پاکستانی سیاست بھی گرگٹ کی طرح
رنگ بدلتی رہتی ہے ۔ کوئی کسی جماعت سے اتحاد کر رہا ہے تو کوئی کسی سے۔
سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت
اختیارکررہے ہیں۔ایم این ایز اور ایم پی ایز خواہ وہ سابقہ ہوں یا موجودہ
عوامی مفاد یا ڈیموکریسی کے بجائے لوٹاکریسی کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔
جس پارٹی کے جیتنے کی امید ہوتی ہے یہ لوگ اس میں جانا شروع کردیتے ہیں۔
ایک ایسا وقت آیا جب جس سیاستدان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کررہا ہے
پھر کچھ عرصہ بعد اس کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی۔ اب لو گ ن لیگ کی
چمک دیکھ کر اس میں شمولیت اختیار کرر ہے ہیں اور جن کو ن لیگ سے ٹکٹ نہ
ملنے کا یقین ہوچکا ہے وہ پی پی یا دوسری پارٹیوں میں شمولیت کررہے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک ، ہر خطہ میںسیاست ہوتی ہے مگر واہ ری پاکستانی سیاست تیری
کیا بات ہے ۔ جتنی اچھی سیاست پاکستان میں ہوتی ہے شاید اتنی کسی اور ملک
میں نہیں ہوتی ۔ پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی ایک
اسلامی ریاست ہے اور الحمداللہ ہمارے صدر ، وزیر اعظم اور زیادہ تر مرکزی و
صوبائی حکومتی نمائندگان مسلمان ہیں اور جھوٹ بولنا صرف اسلام ہی نہیں بلکہ
ہر مذہب میں گناہ ہے۔ ہمارے سیاستدانوں جتنا جھوٹ کوئی نہیں بول سکتا
کیونکہ اپنے ذاتی مفادات سے آگے انہیں ایک انچ بھی نظر نہیں آتا ۔
پاکستان کے سیاستدان اپنا نام گنز بک میں لکھوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور
لگارہے ہیں ۔ انہوں نے جھوٹ بولنے اور اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کا ٹھیکہ
لے رکھا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے پانچ سال مکمل کر لیے ہیںمگر
جن بیساکھیوں کے ذریعے یہ پانچ سال مکمل کیے اس کے بدلے میں اس کے اتحادیوں
نے خوب مفاد اٹھایا۔ حسب روایت ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے جس نے سب سے
زیادہ مرتبہ حکومت چھوڑنے کا ڈرامہ رچا کر اپنے مفادات کو حاصل کیا۔ حکومت
سندھ کی پچھلے دو سال کی کارکردگی دنیا بھر سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حکومت سندھ
اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے پاکستانی عوام کو روزانہ چالیس پچا س لاشوں
کا تحفہ ملتا ہے مگر افسوس کہ یہ روح فرسا واقعات حکمرانوںکی آنکھیں نہیں
کھول سکے بلکہ وہ آنکھیں بند کیے اپنے اپنے محلوں میں سوئے ہوئے ہیں۔
خدانخواستہ اگر کسی سیاسی پارٹی کا کوئی کارکن مارا جائے تو پھر ان علاقو ں
میں بھی حالات خراب ہو جاتے ہیں جہاں حالات بہتر ہوتے ہیں ۔لا ءاینڈ آرڈر
نہ ہونے کے برابر ہے۔
سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کے متحد ہونے سے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم
دونوں کی نیند حرام ہو رہی ہے۔ ایک پنجابی محاورہ ہے ”کتی چوراں نال رلی
اے“ ایسی ہی سیاست اب سندھ میں ہورہی ہے۔اب پھر متحدہ نے ناصرف حکومت سے
علیحدگی اختیار کرلی ہے بلکہ اپنے استعفے بھی جمع کرا دیے ہیںجو ابھی تک
منظور نہیںہوئے۔ اور حیرت اس بات پر ہے کہ پہلی بار حکومتی نمائندگان ان کے
استعفیٰ پر خوش ہورہے ہیں۔ حالانکہ پہلے ایم کیو ایم کی حکومت چھوڑنے کی
سرگوشی پر ہی زرداری پہلی فرصت میں الطاف بھائی کو فون کرکے منا لیتے مگر
اس بار تو خورشید شاہ، رحمن ملک اور کائرہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایم کیوایم
جاتی ہے تو جائے مگر ہم نہیں منائیں گے ۔
سادہ لوح عوام شاید ایم کیوایم کی حکومت چھوڑنے کی اصل وجہ نہیں جانتی تھی
مگر کچھ لوگ ضرورجانتے تھے کیونکہ انتخابات سر پر ہیں اور نگران حکومت قائم
ہونے والی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی باہمی رضامندی سے نگران وزیرا
عظم اور وزیراعلیٰ نامزد کیے جائیں گے۔ اگر سند ھ کی یہی حکومت رہتی ہے تو
پھر اپوزیشن لیڈر حقیقی اپوزیشن کا ہوگا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم اور پی
پی کی دال نہیں گلے گی اوراگر ایم کیو ایم حکومت سے باہر آکر اپوزیشن بنچوں
پر بیٹھ جائے تو پھر اپوزیشن لیڈر ان کاہوگا جو نگران حکومت مل کر بنا لیں
گے۔جس میں وہ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔
ایم کیو ایم ہر دور میں حکومت میں شامل رہی ہے خواہ وہ نواز شریف کی
ہو،مشرف کی ہو یا پھر زرداری کی۔ایم کیو ایم نے ہر ایک سے مفا دحاصل کیا
ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو خطرہ ہے کہ سندھ میںاسوقت جواتحاد نواز
شریف ، پیر پگاڑا اور ایاز پلیجو اوردیگر پارٹیوں کا بن رہا ہے کہیں وہ
موجودہ حکومت کی چھٹی کرا کے اپنی حکومت قائم نہ کرلے۔
سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ اپنی چالیں بدلتے رہتے ہیں اور اس وقت تو ویسے
بھی الیکشن کی آمدآمد ہے ۔اس لیے سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ارکان توڑنے
اور اپنے ووٹ بنک بڑھانے میں مصروف ہے۔ اس وقت کسی سیاستدان کو عوام کی فکر
نہیں۔ ہر پارٹی کے لیڈر سیاسی بیان دیکر عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی جستجو
میںلگے ہوئے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ” ہمیں اقتداردو ہم دو ماہ میں لوڈشیڈنگ
ختم کردیں گے“اور کوئی کہتا ہے کہ ہمیں کرسی پربیٹھا رہنے دو بے شک ہم سے
پانچ سال کا حساب لے لو“۔ اقتدار کی خاطر اب وہ کچھ بھی کہنے اورکرنے کو
تیار ہیںمگر ان سیاسی نعروں سے عوام کو کچھ فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ
ان کو مستقبل میں سنہرے خواب سمجھ سکیں۔عوام کی کمر تو بجلی کی لوڈشیڈنگ،
گیس کی لوڈشیڈنگ،بےروزگاری اور مہنگائی نے توڑی ہوئی ہے۔ اگر اب بھی عوام
خالی نعروں میں رہی تو پھر یہ سیاسی قلابازیاں عوام کا خون چوستی رہیں گی۔ |