جوں جوں عام انتخابات قریب آتے
جارہے ہیں، توں توں سیاسی جماعتوں کے رابطوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ نئی سیاسی
صف بندیاںہورہی ہیں۔ ماضی قریب کے حلیف، حریف اور دوریاں رکھنے والی
جماعتوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت الیکشن میں کامیابی اور
زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف ہے۔ اسی
پس منظر میں سیاسی رہنماﺅں کی ملاقاتوں میں تیزی اور نئے سیاسی اتحاد وجود
میں آرہے ہیں۔
جہاں تک سندھ کی سیاست ہے تو اس میں منگل 26 فروری کو ایک بڑی پیش رفت
سامنے آئی جب نواز شریف نے پیر پگارا سے ملاقات کی۔ اِس میں طویل مشاورت
اور غور و خوض کے بعد ن لیگ، فنکشنل لیگ اور این پی پی کے انتخابی اتحاد پر
معاملات طے پانے کا باضابطہ اعلان میاں نواز شریف نے کِنگری ہاﺅس میںپریس
کانفرنس کے دوران کیا۔ دیکھا جائے تو نواز شریف ایک عرصے سے سندھ کی سیاست
میں اپنی پارٹی مضبوط کرنے کے لیے کوشاںہیں۔ یہاں کی سیاست پر اثر انداز
ہونے کے لیے انہوں نے دیہی سندھ کے متعدد دورے بھی کیے، لیکن یوں محسوس
ہوتا ہے کہ ان کی انتخابی حکمت عملی میں جھول ہے۔ اگر سندھ کی سیاست کا
تجزیہ کیا جائے تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سندھ شہری اور دیہی
حصوںمیں تقسیم ہے۔ شہری سندھ پر متحدہ قومی موومنٹ کا غلبہ ہے تو دیہی میں
پیپلزپارٹی کا اثر و رسوخ ہے۔ دونوں جگہ نواز لیگ کمزور ہے۔ نواز شریف کی
کاوشوں سے سندھی قوم پرست ان کی حمایت پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
اب کی بار نواز شریف نے مسلم لیگ فنکشنل اور این پی پی سے اتحاد کا اعلان
کیا ہے جسے بہت بڑا بریک تھرو سمجھا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیہی
سندھ میں آج بھی پیپلزپارٹی کا طوطی بولتا ہے۔ لوگوں کو اس سے شکایتیں تو
ہیں لیکن وہ اس طرح کی نہیں کہ کوئی پارٹی کا مخالف ہوجائے اور پی پی کو
ووٹ ہی نہ دے۔ خیر پور اور سانگھڑ میں مسلم لیگ فنکشنل کا غلبہ ہے، جب کہ
نوشہرو فیروز سے ن لیگ کو مضبوط امیدوار ظفر علی شاہ مل گئے ہیں۔ علاوہ
ازیں دادو اور جتوئی میں ن لیگ این پی پی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم
دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع پر اب بھی پیپلزپارٹی کی گرفت
مضبوط ہے۔
اس ساری محنت کے نتیجے میں بھی ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اگر 5 سے
7 سیٹیں مل جانا بھی غنیمت ہوگا، اس سے زیادہ کسی بڑے بریک تھرو کے امکانات
کم ہیں۔اگر میاں نواز شریف شہری سندھ پر توجہ مرکوز کرتے اور یہاں اتنی
محنت کرتے تو اس سے زیادہ کامیابی مل سکتی تھی۔ کیوں کہ اپنی جوہری ساخت
میں نواز لیگ شہری پارٹی ہے اور اور پی پی دیہی.... دونوں کی قیادت پر ان
دو طبقوں کا غلبہ ہے۔ پیپلزپارٹی دیہی سیاست کے داﺅ پیچ اچھے لڑتی ہے،
جاگیردار، وڈیرے اور خان کے لیے دامن کشادہ کرتی ہے۔ اس کے کارکن سے لے کر
قائدین تک سب دیہی پس منظر سے جڑے ہیں۔ جب کہ ن لیگ شہروںکی سیاست پر قبضہ
کرنے میں مہارت رکھتی ہے، اس کے کارکن اور لیڈروں کی اکثریت شہروں سے تعلق
رکھتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی ن لیگ کے اکثر ورکر اور لیڈر شہری سندھ کے
ہیں۔ اس لیے پارٹی کے لیے آسان تھا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں متحرک
ہوجاتی۔ نواز شریف نے جتنے جلسے دیہی سندھ میں کیے اور جتنا وقت وہاں گزارا
اس کا آدھا بھی کراچی میں لگاتے تو شاید بہتر نتائج حاصل کرسکتے۔
دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کو شکست دینا اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہاں کی
سیاست پر وڈیرے اور جاگیردار قابض ہیں او یہ سب پیپلزپارٹی کے حامی ہیں۔
جہاں تک سندھ کے قوم پرستوں کی بات ہے تو ان کی حمایت کے ذریعے بھی ن لیگ
کے لیے کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ قوم پرستوں کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ ان سے ہنگامے، شور شرابہ، سڑکیں بند کروالو، آگ لگوالو، ٹائر جلوالو،
ریلی نکلوالومگر انھیںالیکشن نہ لڑواﺅ۔ کیوں کہ سندھیوں نے انہیں آج نہیں،
شروع سے ہی مسترد کر رکھا ہے۔ ان میں پیپلزپارٹی سے لڑنے کا حوصلہ ہے اور
نہ ہی انہیں کوئی ووٹ دیتا ہے۔
لہٰذا نواز شریف اگر واقعتاسندھ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں
دیہی کی بجائے شہری سندھ پر توجہ دینا ہوگی کیوں کہ سندھ کی دونوں بڑی
جماعتیں آج بھی در پردہ ایک ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے کالم میں ہم نے عرض کیا تھا
کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی لڑائی نورا کشتی ہے۔ گورنر سندھ کی
دوبارہ واپسی اور ایم کیو ایم کو اپوزیشن تسلیم کرنے سے یہ بات ثابت ہوگئی
کہ دونوں جماعتیں اندر سے ملی ہوئی ضرور ہیں۔ بقول پیر پگارا سب کچھ طے شدہ
اسکرپٹ کے تحت ہورہا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے درمیان معاملات میں بڑی پیش رفت تب
سامنے آئی، جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے گورنر سندھ کو فون کرکے
کہا کہ وہ اپنا استعفا واپس لے کر گورنر شپ کا عہدہ سنبھالیں۔
دوسری جانب سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ءپر عمل درآمد کا نوٹیفکیشن بھی
جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت ایس پی ایل جی اے 2012ءکے تحت قائم بلدیاتی
ادارے تحلیل اور پرانے بلدیاتی ادارے بحال کردیے گئے ہیں۔ اِس پر ایم کیو
ایم کی جانب سے کوئی سخت رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ایم کیو ایم کی حکومت سے
علیحدگی کے بعد اے این پی دوبارہ سندھ حکومت کا حصہ بن گئی۔ اب ٹیکنیکل طور
پر نگراں سیٹ اپ کی تشکیل پیپلزپارٹی، اے این پی اور ’اپوزیشن‘ جماعت ایم
کیو ایم کی رضا مندی سے ہوگی۔ بعض مبصرین کے مطابق فنکشنل لیگ کو نگراں سیٹ
اپ پر مشاورتی عمل سے نکالنے کے لیے یہ سیاسی کھیل کیا گیا۔ جہاں تک
بلدیاتی نظام کا تعلق ہے تو آیندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی سندھ کے لوگوں
سے یہی کہے گی کہ ہم نے سندھیوں کے مفاد میں اتحادیوں کے دباﺅ کے باوجود
1979ءوالا پرانا بلدیاتی نظام بحال کیا۔ دوسری جانب ایم کیو ایم بھی اپنے
ووٹروں سے کہے گی کہ آیندہ الیکشن میں ہمیں ووٹ دیں، تاکہ شہریوں کے مفاد
میں 2002ءوالا بلدیاتی نظام بحال کرسکیں۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت الیکشن میں کامیابی کے لیے لائحہ عمل
وضع کرنے اور اپنے پتے کھیلنے میں مصروف ہے۔ نگراں سیٹ اپ کی تشکیل او
آیندہ الیکشن اب زیادہ دور نہیں رہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت اور اس کی
اتحادی جماعتوں پر ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے، مہنگائی اور غربت
جیسے ایشوز کے ساتھ میدان میں اتریں گی، لوگوں میں غم و غصے کی کیفیت بھی
ہے۔ |