اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ
پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات شروع سے ہی فدویانہ رہے ہیں اور اس کیلئے
امریکہ کو زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنا پڑتی کہ اس کو پاکستان سے ہمیشہ ہی
ایسے وفاشعار افراد خاصی تعداد میں دستیاب ہوتے رہے ہیں جو انتخابات سے
پہلے تو عوام کے سامنے اسلام و پاکستان کانام لیتے نہیں تھکتے لیکن کامیابی
کے بعد جیسے ہی یہ ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں امریکی خواہشات کی تکمیل سب
سے پہلے اور اس عوام کے مال و جان کا تحفظ اور دیگر ترجیحات آخری درجہ پر
جا پہنچتی ہیں جنہوں نے اپنے قیمتی ووٹ سے انہیں اس اعلیٰ مقام پر پہنچایا
ہوتا ہے کیوں کہ ایک آزاد مملکت ہونے کے باوجود آج بھی ہمارے اہم ترین
فیصلے واشگٹن و وائٹ ہاؤس سے منظور ہوتے ہیں اس ظلم کا نتیجہ یہ ہوا کہ
پاکستان آئے روز کسی نئے بحران کا شکار ہو جاتا ہے یا کردیا جاتا ہے جن کی
ایک طویل فہرست ہے لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں جس بحران نے پاکستان کو سب سے
زیادہ مشکلات کا شکارکیا ہے وہ توانائی بحران ہے جس نے نہ صرف ہماری صنعتوں
کو نگل لیا ہے بلکہ اس سے پیدا ہونیوالے معاشی بحران نے غربت،مہنگائی اور
بیروزگاری جیسے دیگر کئی مسائل کو بھی جنم دیا ہے لیکن اس ضمن میں عوام کو
ایک بڑی خبر سننے کواس وقت ملی جب پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن
کی ہر صورت تکمیل کا اعلان کردیا یاد رہے یہ منصوبہ اس سے قبل پاکستان
ایران اور انڈیا کے مابین ایک معاہدے کی صورت میں طے پایا تھا لیکن بعدازاں
انڈیا کے ساتھ امریکہ نے خود سول نیوکلیئر کا معاہدہ کرکے اس کو اس پروجیکٹ
سے علیحدگی پر رضامند کرلیا اور پاکستان کو بھی ایران کیساتھ ایسے کسی
معاہدے سے دور رہنے کی ''تلقین '' کرنا شروع کردی اس طرح یہ IPIمعاہدہ خطرے
میں پڑگیا -
لیکن اب جب گرمیوں کا آغاز ہونے والا ہے اور بدترین لوڈ شیڈنگ کا دیو ایک
بار پھر منہ کھولے کھڑا ہے ایسے میں پاکستان کی جانب سے توانائی ضروریات کو
پورا کرنے کیلئے اس سودمند معاہدے میں سنجیدگی کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے
کیوں کہ اس منصوبے کو توانائی بحران کے خاتمے کیلئے ایک منصوبہ کہا جاسکتا
ہے کیوں کہ اس کے تحت ایران پاکستان کو ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس دے گا جس
سے بجلی کا موجودہ شارٹ فال باآسانی ختم کیا جاسکتا ہے دوسرا افائدہ اس کا
یہ ہوگا کہ اس سے نہ صرف فرنس آئل کی خریداری پر خرچ ہونیوالی خطیررقم بچ
جائے گی بلکہ اس گیس سے ہمیں وہی بجلی جو فرنس آئل کی مدد سے 23روپے فی
یونٹ میں حاصل کررہے ہیں وہی صرف6روپے میں حاصل ہو گی یعنی لوڈ شیڈنگ کے
خاتمے کیساتھ ساتھ انتہائی سستی بجلی حاصل ہوگی جس سے عام آدمی کو براہ
راست فائدہ پہنچے گا کیوں کہ اس سے مہنگائی کم ہوگی اور اس کا بجٹ بہتر
ہوگا۔ پاکستان کے ایران سے اس گیس پائپ لائن کا معاہدہ پرامریکہ شروع سے
بہت سیخ پارہا ہے لیکن جب سے پاکستان نے اس منصوبے کی ہرصورت تکمیل کا عزم
کیا ہے تب سے امریکہ کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ
امریکی سفیر ولسن نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اس کے اس اقدام پر اسے
اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پرسکتا ہے امریکہ کی جانب سے ایسی دھمکیاں
کوئی نئی بات نہیں وہ عموماََ اپنے ''دوستوں ''کو ہر ایسے منصوبے سے باز
رکھنے کی کوشش کرتا رہاہے جس سے اُن کے ملک میں ترقی و خوشحالی کی راہیں
ہموار ہوں امریکہ نے اس سے قبل اس طرح کی دھمکیان چین،ترکی اور بھارت کو
بھی دی تھیں لیکن انہوں نے امریکی دھمکیوں کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی
اور وہ ایران سے تیل وگیس خریدرہے ہیں ۔قوی امید ہے پاکستان بھی اب امریکی
دباو ¿ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مفادعامہ کے اس اہم ترین منصوبے کو ہر صورت
مکمل کرے گا ۔دوسرا اہم فیصلہ جس کو تمام محب وطن حلقوں میں بے حد پزیرائی
حاصل ہوئی ہے وہ گوادربندرگاہ کی چین کو حوالگی ہے جس کا باضابطہ کنٹرول
اورسیزپورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ نامی چینی کمپنی سنبھال بھی چکی ہے اس میں کوئی شک
نہیں کہ چین پاکستان کا وہ دیرینہ اور قابل اعتماد ساتھی ہے جس نے ہر موقع
پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے جس میں اگرچہ چین کے بھی کچھ مفادات ہیں لیکن یہ
حقیقت ہے کہ چین پاکستان کی تعمیروترقی اور خوشحالی کیلئے ہمیشہ کوشاں
رہاہے اور اس وقت بھی چین پاکستان میں مختلف نوعیت کے 120منصوبوں پرکام
کررہا ہے اور اب گوادر پورٹ کی بھی چین کو حوالگی نہ صرف پاک چین تعلقات
مزید مستحکم کرے گی بلکہ اس پورٹ کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ بندرگاہ
چین،بھارت،ترکی،بنگلہ دیش ،ایران اور افغانستان کا معاشی حب بن جائے گی
اوراس کیساتھ ہی روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہونے سے ہمارابڑھتی ہوئی
بیروزگاری کا مسئلہ کافی حدتک حل ہوجائے گا خصوصاََ گوادرپورٹ کی تعمیر کے
بعد بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی کافی حد تک دور ہوجائے گا اور یہاں
پنپنے والی اندرونی و بیرونی سازشیں اپنی موت آپ مر جائینگی اورسب سے اہم
بات یہ کہ اس منصوبے کی تکمیل کیساتھ ہی پاکستان پر امریکی اجارہ داری
تقریباََ ختم ہوجائیگی جو کہ ہماری ترقی و خوشحالی میں بڑی رکاوٹ اور ہمیں
درپیش ہر مصیبت کی جڑ ہے۔بہرحال قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کی جانب سے یہ
فیصلے اگرچہ بہت دیر سے ہوئے ہیں لیکن اب بھی اگر ان پر بغیر کسی دباؤ اور
توقف کے عملدرآمد کردیا جاتا ہے تو یہ فیصلے نہ صرف پاکستان کیلئے ایک سنگ
میل ثابت ہوں گے بلکہ ان سے خطے میں امریکی اثرونفوز اور بھارت کی
تھانیداری کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے گا جس کا واضح مطلب امن و امان کا
قیام ہی لیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ کون نہیں جانتا کہ آج پاکستان ،کشمیراور
افغانستان جن انگاروں پر لوٹ رہے ہیں وہ اسی ہندوبنئے اور امریکی ڈائن کے
دہکائے ہوئے ہیں۔آکر میں ان الفاظ پر اپنا کالم ختم کرنا چاہتا ہوں کہ
موجودہ حکومت کے پانچ سال اگرچہ ملکی تاریخ میں کئی حوالوں سے انتہائی
ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں منصوبے پایہ تکمل
کو پہنچ جاتے ہیں تو یہ اس سے یقیناََ ان کے بہت سے داغ دھل جائیں گے۔ |