جمود شکن الیکشن

اس امر میں اب کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ مستحکم پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا اور برصغیر کے عظیم تر مفاد میںہے بلکہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو عوامی حلقے باور کراتے رہے ہیں کہ سنجیدگی کےساتھ پاکستان کی عوام کے مسائل پر توجہ دیکرمعیشت کو استحکام دینے کی کوشش کی جائے ، کیونکہ عوام کے پاس کارکردگی کی بنیادوں پر جانا ہوگا۔ اب جبکہ پاکستان کے عوام ملکی تاریخ کے انتہائی اہم انتخابی موڑ میں داخل ہو رہے ہیں تو عوام سے بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس اہم عمل میں ووٹ کو اپنے مقدس امانت کے طور پر ملک کے مستقبل کے فیصلے پر مہر ثبت کریں۔ پاکستانی سیاست میں نشیب فراز کے باوجود جمہوریت اپنے اہم سنگ میل عبور کرنے کےلئے تیار ہے ، اس موقع پر امریکہ سمیت عالمی قوتوں کو بھی پاکستان کی ناگزیرےت کا احساس کرنا چاہیے کہ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی کردار نہ ہونے کے باوجود ، امریکی جنگ ، پاکستانی جنگ میں ڈھلتی چلی گئی اور پاکستان، افغان امریکہ جنگ کا نہ ہوتے ہوئے بھی فرنٹ لائن ریاستی کردار بن گیا ، جس کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کو لاتعداد خطرات لاحق ہوگئے اور اس کی داخلی صورتحال اس قدر مخدوش ہوتی چلی گئی کہ پاک عسکری ادارے اپنی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خطرات سے نبر الزما ہونے کےلئے قوم کی یکسوئی اور اتحاد کے متقاضی ہیں ۔پاکستان آج بھی اُسی موڑ پر کھڑا ہے جب دہشت گردی کے عالمی عفریت کو پاکستان میں مسلط کردیا گیا تھا اور ملکی انتخابات کا انعقاد اس قدر مشکل بنادیا گیا کہ ہر آن یہی محسوس ہوتا تھا کہ اغیار کی سازشیں کامیاب ہوئیں ، لیکن پاکستانی عوام نے بڑی بے جگری سے حالات کا مقابلہ کیا اور انتہا پسندقوتوں کی جانب سے بم دہماکوں خودکش حملوں کے باوجود ، ووٹرز کے پایہ استقامت میںلغزش نہیں آئی اور عوام نے ایک آمر کے ہاتھ سے ملک کی بھاگ دوڑ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ پاکستانی عوام کی جانب سے پوری دنیا اور اس خطے کےلئے جمہوریت ، ترقی ، سلامتی اور امن کا پیغام دیا گیا۔بد قسمتی سے آج بھی پاکستان انہی خطرات میں ماضی سے زیادہ گھرا ہوا ہے ، اور ملکی سیاست کےلئے 2013ءکے الیکشن جمود شکن اور اسٹیٹس کو کے خاتمے کی خوائش کا اظہار بھی ہیں ، لیکن یہ عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ ،مشکل ترین حالات کے باوجود عوام نے جن جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ منتقل کیا تھا ، اور 2008ءمیں نئی حکومت کی تشکیل کا جو موقع فراہم کیا تھا ، حکمران سیاسی جماعتوں نے ایسے قدرت کا عطیہ اور قومی آرزﺅں کا گلدستہ سمجھنے کے بجائے الیکشن کی کامیابی کو ، اپنی جماعت کی کامیابی سمجھ کر عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے ، اقربا پروری ، کرپشن ،مفاد پرستی اور قومی خزانے کی لوٹ مار سمیت اداروں سے تصادم تک محدود کردیا۔آبلہ پااور مہنگائی سے ستائے عوام نے آمریت کے خلاف جرات مندی سے جمہوریت کےساتھ اٹھائے گئے پہلے مثبت قدم میں اپنے توقعات ، سیاسی جماعتوں سے اسلئے وابستہ کرلیں تھیں کیونکہ انھیں آمرانہ نظام کے مضمرات سے بچاﺅ کا راستہ جمہوریت کی بقا میں پنہاں نظر آرہا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنےوالی حکومت ، اب کوئی پھولوں کا سیج نہیں ہوگی کیونکہ آمرانہ فیصلوں کی توثیق کے نتیجے میں ، ملکی پالیساں عوام کے جذبات سے زیادہ عالمی طاقتوں کی نگران بن چکی ہیں ۔لیکن اب پاکستانی عوام اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ کسی ماوارئے آئین اقدام ، یا عوامی منشا کے بغیر چور راستوں سے مسلط کردہ نظام ، کو اب نئی سیاسی اور جمہوری طالع آزمائی کا بیرونی کندھا فراہم نہیں کیا جائے گا ۔ جس طرح عوام کو اس بات کا ادراک ہے کہ ملک کسی قسم کی محاذ آرائی اور سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا ، اور انتخابی عمل کو بہتر طرےقے سے اقتدار کی منتقلی تک احسن انداز میں ہوجانا چاہیے تو اس موقع پر سیاسی جماعتوں کو بھی اس روشن تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتفاق رائے اور اتحاد و تعاون کے بڑے دور رس فیصلے کرنا ہونگے ، جمہوریت کی راہ میں اب بھی مشکلات درپیش ہیں ، سیاسی جماعتوں کو قوم کی دھندلی نہیں بلکہ واضح تصویر بنانے کےلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ۔ ابھی اقتدار کی منتقلی کے نشیب وفراز کے صبر آزما مراحل سے سیاست دانوں کو کمال تدبر سے گزرنا ہے ، جمہوری تاریخ کے پہلے ،سیاسی انتقال اقتدار میں ، مستحکم پارلیمنٹ کو وجود میں لانے کےلئے جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔دور آمریت کے بعد وجود میں آنےوالی سیاسی حکومت کا بہرحال بڑا کریڈٹ ہے کہ ، اقلیت میں ہونے کے باوجود اور جمہوریت کے خلاف ، بڑی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ، آخر کار پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے ۔ اس لئے اس اہم تاریخی دور کے بعد آنےوالی پارلیمنٹ سے یہ توقعات ، عوام کو یقینی ہیں کہ اس بار سیاسی جماعتیں اپنے امیدواران کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے سے اجتناب برتےں گی ، کیونکہ نئی حکومت کو معاشی بدحالی ، بے امنی کے تحفے وارثت میں ملیں گے ، اس لئے انھیں اپنے انتخابی منشور میں یہ شامل کرنا ہوگا کہ صوبوں کو حقیقی معنوں میں خود مختاری دی جائے گی، عدلیہ کی مکمل آزادی کو برقرار رکھا جائے ، میڈیا پر تسلط کے خواب دیکھنے کے بجائے ، تعمیری میڈیا کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔بلوچستان ، وزیرستان ، خیبر پختونخوا ، سندھ ، کراچی کے معاملات سنجیدگی سے حل کئے جائیں ،یقینی طور پر اس بار بھی کوئی اکیلی جماعت مرکز میں اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی ، اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ماضی کی حکومتوں کی طرح انکے مقاصد ،صرف حکومت کی معیاد پوری کرنی ہے ، یا پھر ، واقعی حکومت کرکے عوام کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ، دنیا میں پاکستانی شناخت پر لگنے والے دھبے کو بھی مٹانا ہے۔گزارش بس اتنی ہے کہ سیاست دان ، قومی مفادات اورعالمی صورتحال کے وسیع تناظر میں اپنی ترجیحات کو مرتب کریں تاکہ ایک عظیم تر مفاہمت کے ثمرات عام عوام تک بھی پہنچ پائیں۔اٹھارہ کروڑ عوام کو درپیش سماجی و معاشی مسائل کا اہم مسئلہ درپیش ہے لہذا اس تاریخی موڑ پر ہر سیاست دان ایک ایسے فیصلہ کن مرحلے پر کھڑا ہے ، جس میں ان کےلئے ناممکن نہیں ہے کہ وہ اس موقع کو یادگار نہ بنا سکیں ، مگر شرط عملیت پسندی کی ہے۔یہ وقت ملک کے اہم سیاسی اور جمہوری دور کے ایک ایسے سفر کی ابتدا ہے جیسے ا ہم بڑے اور دورس اثرات کے حامل فیصلوں کا مرحلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔قوم موجودہ نظام سے بیزار ہوچکی ہے کیونکہ انھیں اپنے مسائل کا حل درکار ہے ۔ غربت کا خاتمہ ، اسٹریٹ کرائمز ،ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور جاگیردارنہ کلچر کی باقیات کا صفایا کرنا عوام کا ایک خواب بن چکا ہے ، اسلئے فتح کےلئے سرشار ہونے کی امیدرکھنے والی تمام سیاسی جماعتیںٹھنڈے دل و دماغ سے اس فیصلے پر اتفاق کرلیں کہ اگلی حکومت میں ان کا ہر قسم کا کردار ، پاکستان کی بقا و سلامتی کےلئے ہے۔یہی اصل امتحان سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ اس کٹھن وقت میں کس طرح فہم و فراست اور تدبر و درور اندشی پر مبنی جمہوری فیصلے کرتے ہیں ، غیر دانشمندانہ اور جذباتی اقدامات سے ملک کی سا لمیت کو نقصان اور ہوش مندانہ ، غیر جذباتی انداز میں ملک کے جمہوری اور سماجی مستقبل کو تحفظ ملے گا۔بلاشبہ انتخابات کی منزل تک پہنچنا ایک اہم اور دشوار گزار مرحلہ ہے اور اس سے زیادہ دشوار گزار مرحلہ ، شفاف اور آزادنہ انتخابات کا انعقاد اور جمود شکن الیکشن میں جذباتی وابستگیوں سے زیادہ ، ہوش مندانہ قومی مفاداتی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
 
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.