سندھ میں پی پی مخالف اتحاد

نوازشریف اور پیر صاحب پگارا کے درمیان سیاسی اتحاد کو سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے، جتوئی برادران اور قوم پرستوں کی شمولیت نے اس پی پی پی مخالف اتحاد کو مزید مضبوط بنادیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ن لیگ کی اس سیاسی ”فتح“ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب لوگ مل کر بھی پی پی کو شکست نہیں دے سکتے۔ کیا واقعتا اگلے عام انتخابات میں بھی سندھ پی پی پی کا ساتھ دے گا ےا ن لیگ کے دعوؤں کے مطابق اسے اس بار صوبے میں دھول چاٹنا پڑے گی؟

پیپلزپارٹی 1967ءمیں قائم ہوئی، اس روز سے سندھ اس کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا ہوا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب تو ذوالفقارعلی بھٹو کی سحرانگیز شخصیت ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے پاس بھاری تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے حلقے سے سیٹ نکال سکتے ہیں۔ سندھ کا جاگیرداری نظام بھی پی پی کو سپورٹ کرتا ہے، کیونکہ صوبے کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ آج بھی ان جاگیرداروں کے رحم وکرم پر ہیں اور ان جاگیرداروں کی اکثریت پی پی کے ساتھ ہے، اس لیے ان کے زیراثر علاقوں کے مجبور ہاری، چھوٹے کاشت کار اور عام افراد ”تیر“ پر ٹھپہ لگانے پر مجبور ہیں۔

تنظیمی حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے، صوبے کے گاؤں گاؤں میں اس کا نیٹ ورک قائم ہے۔ عمومی طور پر پیپلزپارٹی کو وفاقی جماعت خیال کیا جاتا ہے، خود اس کا بھی یہی دعویٰ ہے مگر اس حقیقت کو مسترد کردنا آسان نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں قوم پرست سےاست کرتی ہے۔ ہر موقع پر ”سندھ کارڈ“ استعمال کرنا اس کی پرانی عادت ہے۔ اگر کوئی باریک بینی سے سندھ میں پی پی کی سیاست کا جائزہ لے تو اسے اس جماعت اور قوم پرستوں میں انیس بیس کا فرق ملے گا۔ کالاباغ ڈیم، تھل کینال، بلدیاتی آرڈیننس، کوٹا سسٹم وغیرہ اس کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوم پرستانہ سیاست، جئے بھٹو کا نعرہ اور وڈیروں کا تعاون پیپلزپارٹی کی وہ طاقت ہے، جس نے اسے صوبے کی سیاست پر قابض بنارکھا ہے۔

اب ذرا نئے اتحاد کے وزن کو تولتے ہیں، پیر صاحب پگارا کی فنکشنل لیگ ہمیشہ پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن لڑتی رہی ہے، اس لیے اس کا پی پی کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان حیران کن اور نہ ہی غیرمتوقع ہے۔ فنکشنل لیگ پیپلزپارٹی کی طرح عوامی جماعت نہیں ہے، بلکہ یہ پیری مریدی کا ایک سلسلہ ہے، جسے سیاسی شکل دی گئی ہے۔ سندھ کے 2 اضلاع خیرپور اور سانگھڑ میں اس جماعت کا خاصا اثر ورسوخ ہے۔ ماضی میں یہ جماعت ان دونوں اضلاع سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشست نکالتی رہی ہے۔ صوبے کے باقی حلقوں میں اس کے ووٹ تو ہیں لیکن وہ اتنی تعداد میں نہیں ہیں جن سے سیٹ نکالی جاسکے۔

ن لیگ کا تنظیمی طور پر سندھ میں بہت برا حال ہے۔ اسے زےادہ تر پنجابی آبادکاروں اور کچھ شہری علاقوں میں مقیم ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی حمایت حاصل ہے۔ صوبے کے کئی اضلاع اور تحصیلیں ایسی ہیں جہاں ن لیگ کا یا تو تنظیمی سیٹ اپ سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس جماعت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے عہدیدار صرف اسی وقت فعال ہوتے ہیں جب ن لیگ اقتدار میں ہو یا اقتدار میں آنے کی امید ہو۔ صوبے کا کوئی ایسا حلقہ نہیں جہاں ن لیگ اکیلے سیٹ جیت سکتی ہو۔

پی پی مخالف اتحاد میں تیسری جماعت نیشنل پیپلزپارٹی ہے۔ یہ جماعت جتوئی خاندان پر مشتمل ہے، یہ دادو اور نوشہرو فیروز اضلاع تک ہی محدود ہے۔ جتوئی برادران پہلے بھی پی پی کے خلاف الیکشن لڑکر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ممتاز بھٹو کی نیشنل فرنٹ تو باقاعدہ طور پر ن لیگ میں ضم ہوچکی ہے۔ ممتازبھٹو کا سندھ کی سیاست میں بڑا نام ہے لیکن یہ اسی روز زیرو ہوگئے تھے، جس روز انہوں نے بے نظیر بھٹو کا ساتھ چھوڑا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کبھی پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکے، البتہ ایک بار ان کے صاحبزادے امیربخش بھٹو لاڑکانہ سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت ممتاز بھٹو نگران وزیراعلیٰ تھے۔ ایسا لگتا ہے ممتاز بھٹو ن لیگ کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا پائیں گے۔

رسول بخش پلیجو، جلال محمودشاہ، قادرمگسی اور دیگر قوم پرست بھی پی پی مخالف اتحاد میں شامل ہیں۔ ان قوم پرستوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کونسلر تک منتخب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جلال محمودشاہ کے علاوہ باقی قوم پرستوں کے حوالے سے یہ بات تقریباً درست ہے۔ قوم پرست رہنما ماضی میں بھی پی پی امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑ کر اپنی ضمانت ضبط کرواتے رہے ہیں۔ اب بھی یہی معاملہ ہے۔ قادرمگسی ہوں یا ایاز لطیف پلیجو، ان میں سے کوئی بھی پی پی کو ٹف ٹائم نہیں دے سکتا۔

درج بالا سطور میں ہم نے پیپلزپارٹی اور اس کے مخالف اتحاد میں شامل جماعتوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اب بھی مخالفین پر برتری حاصل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس اب ”سندھ کارڈ“ نہیں رہا ہے اور عوام بھی اس سے سخت ناراض ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی نے چند روز قبل ہی بلدیاتی بل کی واپسی اور حیدرآباد میں یونیورسٹی نہ بنانے کا بیان دے کر بڑے اچھے طریقے سے سندھ کارڈ کھیلا ہے۔ جہاں تک عوام کی ناراضی کا معاملہ ہے وہ بھی پی پی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب انتخابی مہم چلے گی اور بلاول، آصفہ، بختاور ”اماں اماں“ کی دہائی دیتے ہوئے عوام کے پاس جائیں گے تو سندھ ایک بار پھر جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھے گا، پیپلزپارٹی کو عوام کی اس جذباتی کمزوری کا پوری طرح اندازہ ہے اور وہ پوری انتخابی مہم ”اماں اماں“ کے نعروں پر چلائے گی۔

سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور میرپور خاص وغیرہ میں ایم کیو ایم کی جڑیں خاصی گہری ہیں، اس لیے لیگیوں اور قوم پرستوں کے اتحاد کو شہری علاقوں سے کچھ نہیں ملے گا۔ پی پی پی مخالف اتحاد صرف ایک ہی صورت میں قابل ذکر نشستیں حاصل کرسکتا ہے، پی پی سے ناراض ایسے بااثر افراد جو حلقے کی سیاست میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر انہیں اپنے ساتھ ملا لیا جائے تو کچھ نشستیں مل پائیں گی۔ دوسری صورت میں اس اتحاد کا صرف سانگھڑ، خیرپور، نوشہروفیروز اور دادو میں ہی پیپلزپارٹی سے مقابلہ ہوگا۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111240 views i am a working journalist ,.. View More