الیکشن کا موسم ہے اور تمام بڑی جماعتیں کی
ٹکٹیں ، جوڑ توڑ کا سلسلہ ، سچے جھوٹے وعدے اور تمام تر شعبدہ باذی کی
تیاریاں کی جا رہی ہیں اور خزانوں کے منہ کھول دیے گئے ہیں ۔ ایک طرف تو
وزیراعلٰی پنجاب صاحب نے گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک تمام کنٹریکٹ ملازمین کو
مستقل کر دیا ہے اور دوسری طرف پی پی پی نے نوجوانوں کو بلا سود قرضے فراہم
کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور عوام کے پیسے سے ہی اس کی تشہر بھی کی ۔۔ اصل
میں اس ملک کے لوگوں کی نہ تو زہنی اور نہ ہی تعلیمی طور پر تربیت کی گئی
ہے۔ ہم لوگ چونکہ کئی صدیوں تک بادشاہوں کے زیر اشر رہے اور پھر اہک صدی تک
برطانوی راج کے زیر اشر رہنیے کی وچہ سے ہمارے معاشرے میں فیوڈل کلچر عام
ہو گیا ہے اور اس قدر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ لوگ یہ جانتے ہوئے بھی
کہ ملک کی موجودہ جماعتیں فیوڈل کلچر کو سپورٹ کر رہی ہیں مگر پھر بھی ہم
لوگ انہی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں ۔ ڈھٹائی ،جھوٹ ، منافقت ، شعبدہ بازی ،
حق تلفی عوامی معاملات ، میں عدم دلچسپی ان جماعتوں کا وطیرہ بن چکا ہے ۔میں
کچھ روز قبل وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا ایک بیان پڑھ رہا تھا وہ
فرما رہی تھیں کہ عوام کی طاقت سے ہم دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔
بندہ پوچھے کہ یا تو آپ لوگوں کو روز قیامت بھول گیا ہے جو آپ عوام کو پھدو
بنا رہے ہیں اور جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
ایک دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے ظاہر اور باطن میں
فرق نہ ہو۔ اس میں منافقت کا عنصر نہ پایا جاتا ہو ۔ مگر اب تو نہ شرم رہ
گئی ہے اور نہ ہی حیا ۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کے حکمران ملک سے باہر
اور لوگ ملک کے اندر بھیک مانگتے ہیں۔بات کافی دور نکل گئی میں بات کر رہا
تھا فیوڈل کلچر کی۔فیوڈل کلچر میں صرف جاگیردار ، وڈیرے اور زمیندار ہی
نہیں بلکہ اس میں بڑے بڑے بزنس مین اور صنتکار بھی شامل ہیں جو رفتہ رفتہ
اپنی دولت کے بدولت سیاست میں آتے ہیں اور پھر اپنی دولت میں بھی اضافہ
کرتے ہیں۔جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اور کافی کوششیں کی گئی کہ لوگوں میں
فیوڈل کلچر کی سوچ کو تبدیل کیا جائے مگر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں
آ رہے اور حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اس کا واضح ثبوت ہیں ۔ اس وقت ملک
کی دو بڑی جماعتیں ہیں یعنی مسلم لیگ ن اور پی پی پی ۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں بڑی
جماعتیں ملک پر کئی بار حکمرانی کر چکی ہے اور دونوں کے سیاسی کلچر میں
کوئی واضح ہا نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ طویل حکمرانی نے دونوں
جماعتوں میں نہ جمہوری گروہوں کو ابھرنے دیا اور نہ فیوڈل کلچر کی گرفت
کمزور ہوئی ۔ بلکہ دونوں پارٹیا ں ون مین شو کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اور نہ
ہی جمہوری کلچر کی پارٹی میں فروغ پانے دیا گیا ۔ خاندانوں کی اجارہ داری
سے سے لے کر دولت کے بے دریغ استمال تک ، پارٹی انتخابات کو من پسند سانچے
میں ڈھالنے سے لے کر عام کارکنوں کی تربیت تک اور رسائی تک کوئی اہم تبدیلی
دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جس کو ہم ایک جمہوری کلچر کی علامت تصور کریں یا
فکری تبدیلی کا مظہر سمجھیں۔
اگرچہ کچھ جاگیردار تحریک انصاف میں بھی شامل ہو گئے ہیں اور اس کے باغی
چہرے کو داغدار کر دیا ہے مگر پھر بھی عوام عمران خان سے تبدیلی کی توقع
رکھتے ہیں اگر عمران خان تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ لہر
پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ایک بڑی جماعت اور سیاسی قوت بن کر
ابھر سکتے ہیں ورنہ ملکی سیاست کے نقشے پر کسی بڑی تبدیلی کے آثار دکھائی
نہیں دیتے ۔
فیوڈل کلچر جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ جب تک اس کی طاقت کمزور نہیں
ہوتی تب تک جمہوریت کا پودا پوری طرح پروان نیں چڑھ سکتا اور نہ ہی جمہوریت
کے ثمرات عوام تک پہنچ سکتے ہیں پی پی پی کے پانچ سالہ بدترین دور حکرمت کے
باوجود بھی اگر لوگوں کی سوچ نہ بدلی تو پھر عوام گلہ نہیں کر سکیں گے اور
یوں ہم لوگ بھی اس ملک میں ہونی والی ٹارگٹ کلکنگ ، بھوک اور افلاس کے زمہ
دار ہوں گے |