خادم اعلیٰ پنجاب نے لیپ ٹاپ
سکیم، ییلو کیپ سکیم ، آشیانہ سکیم ، دانش سکول سسٹم ، میٹرو بس سکیم کے
بعد اجالا پروگرام بھی زور شورسے شروع کردیا ہے۔ گو کہ ان سکیموں کا فائدہ
پنجاب کے بہت کم افراد کو ہوا ہے لیکن ایک اچھا تاثر یہ ہے کہ جمہوری حکومت
میں کم سہی کچھ تو جمہور کو فائدہ ہوا۔ان سکیموں کے علاوہ بھی چھوٹی چھوٹی
بے شمار سکیمیں شہباز شریف کے دور اقتدار میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے
انجام پذیر ہوئی جن کا عوام کو ادراک تب نہیں کہ ان سکیموں کو میڈیا کی
کوریج نہ مل سکی۔ویسے بھی ملک خدادا دپاکستان میں مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ
یہ ترقیاتی کام ان مسائل کی پردہ پوشی کرنا تو درکنار ان کے سامنے رتی
برابر بھی نہیں۔عوام کودرپیش حقیقی مسائل پر سنجیدگی سے بالکل سوچا نہ گیا
جن میں مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی توجہ حاصل نہ کرنے والے
مسائل میں انرجی کرائسسز سرفہرست ہے ۔گرمی ہو تو بجلی کی لوڈشیڈنگ ، سردی
ہو تو گیس کی لوڈشیڈنگ ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان سکیموں کے خلاف بولنے والوں نے کھل کر ان سکیموں
اور شہباز شریف کو عتاب کانشانہ بھی بنایا ۔سب سے بڑا اعتراض جو شہباز شریف
کی ان سکیموں پر لگا وہ کرپشن کا ہے اور بولنے والے باقاعدہ اعدادو شمار کے
ساتھ شہباز شریف کی ان سکیموں پر انگلیاں اٹھارہے ہیں لیکن اس اعتراض کی
وقعت تب ہوتی کہ ملک میں کرپشن کا بازار گرم نہ ہوتا ۔ہاں دوسرا اعتراض جو
اہمیت رکھتا ہے وہ یہ کہ پنجاب صرف لاہور یا پنڈی پر مشتمل نہیں ہے پنجاب
میں اور بھی اضلاع شامل ہیں جن کے مسائل یقیناً لاہور یا پنڈی کے برابر
نہیں ہو ں گے مگر کم بھی نہیں ہیں ۔آپ شہباز شریف کو یہ بھی کریڈٹ دیں کہ
انہوں نے کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات بھی خاطر خواہ کیے اور جہاں تک
ہوسکا خودایکشن لیااور لٹے پٹے عوام کی داد رسی کے لیے ہمیں بیشتر جگہوں
پرشہباز شریف نظر آئے جسے ناقدین نے ڈرامہ کہا۔یہ بھی حقیقت ہے شہباز شریف
نے بے شمار کام اس لیے بھی رکوا دیے کہ وہاں ہونے والی کرپشن حد سے زیادہ
تجاوز کر چکی تھی ۔
بہرحال ان پروگرامز سے ایک عنصر یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ شہبازشریف نے
نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی زیادہ کوشش کی بانسبت لٹے پٹے عوام کے ۔آپ
صرف یہ دیکھ لیں کہ لیپ ٹاپ سکیم سے کن نوجوانوں کو افادہ ہوا ؟؟ ان
نوجوانوں کوجو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا فارغ التحصیل ہیں ۔کیا ایک
نوجوان جو لاکھوں روپے لگا کر یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے یا کر چکا
ہے کیا وہ ایک پچاس ساٹھ ہزار والا لیپ ٹاپ نہیں لے سکتا ؟ایک نوجوان جو
لاکھوں روپے ایڈوانس دے کر ییلوکیپ لے سکتا ہے تو کیا وہ انہی پیسوں سے ایک
چھوٹا موٹا کاروبار شروع نہیں کر سکتا ؟دانش سکول سسٹم پرسب سے بڑا اعتراض
جسے میں بھی من وعن مانتا ہوں کہ دانش سکولوں پر اربوں روپے لگانے کے بجائے
پہلے سے موجود سکولوں کی حالت درست کی جائے تو یہ ایک بہتر اقدام ہوتا
۔پنجاب میں تعلیمی اداروں کی حالت زار بارے ایک رپورٹ نگاہ کے سامنے سے
گزری ۔
اس رپورٹ کے مطابق ’’پنجاب کے درجنوں اضلاع میں سرکاری سکولوں اور کالجوں
کی تقریباً 3000کے قریب عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں جو کسی وقت بھی بڑے
حادثے کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں ۔63000سکولوں میں سے 50فیصد سے زائد میں
ٹائلٹ بھی نہیں ہیں ان میں لڑکیوں کی درسگاہیں بھی شامل ہیں ۔بعض علاقوں
میں ایسے سکول بھی ہیں جن کے صرف 2کمرے ہیں ۔ایجوکیشن پلاننگ مینجمنٹ یونٹ
نے تین سال پہلے ایک سروے کیا تھا جس میں خستہ حال بلڈنگوں ، چھتوں اور
انفراسٹرکچر کے بغیر ہزاروں سکولوں کی تفصیلی رپورٹ محکمہ تعلیم کو دی گئی
تھی جس پرپنجاب حکومت نے فنڈز بھی جاری کیے تھے لیکن فنڈز ملنے کے باوجود
محکمہ ایجوکیشن عمارتوں کی حالت درست کرنے میں ناکام رہا جس کا تاحال کوئی
نوٹس نہیں لیا گیا‘‘
میں شروع میں لکھ چکا ہوں کہ ان سکیموں کا فائدہ یقیناً عوام کوہوا ہے مگر
زیادہ تر عوام ان سکیموں سے مستفید تب نہ ہوسکے کہ یہ تمام سکیمیں مسائل کے
مقابلے میں بے ڈھنگی ہے حقیقی مسائل جوں کے توں ہیں ہیں ۔ان سکیموں سے بہت
کم افراد کو فائدہ تو ہوا مگر نقصان پوری پاکستانی قوم کو قرضوں کی صورت
میں ہوا۔سٹیٹ بنک کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ’’رواں مالی سال
کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور
مالی ذمہ داریوں کا بوجھ 15ہزار 148ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو گذشتہ مالی
سال کی پہلی سہ ماہی کے آغاز پر 12ہزار 530ارب تھا اس طرح صرف 15ماہ کے
دوران حکومتی قرضوں میں 2ہزار 618ارب اضافہ ہوا جو 15ماہ کی مجموعی حکومتی
آمدن سے بھی زائد ہے۔اعدادو شمار کے مطابق 15ماہ کے دوران حکومت پاکستان پر
مقامی قرضوں کا حجم 6ہزار 12ارب سے بڑھا کر 8ہزار 120ارب ہو گیا جب کہ غیر
ملکی قرضوں کا حجم 3ہزار 987ارب سے بڑھ کر 4ہزار 444ارب ہو گیا ‘‘
یہ تو قرضوں کی ایک مختصر سی کہانی ہے ورنہ معاملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ
ایک پیرا گراف پڑھنے سے ہی دماغ چکرا جاتا ہے۔یہ قرضے کیوں بڑھے کیسے بڑھے
اور ان کے بوجھ تلے کون دبے گا ؟ اس کا جواب نہایت سادہ سا ہے کہ عوام کے
لیے قرضے لیے گئے جن سے کچھ افراد مستفید ہوئے جب کہ تمام عوام ان کے بوجھ
تلے دب گئے۔ |