جے یو آئی اور اے این پی کی اے پی سی میں فرق

پاکستانی عسکریت پسندوں کیجانب سے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی ، عسکریت پسندوں کیجانب سے اعلامیہ بھی جاری کیا گیا کہ فریقین کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جبکہ تحریک کے مرکزی"ترجمان"کا کہنا تھا کہ طالبان کی شوری نے انہیں مذاکرات کےلئے سربراہ مقرر نہیں کیا ہے اور نہ حکومت سے رابطہ ہوا ہے۔جبکہ عبدالرحمن ملک نے ایک بار پھر حکومت کیجانب سے عسکریت پسندوں کو پیش کش کی کہ اگر وہ حکومت کےساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو اپنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں ۔" جبکہ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ حکومت عبدالرحمن ملک کے بجائے کسی دوسرے سنجیدہ شخص کو نامزد کرے دونوں اطراف کیجانب سے غیر سنجیدگی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا جارہا ہے۔عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے سب سے اہم پالیسی فیصلہ پاک فوج کیجانب سے سامنے آیا تھا کہ اس معاملے میں کوئی بیان جاری کرنے یا اس بارے میں ہونے والے سیاسی فیصلے سازی کے عمل میں براہ راست شریک نہیں ہونگے۔ تاہم بین لااقوامی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوںکی کاروائیوں کی بروقت اطلاع اور شدت پسندی کی نئی لہروں کی وجہ سے خفیہ اداروں میں بڑے پیمانوں پر چار سو اہلکاروں کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کیجانب سے الیکشن کی آمد کی بنا ءپر مذاکرات کے عمل میں براہ راست شرکت سے احتیاط برتتے ہوئے ، کسی قسم کی پیش قدمی سے گریز کیا جارہا ہے گو کہ ا س سلسلے میں حکمران اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے سیاسی جماعتوں کی اے پی سی منعقد کی تھی ، لیکن اے این پی کی اے پی سی ایک پھٹا ڈھول ثابت ہوئی ، کیونکہ اس کانفرنس میں کسی قسم کا کوئی روڈ میپ نہیں تھا اور ملک کی اہم جماعتوں میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا شریک نہ ہونا بھی ایک سوالیہ بنا ، عسکریت پسندوں نے اے این پی کی اے پی سی یک جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے کہا کہ" کل جماعتی مشترکہ اعلامیہ صرف پُرانے جملوں اور لفظوں کا مجموعہ ہے۔"عسکریت پسندوں کیجانب سے مذاکرات کے ضمانتی کے طور پرمسلم لیگ ، جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی کو نامزد کیا گیا تھا ،ان جماعتوں نے حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان بطور ثالث کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کردیا تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کا کہنا تھا کہ" بارود اور خون کے کھیل سے نفرتیں پھیلتی اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان اس کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے ، حکومت کو مذاکرات کی پیش کش کوسنجیدگی سے لینا چاہیے۔"جبکہ جماعت اسلامی کیجانب سے بھی اسی قسم کا ردعمل سامنے آیا کہ حکومت کو مذاکرات کرنے چاہیے۔عسکریت پسندوں کیجانب سے مشروط رکھی گئی تھی کہ مذاکرات سے پہلے حکومت کو ان کے پانچ ساتھیوں کو رہا کرنا ہوگا کیونکہ وہ ان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہونگے ، جن میں ملاکنڈ ڈویژن کے عسکریت پسندوں کے ترجمان مسلم خان ،مولانا محمود خان اور سابق ترجمان مولوی عمر شامل ہیں۔جمعیت علما ءاسلام (ف) کیجانب سے فاٹا کی صورتحال پر اے پی سی منعقد کرنے کا علان کیا گیا، جس پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے جماعت اسلامی اورمسلم لیگ نے بھی شرکت کا علان کیا ہے۔ مولانا فصل الرحمن پختون عمائدین اور قبائل کے مشران سے مسلسل رابطے میں ہیں ، اور ان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ عوام کو شریک کئے بغیر کوئی جنگ یا مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ،جمعیت علما ءاسلام (ف) کی میزبانی میں 28فروری کو اسلام آباد میں آل پارٹیز منعقد کی جا رہی ہے ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اے پی سی کا انعقاد فاٹا میں تشکیل ہونے والے قبائل کے بڑے جرگے کے عمائدین کی خواہش پر کیا جارہا ہے ۔قیام امن کےلئے یہ سب سے اہم اور قابل توجہ کوشش ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ناکامی کے بعد قبائلی جرگہ مشران نے قیام امن کےلئے ملک کی مذہبی اور سیاسی قیادتوں سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنے کےلئے اہم فیصلہ کیا ہے۔توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اے این پی کی اے پی سی کے مقابلے میں مولانا فصل الرحمن کی سنجیدہ کوششیں ، علاقے میں قیام امن کےلئے اہم پیش رفت ثابت ہوگی ، مولانا فضل الرحمن ، مذہبی اور طالبان حلقوں میں ایک با اثر شخصیت کے طور پر ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔عسکریت پسندوں کی جانب سے حکومتی ثالث کےلئے مولانا فضل الرحمن کا انتخاب انہی بنیادوں پر تھا ،کیونکہ مذہبی مدارس اور طالبان تحریک سے وابستہ اہم افراد ، مولانا فضل الرحمن کے شاگرد اورمدارس سے فارغ التحصیل ہونے کی بنا ءان کی رائے و حکم کا احترام کرتے ہیں۔خیبر پختونخوا کے عوام ، چونکہ فطری طور پر مذہبی معاملات میں دوسرے صوبوں کی عوام کی بہ نسبت احساس و جذباتی واقع ہوئے ہیں ، اس لئے اپنے معاشرتی اقدار کے مطابق ، علما ءاکرام کے فیصلوں کو فوقیت دیتے ہیں۔پختون معاشرے میں ، کسی بھی شخص سے کسی کو بھی چاہیے ،کتنے اختلاف کیوں نہ ہوں ، لیکن علما ءاکرام اور علاقے میں مساجد کے پیش امام سے لیکر مولوی صاحبان کو تمام سیاسی و سماجی شخصیات پر ترجیح دیتے ہیں،یہ سینکڑوں سال کی پختون راویت ہے ، جس سے کوئی عام پختون مسلمان روگردانی نہیں کرتا ۔تاہم الیکشن میں ان کا نقطہ نظر قدرے مختلف ہوتا ہے ۔ لیکن انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی شخصیت کو اپنے حلقے کی مذہبی شخصیات کی منظوری ،لازمی درکار ہوتی ہے۔جمعیت علما ءاسلام (ف) کی جانب سے قبائلی جرگے میں سرگرم کردار ادا کرنا ، اہم اقدام ہے اور جرگے کیجانب سے علاقے میں امن کےلئے مشاورت کا عمل وقت کی اہم ضرورت ہے۔چونکہ ملکی انتخابات ،قریب آچکے ہیں تو خیبر پختونخوا کی عوام کو اپنی جان و مال کے تحفظ کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کے کردار کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہ ان کےلئے کون سے جماعت امن کا پیغام لاسکتی ہے ،چونکہ اے این پی ، کی مجموعی کارکردگی وفاق اورصوبے میں انتہائی ناقص اور مایوس کن رہی ہے اسلئے مستقبل میں انکی پالیسوں میںتبدیلی کی توقع رکھنا عوامی حلقوں کے مطابق عبث نظر آتا ہے۔چونکہ اے این پی کے متعلق دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں یہ رائے قائم ہے کہ امریکی مفادات کےلئے ، سرخ پوشوں نے پختون قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اسلئے ان پر مزید تکیہ کرنا اور مزیدوقت دینا مستقبل کےلئے نہایت تباہ کن ہوگا ۔تاہم جمعیت علما اسلام اور قبائلی مشران کے صائب اقدامات سے عوامی رجحان تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.