حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے
ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے لوگوں نے عرض کیا کہ ہمیں ساعة العسرة یعنی
مشکل گھڑی (اس سے مراد غزوہ تبوک ہے ) کا کچھ حال بتائیں ۔ حضرت عمر ؓ نے
فرمایا ہم لوگ سخت گرمی میں غزوہ تبوک کیلئے نکلے ۔ ایک مقام پر پہنچ کر
ہمیں اتنی پیاس لگی کہ ہم سمجھنے لگے کہ ہماری گردنیں ٹوٹ جائیں گی ۔ (یعنی
ہم مرجائیں گے ) ہم میں سے بعض کا تو یہ حال تھا کہ وہ کجاوہ کی تلاش میں
جاتا تو واپسی میں اس کا اتنا برا حال ہو جاتا کہ وہ یوں سمجھنے لگتا کہ اس
کی گردن ٹو ٹ جائے گی ۔ اور بعض لوگوں نے اپنے اونٹ ذبح کیے اور اس کی
اوجھری میں سے پھوس نکال کر اسے نچوڑا اور اسے پیا اور اس باقی پھوس کو
اپنے پیٹ اور جگر پر رکھ لیا (تاکہ باہر سے کچھ ٹھنڈک اندر پہنچے )حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کا آپ کیساتھ دستور
یہ ہے کہ آپ کی دعا کو ضرور فرماتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے لیے ہمارے لیے دعا
فرمائیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ۔ (اور اللہ
تعالیٰ سے دعا مانگی ) اور ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ آسمان میں بادل
آگئے۔ پہلے بوندباندی ہوئی پھر موسلادھار بارش شروع ہو گئی ۔ صحابہ کرام ؓ
نے جتنے برتن ساتھ تھے وہ سارے بھر لیے ۔ پھر (بارش بند ہونے کے بعد )ہم
دیکھنے گئے (کہ کہاں تک بارش ہوئی ہے) تو دیکھا کہ جہاں تک لشکر تھا صرف
وہاں تک بارش ہوئی ہے ۔ لشکر کے باہر بارش نہیں ہوئی ۔
قارئین آج کے کالم کے تین حصے ہیں ۔ پہلے حصے کا تعلق اس شعر کے مصرے کی
طرح ہے
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
پاکستان اور آزادکشمیر میں ایک عجیب طرح کی کرپشن دیکھنے میں آرہی ہے ۔
مختلف محکموں کے افسران سے لیکر سیاسی قیادت کے فرائض نبھانے والے کرپٹ لوگ
بڑے آرام اور معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ قسم لے لیجئے ۔ بدعنوانی کے اس
دھندے میں میرے ہاتھ صاف ہیں ۔ اور آپ میرے اکاﺅنٹس اور جائیدادوں کو دیکھ
سکتے ہیں کہ میرے پاس کتنے اثاثے موجود ہیں ۔ واقعی ان کی یہ بات درست ہوتی
ہے کہ ان کے فقیرانہ قسم کے بنک اکاﺅنٹس میں موجود رقوم عکاسی کر رہی ہوتی
ہیں کہ وہ صرف "حق حلال "کی تنخواہ پر اپنی گزر اوقات کر رہے ہیں ۔ لیکن
اگر تھوڑی تحقیقات کریں تو انکشافات در انکشافات کا سلسلہ پیاز کے چھلکوں
کی طرح سامنے آتا جاتا ہے ۔ اور پتا چلتا ہے کہ کرپشن کہانی میں "ھٰذا من
فضل ربی "کے گن گانے والے افسروں اور قوم کا غم کھانے والے سیاسی قائدین کے
درپردہ کئی فرنٹ مین موجود ہوتے ہیں جو اس نام نہاد دیانتدار شخصیت کی تمام
بد دیانتیوں کے شریک جرم ہوتے ہیں ۔ آزادکشمیر میں ان دنوں وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کے کئی فرنٹ مینوں کا ذکر اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے ۔ اخبار
ی رپورٹس کے مطابق اور اکرم سہیل تحقیقاتی کمیشن کے ڈرافٹ میں واضح طور پر
ان کالی بھیڑوں کا ذکر موجود ہے جو جناح ماڈل ٹاﺅن تعمیراتی سکینڈل میں تیس
کروڑ روپے کی رشوت لینے اور حصہ بقدر جثہ مختلف سیاسی شخصیات اور افسران کی
نذر کرنے میں ملوث ہیں ۔ اسی طرح جموں کشمیر کونسل کے وہ بڑے صاحب تو
اخبارات کے فیورٹ وِلَن ہیں کہ جنہوں نے اپنی کرسی کا استعمال کرتے ہوئے
ایک ایسے کمشنر کو کرپشن کی کھلی چھٹی دی کہ جس نے صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی
کے ایک گھپلے میں بالا بالا 12کروڑ کا ٹیکہ قوم کو لگا دیا ۔ یہاں میرپور
کے ایک نواحی علاقے اسلام گڑھ میں اسٹیڈیم کی تعمیر کی کہانی بھی کرپشن
کہانیوں میں کچھ کم سنگین نہیں ہے ۔ اس کرپشن کہانی کے مطابق ایک فرنٹ مین
نے اپنے Bossکے احکامات پر عمل کرتے ہوئے کوڑیوں کے بھاﺅ ملنے والی زمین
خریدنے کے بعد یہی زمین آزادکشمیر حکومت کو کروڑوں کے ریٹ پر فروخت کر دی ۔
ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔ یہاں میرپور سے خالق آباد ڈیول
کیرج وے کا تذکرہ بھی درد کی سنگینی دکھانے کیلئے کافی ہے کہ جس کے مطابق
ایک ٹھیکیدار کو 32کروڑ روپے کا ٹھیکہ ایک فرنٹ مین کے ذریعے وصول کی گئی
تین کروڑ روپے کی رشوت کے عوض دیدیا گیا۔ اور اس ٹھیکیدار نے مختلف شخصیات
کو مزید مختلف حصے دینے کے بعد آدھی قیمت پر یہ کام ایک اور ٹھیکیدار کے
ذمے لگا دیا ۔ ادارہ ترقیات میرپور تو گزشتہ دو عشروں سے کرپشن کی ماں بنا
ہو اہے ۔ سینہ گزٹ سے پھیلنے والی خبروں کے مطابق ادارہ ترقیات میرپور میں
مالیاتی کرپشن اس حد تک عروج پر ہے کہ وفاقی حکومت کی اہم شخصیات اس ادارے
کے سربراہ کا فیصلہ کرتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ بولی دینے والے فرنٹ مین
کو اس ادارے کا مختار کل بنا دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک افواہیں گرم ہیں کہ ہر
ماہ اس ادارے کے ماضی کے سربراہان فرنٹ مین کی حیثیت سے اپنے پس پشت موجود
شخصیات کو کروڑوں روپے کا بھتہ یا حصہ بھیجتے رہے ہیں ۔ ہم ان تمام خبروں
یا افواہوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور کہتے ہیں کہ زبان خلق
پر عام ہوتے ہوئے تبصرے نقارئہ خدا کی حیثیت رکھتے ہیں اور لوگ جو باتیں
کہتے ہیں ان باتوں میں کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور چھپی ہوتی ہے ۔ ہم
آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم کو اس بات کا مکمل کریڈٹ دیتے ہیں کہ چوہدری
عبدالمجید نے اگرچہ ہمیشہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آتش نوائی کے مظاہرے
کئے ہیں اور عوامی اجتماعات میں بھی عوام کے حقوق کے متعلق بات کرتے ہوئے
بعض اوقات غصے کا مظاہرہ کیا لیکن چوہدری عبدالمجید نے ریکارڈ ترقیاتی
منصوبہ جات شروع کرواتے ہوئے آزادکشمیر کی تاریخ میں اپنا نام درج کروا لیا
ہے ۔ اور چاہے حکومت چلی جائے یا ان ہاﺅس تبدیلی آجائے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کے ترقیاتی کارناموں کی کوئی بھی نفی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہاں ہم
جان کی امان پاتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید سے یہ ضرور
گزارش کرینگے کہ آپ کے متعلق میرپور اور آزادکشمیر بھر میں یہ خبریں یا
افواہیں کیوں پھیلتی ہیں کہ بعض لوگ آپ کا نام استعمال کر کے کروڑوں روپے
کی کرپشن کر رہے ہیں ۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو چاہیے کہ بدنامی کا
باعث بننے والے نام نہاد فرنٹ مینوں سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کریں ۔
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ہماری درجنوں ملاقاتیں رہیں اور ہم نے استاد
محترم راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ FM93ریڈیو آزادکشمیرکے مقبول ترین
پروگرام "لائیوٹاک ود جنید انصاری "میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو کئی
بار مدعو کر کے ان کے انٹر ویوز بھی کئے ۔ وہ ہمارے ساتھ بہت شفقت فرماتے
ہیں لیکن پریس کانفرنسز کے دوران اور انٹرویوز کرتے ہوئے بھی بعض اوقات وہ
جلال میں آئے اور ہمیں بھی بے بھاﺅ کی سنائیں ۔ لیکن جب ہم نے عاجزی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے مودبانہ انداز میں سوالات کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کے
منطقی جوابات بھی دیئے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
انتہائی سمجھدار ،زیرک اور معاملہ فہم شخصیت ہیں اور وہ واقعتا آزادکشمیر
میں ترقیاتی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں چند ایسے لوگوں نے گھیر
رکھا ہے جو مشوروں کے نام پر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور ان کا
نام استعمال کرتے ہوئے فرنٹ مین بن کر ان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ۔
چوہدری عبدالمجید شفقت کیساتھ ساتھ ہمارے ساتھ جو غصے والا برتاﺅ کرتے ہیں
۔ اس کے متعلق ہم چچا غالب کی زبان میں یہی کہیں گے
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پئے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لئے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیئے ہوتے
آہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
قارئین اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے حصے کی جانب آج سے چند سال قبل آزادکشمیر
میں میرپور کے مقام پر پہلی انٹرنیشنل کارڈیالوجی کانفرنس منعقد ہوئی ۔
ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر اور ڈاکٹر خواجہ منظور میزبان تھے جبکہ پاکستان بھر
سے ماہرین امراض قلب نے اس میں شرکت کی ۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل کراچی
سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر عبدالصمد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے
انتہائی دلچسپ باتیں کیں انہوںنے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور
آزادکشمیر بھر میں بھی دل کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔ پاکستان اور
آزادکشمیر میں امراض قلب بڑھنے کی بنیادی وجہ پھیلتی ہوئی خواہشات ، وسائل
کی کمی ، اللہ پر توکل نہ کرنا اور لقمہ حلال کو چھوڑتے ہوئے حرام کی طرف
مائل ہونا ہے اور اس کا بنیادی سبب وہ خواتین اور اہلخانہ ہیں جو ایک شریف
اور دیانتدار انسان کو زیادہ کمانے اور حرام حلا ل کا فرق کئے بغیر دولت کے
پیچھے بھاگنے کا سبق دیتے ہیں کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت
کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ لیکن پروفیسر صاحب کی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
بددیانت انسان کے پیچھے بھی "بیک ویمن"کھڑی ہیں جو بددیانتی کا درس دیتے
ہوئے ایک شریف انسان کو فرنٹ مین بنا دیتی ہیں ۔
قارئین اب آخری بات ہمارے ایک پیارے دوست کے متعلق ۔ارشد برقی پاکستان
پیپلزپارٹی کے ان پرانے جیالوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے برطانیہ کی نیشنلٹی
ہوتے ہوئے برطانیہ کی سرزمین پر بھٹو کے فلسفے کو تھامے رکھا محترمہ بینظیر
بھٹو جلاوطنی کے پیریڈ میں درجنوں بار ارشد برقی کے گھر اپنے بچوں کیساتھ
جاتی تھیں ۔ اسوقت بلاول ، بختاور اور آصفہ کم عمر تھے ۔ارشد برقی نے اپنی
قائد شہید بی بی کی اس خلوص کیساتھ خدمت کی کہ جو ان بچوں کے ذہن میں بھی
سماگئی ۔ بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں ۔ آصف علی زرداری صدر بن گئے اور
پاکستان کے بعد آزادکشمیر میں بھی پیپلزپارٹی برسر اقتدار آگئی اور دیگر
سینکڑوں نظریاتی کارکنوں کی طرح ارشد برقی بھی نظر انداز کر دیا گیا ۔ عرصہ
دراز کے بعد دو ماہ قبل بلاول بھٹو زرداری نے برطانیہ سے آکر پاکستان میں
عملی سیاست میں قدم رکھا اور اپنی شہید ماں کی خدمت اور قدر خلوص کیساتھ
کرنیوالے جیالے ارشد برقی کو اپنا پولیٹیکل کوآرڈینیٹر مقرر کر دیا۔ بلاشبہ
بلاول بھٹو زرداری نے ایک نظریاتی کارکن کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اس پر وہ
مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اس عمل میں پیر مظہر الحق نے بھی کلیدی کردار ادا
کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ارشد برقی کی طرح دیگر نظریاتی کارکن بھی اپنی
وفاﺅں کا کچھ تو صلہ ضرور پائیں گے ۔ اور ان لوگوں میں میرپور میں ستائیس
سال سے پیپلزپارٹی کی خاطر جدوجہد کرنیوالا ہمایوں زمان مرزا بھی شامل ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
کرکٹ کے میدان میں سیکورٹی آفیسر نے سردار جی سے کہا
"سردار جی میچ ختم ہو گیا ہے تسی کلے کیوں بیٹھے او"
سردار نے بے نیازی سے کہا
"او میں ہائی لائٹس دا انتظار کر ریاواں "
قارئین پاکستان میں میچ ختم ہو چکا ہے اور نظریاتی کارکن جھلکیوں کا انتظار
کر رہے ہیں ۔ |