عقلمند کے لیئے اشارہ ہی کافی ہے

یوں تو حکومتی بے حسی کی وجھ سے پورا ملک جل رھا ہے.لیکن جو ظلم و ستم گزشتہ کچھ سالوں سے اہل کراچی کے ساتھ ہورہا ہے وہ ناقابل برداشت اور ناقابل بیان ہے. کراچی جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ روشنیوں کا شہر ہے.آج اس شہر میں ایسا گھپ اندھیرا چھا یا ہواہے کہ جس کا چھٹنا مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہا .کراچی کے بارے میں کئی اورلیکن مبنی برحقیقت باتیں آج سے چند سال پہلے تک مشہور تھی. مثلا .اگر ایک طرف یہ شہر کاروباری حضرات کے لیئے جنت تھا ،تو دوسری طرف غریب عوام کے لیئے بھی ماں کی آغوش جیسا تھا .لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ یہ ساری باتیں اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے .وہ کراچی کے جن کے فٹ پاتھ اور گرین بیلٹس غریبوں کے پلنگ اور بستر ہوا کرتے تھے،بازار اور مارکیٹیں رات گئے تک کھلے رہتے تھے.آج شام ہوتے ہی اس شہر میں سناٹا چھا جاتا ہے. پاکستان بھر کا معاشی انحصار جس شہر پر ہے .آج اس شہر کے باسی خوف اور بے یقینی کے کیفیت سے دوچار ہے لیکن متعلقہ ادارے اور اس کے ذمہ داران مزے سے خواب خرگوش سورہے ہیں .جبکہ دشمن ایک سے ایک بدتر وار اس شہر پر کیئے جا رہاہے.اور اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ روز اہل کراچی کو دس ، پندرہ لاشوں کے ''تحفے،، دینے والوں کا دل جب اتنے لاشیں گرانے کے باوجود ٹھنڈا نہیں ہوا. توانہوں نے اتور 3 فروری کی شام عباس ٹاؤن واقع ابوالحسن اصفحانی میں ایک بڑا حملہ کرکے اہل کراچی کو ایک بار پھر خون کی آنسو رلانے پر مجبور کیا .یاد رہے کہ یہ وہی عباس ٹاؤن ہے جہاں آج سے کچھ ہی عرصہ پہلے بھی ایک دھماکہ ہواتھا .لیکن کیا کہیں متعلقہ ذمہ داران کا کہ وہ نہ تو اس سے پہلے والے حملے کو رکواسکے تھے اور نہ ہی حالیہ ہونے والے حملے کا سد باب کرسکے . حالانکہ اگر وفاقی وزیر داخلہ کے چند روز پہلے دیئے جانے والے بیان کا جائزہ لیا جائے جس میں موصوف نے کہا تھا کہ ''آنے والے دنوں میں کراچی میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا خدشہ ہے ،، تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ متعلقہ ذمہ داروں کے پاس اس حوالے سے معلومات موجود تھی لیکن بدقسمتی سے وہ اس سانحے کو روکنے میں ناکام رہے.لیکن ایک اہم سوال ہیاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخر کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز باالخصوص کراچی میں پے در پے ہونے والی خون ریزی روکنے میں ہمارے ادارے ناکام کیوں ہورہے ہیں؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اپکا دشمن مشرق میں بیٹھا ہے اور اپ اسے ڈھونڈنے مغرب کی سمت جاؤگے تو پھر تو یقینا ناکامی کا منہ دیکھنا ہی پڑے گا.اور یہ کام ہمارے اداے ایک عرصے سے کررہے ہیں .کہ جہاں کہیں کوئی دھماکہ ہوا متعلقہ ذمہ داران نے فورا بیان داغ دیا کہ یہ خودکش حملہ تھا .بس اس سے اگے نہ کوئی تفتیش اور نا ہی کوئی مستقبل کا لائحہ عمل .گویا کہ خودکش حملہ آور کو یہ استثناء حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے خود کو اڑادے ، متعلقہ پاکستانی حکام آڑے نہیں ائینگے.حالانکہ ہونا تویہ چاہیے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کہ بعد متعلقہ حکام سر جوڑ کر بیٹھ جائے اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی روک تھام کے لیئے اقدامات کرے .ہماری ایک اور بڑی کمزوری یہ ہے کہ جہاں کہیں کوئی سنی عالم یا عام آدمی دہشت گردی کا شکار ہوا ،ہم نے یہ فرض کرلیا کہ بس یہ تو شیعوں کے علاوہ کسی اور کا کام ہو ہی نہیں سکتا .ٹھیک اسی طرح جب شیعہ برادری دہشت گردی کا شکار ہوجاتی ہے ، تو تب بھی ہم آگے پیچھے دیکھنے کی بجائے اپنی توپوں کا رخ سینوں کی طرف کرلیتے ہیں کہ بھائی ان کے اندر تو برداشت ہی نہیں ہے ،اور یہ شیعوں کی نسل کشی میں مصروف ہے .وغیرہ وغیرہ. لیکن کیا واقعی یہ قتل و غارت گری اسی عمل اور ردعمل کا حصہ ہے ؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مین شیعہ ،سنی اختلافات ایک عرصے سے موجود ہے اور اس میں دونوں اطراف سے کافی جانی نقصان بھی ہوا ہے .لیکن جس تسلسل کے ساتھ ان دنوں ایک طرف شیعہ آبادی نشانے پر ہے اور دوسری طرف سنی اہل مدارس جن میں علماء کرام اور طلبہ بطور خاص نشانے پر ہے .اس سے یہی لگ رہا ہے کہ کوئی تیسرا ھاتھ ہے جو یہ سب کچھ کررہا ہے . اور وہ تیسرا ہاتھ اتنا پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ نظر ہی نا آئے .کیونکہ اسی تیسرے ہاتھ کے بارے میں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا 2011 میں دیا جانے والا ایک بیان ان دنوں منظر عام پرآچکا ہے .جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک پڑوسی ملک پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیئے تمام حربے استعمال کررہاہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے وہ ملک نہ صرف پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کو استعمال کررہاہے بلکہ ایک اور پڑوسی ملک کے سرزمین سے بھی پاکستان کے خلاف بر سر پیکار ہے. چک ہیگل کے بیان کے علاوہ ایک اور رپورٹ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا حوالہ میں اس سے پہلے اپنے ایک کالم میں دے چکا ہوں کہ جس میں محکمہ داخلہ سندھ کے معاون خصوصی شرف الدین میمن نے کہا تھا کہ کراچی میں نوے قتل صرف تیں پستولوں سے ہوئےہیں .اور مقتولین میں شیعہ، سنی مہاجر ، پٹھان سب شامل ہے. ان حقائق کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اتنی دھشت گردی کے باوجود دونوں طرف کے سنجیدہ اور حالات پر نظر رکھنے والی شخصیات بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار نہیں کہ یہ شیعہ سنی اختلاف کا نتیجہ ہے بلکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے لہذا حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے عوام کا تحفظ یقینی بنائے.اور اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ واقعے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیعہ علماء کونسل کے رہنما علامہ ناظر عباس نقوی کا کہنا تھا کہ شہر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے.یہاں ایک اور قابل ذکر بات بھی ملاحظہ فرمائیں ! دارالعلوم کراچی جو کہ پاکستان کا مشہور دینی ادارہ ہے .انکے صدر محترم جناب مفتی رفیع عثمانی نے ایک دن اپنے جمعتہ المبارک کے بیان میں آج سے چند سال پہلے رونما ہونے والے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ''ایک دن اچانک دارالعلوم کراچی کے گیٹ پر فائرنگ ہوئی جس سے جامعہ کا ایک طالب علم زخمی ہوا ، جب اس حوالے سے معلومات اکٹھا کیا تو پتہ چلا کہ فائرنگ کرنے والا ٹیکسی میں سوار تھا ،جو فائرنگ کرکے فرار ہوا.اس کے کچھ دیر بعد یہ خبر ائی کہ شہر میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والا ایک فرد کو کسی نے گولی ماردی ہے .وہاں جب عینی شاہدین کے بیانات سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ ادھر بھی اسی ٹیکسی سوار نے فائرنگ کیا ہے جس نے تھوڑی دیر پہلے جامعہ کے ایک طالب علم کو زخمی کیا تھا.

مندرجہ بالا واقعہ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ عوام کو پتہ چلے کہ کس طریقے سے تیسرا ہاتھ شیعہ سنی کا آڑ لیکر اپنے مذموم عزائم پورا کرنے میں مصروف ہے.

کالم کے اخر میں متعلقہ حکومتی ذمہ داران کی خدمت میں عرض ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیجیئے .اور اس سانحے میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرکے عوام کے سامنے لائے جائے. اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کہ اس لہرمیں ایک ایسے وقت تیزی کیوں آرہی ہے. جب پاکستان نے گوادر پورٹ کا انتظام چین کو حوالے کیا ،ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر اہم پیش رفت کیا اور تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی حامی بھری .انہی باتوں کو لیکر اگر حکومت وقت تھوڑی سی عقلمندی کا مظاہرہ کرے تو امید ہے کہ انشاءاللہ بہت جلد حالات پر امن ہوجائینگے .کیونکہ بڑوں کا قول ہے کہ عقلمند کے لیئے اشارہ ہی کافی ہوتاہے-
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 115156 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More