہ جنہوں نے علی الاعلان پاکستانی فوج
سے تعلق رکھنے والے جانبازوں کے گلے کاٹے ہیں اور ان ہی دہشت گردوں نے
سیکڑوں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے پیغامات میں بڑے فخریہ
انداز میں اپنی کامیابیاں ظاہر کی ہیں اورپاکستان کے عوام پر خود کش حملوں
کو جائز قرار دیا ہے۔ انہی دہشت گردوں نے پاکستان میں بزرگ اولیائے کرام
بشمول کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی ،اسلام آباد میں بری سرکار بابا، پاک
پتن میں بابا فرید گنج شکر،خیبر پختون خواہ میں رحمان باباسمیت بلوچستان
میں متعدد بزرگان دین کے مزارات پر دہشت گردانہ حملے کروائے ہیں جن میں نہ
صرف اولیائے اللہ کے مزارات کو نقصان پہنچا بلکہ سیکڑوں بے گناہ اور معصوم
انسانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں جن میں خواتین، بچے اور نوجوانوں سمیت
بزرگ شامل تھے۔ افواج پاکستان،نیول فورسز اور پاک فضائیہ بھی ان کالعدم
طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔دہشت گرد طالبان کے
ترجمان احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی افواج اور پاک
افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردانہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان
کرتی رہی ہے۔ عدنان رشید جس کا نام مذاکرات کے لئے دہشت گرد طالبان نے اپنے
نمائندے کی حیثیت سے پیش کیا ہے ، شہر بنوں کی جیل پر طالبان چھاپہ ماروں
کے حملے میں جیل سے نکل بھاگا تھا ۔ عدنان رشید سابق صدر پرویز مشرف پر
قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔
اگر دہشتگردوں کی تاریخ پر غور کریں تو اسکے ذمے دارضیاالحق ، جماعت اسلامی،
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مرحوم بے نظیر بھٹو
، نواز شریف اور پرویز مشرف ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ہوگا جو امریکی
ڈرون حملوں کی مخالفت نہ کرتا ہو، مگر ساتھ ساتھ عوام ان دہشتگردوں سے بھی
نفرت کرتے ہیں جو آئے دن پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں۔ آئی ایس
آئی کے سابق سربراہ ، آئی جے آئی کے خالق اور دہشت گردوں کے ہمدرد سابق
جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ طالبان کو فوج سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اس وقت
حکومت سے مذاکرات ممکن نہیں، فوج کو الگ رکھ کر معاملات طے بھی نہیں ہوسکتے۔
جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ، پشاور ائیرپورٹ سمیت تمام حملے فوج پر ہوئے
لہٰذا فوج کو کیسے الگ رکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان ہم سے
گارنٹی مانگ رہے ہیں مگر ان کی گارنٹی کون دے گا۔ اگر ایک گروپ سے مذاکرات
کرتے ہیں تو دوسرے گروپ کی گارنٹی کون دے گا۔ نواز شریف خود بھی اپنا دامن
بچاکر علیدہ ہوگئے۔ مگر ان دہشت گردوں کے پیٹی بند بھائی مولانہ فضل
الرحمان اور منورحسن کی سیاست کی دوکان چلانے کے لیے طالبان دہشتگردوں کا
ساتھ بہت ضروری ہے۔ طالبان کی اکثریت تو مولانہ فضل الرحمان کے مدرسوں کی
پڑھی ہوئی ہے جبکہ دہشت گردوں کی حمایت اور ان کو اس ملک میں درآمد کرنے کا
ٹھیکہ جماعت اسلامی کے پاس ہے ۔ پورئے ملک میں کہیں بھی چھوٹا یا بڑا
دہشتگردی کا کوئی بھی واقعہ ہو جماعت اسلامی نے کبھی کسی مرنے والے سے
ہمدردی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی دہشت گردوں کی مذمت۔
کیا وجہ ہے کہ طالبان نے ایک ایسے وقت جب موجودہ حکومت کے جانے میں چند دن
ہیں مذاکرات کی بات شروع کی، دہشت گرد آنے والے الیکشن میں اپنے پیٹی بند
بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے پیٹی بند بھائی مولانا فضل
الرحمان اور منور حسن ہیں۔ جہاں تک منور حسن کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی کی
تاریخ دہشت گردوں کی حمایت سے بھری پڑی ہے، امریکہ سے جب تک ڈالر ملتے رہے
امریکہ ا ن کا یا ر تھا۔ 1979 سے نام نہاد جہاد کے نام پر پوری دنیا سے
فسادیوں کو پاکستان میں جمع کرتے رہے اور امریکی ڈالر ہڑپ کرتے رہے، مگر
الیکشن میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔منور حسن جن کو آپ طالبان دہشتگردوں کا
ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں فرماتے ہیں "حکومت طالبان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے
ان سے فوری مذاکرات کا آغاز کرے۔ فوج کی طرف سے ایسا رویہ سامنے آناچاہیے
جس سے اعتماد بحال اور مذاکرات کامیاب ہوں۔ خطے سے دہشتگردی کے خاتمے اور
ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے پورے اعتماد اور خلوص نیت سے مذاکرات
شروع کیے جائیں "۔ مگر منور حسن کو اتنا نصیب نہیں ہوا کہ ساتھ میں طالبان
کے ظلم کے خلاف بھی کچھ بولتے۔ ملک کی اور بھی جماعتوں نے مذاکرات کی بات
کی ہے مگر جہاں تک جماعت اسلامی اور منور حسن کی بات ہے ہےانکے خیال کے
مطابق طالبان تو حریت پسند ہیں مگر پاکستان کی فوج اور عوام ناقابل معافی
ہیں ۔ اب اگرمنور حسن کو طالبان دہشت گردوں کا پیٹی بند بھائی کہا جائے تو
بیجا نہ ہوگا۔ پاکستان کے عوام کو چاہیئے کہ منور حسن سے طالبان دہشتگردوں
کی گارنٹی کا ضرور مطالبہ کریں۔ |