عام انتخابات 2013ءقریب ہوتے ہی
سیاسی صف بندی کسی حد تک واضح ہوتی نظر آرہی ہے ،حکومتی اتحاد
میںپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) نے تو سیٹوں تک فیصلہ کرلیاہے ،عوامی نیشنل
پارٹی دائیں بائیں ہاتھ پیر مار رہی ہے مگر کوئی کم از کم خیبر پختونخوا کی
حد تک قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ،جبکہ متحدہ قومی موومنٹ حکومتی اتحاد
سے الگ ہوچکی ہے مگر اس بار واقعی” شیر آیاہے“ لیکن ماضی میں ایم کیو ایم
کی” شیر آیا شیر آیا “کے ”مذاق“ کی وجہ سے اب ان کے حقیقی ”شیر آیا شیر آیا“
کی آواز کو بھی لوگ مذاق سمجھ رہے ہیں ،جس کا کھل کر ہر طرف سے اظہار
ہورہاہے ،اسی دوران پیپلزپارٹی نے سندھ کے عوام کو قابو کرنے کی ایک ناکام
کوشش 1979ءکے بلدیاتی نظام کو بحال کرکے کی ہے مگر شاید اب پیپلزپارٹی کو
اس کا اتنا فائدہ نہیں ملے گا بلکہ اس کا کریڈٹ اپوزیشن کو مل رہاہے ۔
پیپلزپارٹی نے یہ اقدام 16فروری2013ءکو متحدہ کے حکومتی اتحاد سے علیٰحدگی
کے اٹھایا 21فروری 2013ءکو 1979ءکے بلدیاتی نظام کی بحالی سندھ اسمبلی سے
ہوئی اور 22فروری کو متحدہ سے تعلق رکھنے والے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان
مستعفی ہونے کی بجائے اچانک بیرون ملک چلے گئے اور قائم مقام گورنر سندھ
نثار احمد کھوڑونے اسی روز بلوں پر دستخط کرکے ان کو ایکٹ بنایا ،سندھ کا
بلدیاتی نظام سندھ کی پی پی پی اور متحدہ کے سیاسی موت و حیات کا مسئلہ
رہاہے، متحدہ 2001ءبلدیاتی کے جبکہ پیپلزپارٹی 1979ءکے بلدیاتی نظام کی
حامی اور دونوں کے مابین 5سال سے آنکھ مچولی جاری ہے اس دوران ایک درجن سے
زائد کمیٹیاں بنیں،50سے زائد اجلاس ہوئے اور 2سال میں 6بار نظام تبدیل کرکے
قومی خزانے کے کروڑوں روپے ضائع ہوئے ،جبکہ آئے روز کی ٹوٹ پھوٹ سے ادارے
مفلوج ہوگئے ہیں ۔
پیپلزپارٹی 2001ءکے بلدیاتی نظام کے خلاف روز اول سے تھی اور 2009ءسے سندھ
کے نئے بلدیاتی نظام پراتحادی جماعتوں کے مابین مذکرات شروع ہوئے مگر
31دسمبر2010ءتک یہ معاملہ طے نہ ہوسکا، اس مدت تک ترمیم کا اختیار صدر کے
پاس تھایکم جنوری2011ءسے صوبوں کو منقتل ہوا اور سندھ میں ایک مرتبہ
پھرمذاکرات ہوئے مگر جون 2011ءمیں متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیٰحدگی
کے اعلان کے ساتھ ہی 9جولائی2011ءکو قائم مقام گورنر سندھ نثار احمد کھوڑو
نے رات کے اندھرے میں 3آرڈیننس جاری کرکے 2001ءکے بلدیاتی نظام کی
جگہ1979ءکے بلدیاتی اور کمشنری نظام کو بحال کیا اور13جولائی2011ءکو اسمبلی
سے ایکٹ بنوایا ۔
تاہم مذاکرات جاری رہے 6اگست2011ءکی علی الصبح اس وقت کے وفاقی وزیر قانون
بابر اعوان نے گورنر ہاﺅس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے دستخطوں
سے دو بلدیاتی نظاموں کے آرڈیننس جاری کرائے ،کراچی اور حیدر آباد کے لئے
2001ءاورصوبے کے باقی اضلاع کے لئے 1979ءکابلدیاتی نظام دیاگیا جس پرصوبے
میں شدید احتجاج ہواور اور مجبوراً6اور 7اگست2011ءکی درمیانی شب نئے
آرڈیننس کے ذریعے صوبہ میں2001ءکا نظام ہی بحال کیا گیاا اور اعلان کیا
گیاکہ 90دن کے اندر نیا نظام لایا جائے گا مگر آرڈیننس کے خاتمے کے آخری
دن5نومبر2011ءتک اتحادی جماعتیں قانون سازی نہ کر سکیںاور6نومبر2011ءسے
سندھ میں ایک مرتبہ پھر 1979ءکا بلدیاتی نظام از خود بحال ہوا ،اتحادیوں کے
مذکرات کے نتیجے میں یکم اکتوبر2012ءکو سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ بل
2012ءکانیا بلدیاتی نظام دیا گیا ،مگر پیپلزپارٹی اور متحدہ کے علاوہ صوبے
کی تقریباً تمام ہی جماعتیں سراپا احتجاج بنیں ف لیگ، این پی پی اور عوامی
نیشنل پارٹی نے حکومت سے الگ ہوکردیگر قوتوں کے ساتھ ملکر احتجاجی تحریک
چلائی جس کی وجہ سے پیپلزپاٹی نے شدید عوامی دباﺅ کے باوجود بھی اس نئے
نظام کا دفاع کیا ۔
21فروری2013ءکوپیپلزپارٹی نے سندھ میں 1979ءکے بلدیاتی نظام کو بحال کیاہے
بعض اس کو پیپلزپارٹی کی سیاسی چال، بعض سندھ کے عوامی دباﺅ کا نتیجہ ، بعض
دونوں بڑی جماعتوں کے 2013ءکے عام انتخاب میں عوامی جذبات سے فائدہ اٹھانے
کے نئے منصوبے کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ بیشتر مبصرین کا کنہاہے کہ بلدیاتی
نظام کے اس کھیل کے ذریعے دونوں بڑی جماعتیں عوامی جذبات کا بھرپور استعمال
کر رہی ہیں اور لسانی بنیادوں پر اپنے ووٹ پکے کر رہی ہیں،اور یہ سوال بھی
اٹھایا جارہاہے کہ جو سیاسی قوتیں 5سال میں ایک صوبے کو بلدیاتی نظام نہ دے
سکیں وہ ملک کو مشکل سے کیسے نکالیں گیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے 26فروری کو کراچی کے دورے کے
موقع پر ن لیگ ،ف لیگ اور نیشنل پیپلزپارٹی کے انتخابی اتحاد کا اعلان
کیا،جبکہ 10جماعتوں کا انتخابی اتحاد پہلے ہی قائم ہو چکا ہے جو پیپلزپارٹی
کے لئے 2013ءکے عام انتخاب میں مشکلات کا سبب بنے گا،کیونکہ 5سالہ کارکردگی
کی وجہ سے دیہی سندھ میں لوگ پیپلزپارٹی سے کافی ناراض ہیںاور کہاجاتاہے کہ
اب متبادل کے طور پرف لیگ کے سربراہ پیر پگارا کو سمجھنا شروع کردیاہے ،جبکہ
اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں نے عملاً سندھ میںف لیگ کی بالا دستی تسلیم کرلی
ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیہی سندھ کی سطحہ پرف لیگ اور اس کے
اتحادی دوسری بڑی سیاسی قوت بنکر سامنے آ ئیں گے اور پیپلزپارٹی
1988ءسے2002ءتک کبھی بھی سندھ میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیںرہی
ہے ،2008ءواحد انتخابات ہیں جن میں پیپلزپارٹی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن
میں تھی صوبائی اسمبلی کی جنرل 130میں سے 71نشستیں ملیں ،جس کی بنیادی وجہ
بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد کا جذباتی ماحول ہے ۔
مبصرین کا کہناہے کہ اس بار بھی پیپلزپارٹی کوصوبائی اسمبلی کی جنرل
130میںسے40سے 50نشستیں ملنے کا امکان ہے ، یہ بات یقینی ہے کہ سندھ میں
کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی ایسی صورت میں
متحدہ کی ایک مرتبہ پھر اہمیت بڑھ جائے گی یہی وجہ کہ 26فروری کو نواز شریف
اور پیر پگارا نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کے خلاف مضبوط انتخابی اتحاد
بنانے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے بھی متحدہ کے خلاف براہ راست سخت زبان
استعمال کرنے سے گریز کیا،جس وجہ مستقبل میں دونوں جماعتوں کے لئے مستقبل
کی ضرورت بتایا جاتاہے، تاہم اشاروں میں سخت تنقید کی ۔
مبصرین کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مولانا
فضل الرحمان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھانے کے لئے جمعیت علماءاسلام سے
انتخابی مفاہمت کی اور مخالفین کو سخت امتحان میں مبتلا کیا ہے اسی طرح کا
وار انہوں نے سندھ میں بھی کیا ہے ،پیر پگارا کی سربراہی میں 10جماعتی
اتحاد پیپلزپارٹی پر کاری ضرب ہے ،جس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو جنوبی پنجاب
میں بھی ملے گا۔ |