سیاسی جماعتوں کیجانب سے
عسکریت پسندی کےخلاف متفقہ قراردادوں میں مذاکرات کی گونج نمایاں رہی ،
ملکی سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر عسکریت پسندوں کےساتھ مذاکرات کےلئے
حکومت سے مطالبہ کیا ہے ،آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں حکومت پر
زور ڈالا گیا ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت اور
فوری جواب دے۔ جبکہ عسکریت پسندوں اور حکومت کو "فریقین" اور دہشت گردی کو
"بے امنی "سے تعبیر کرکے قرارداد میں عین وقت پر تبدیلی کی گئی ۔پانچ نکاتی
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گرینڈ قبائلی جرگہ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے
تمام فریقین سے بات چیت کےلئے با اختیار ہوگا ،مذاکرات آئین پاکستان کی
حدود میں کئے جائیں گے اور متعلقہ قوانین و حکومتی رٹ کو یقینی بنایا
جائےگا۔موجودہ عبوری اور آئندہ حکومت طے شدہ سفارشات پر عملدرآمد کی پابند
ہونگی نیز شہدا ،زخمیوں کے لواحقین کےلئے ٹرسٹ قائم کرنے کی سفارش کی گئی
ہے۔تیس کے قریب سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی۔عسکریت
پسندوں کی جانب سے اعلامیہ جاری ہوا کہ فوج کے مثبت روئےے کا انتظار ہے ،
گرینڈ جرگہ کو اختیار دینے کا خیر مقدم کیا گیا لیکن اس بات پرغور کرنے کی
ضرورت ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی ، کوئی دور رس نتائج پیدا
کرسکتی ہے ؟۔ ماضی میں اسمبلیوں میں پیش کردہ قراردادوں کو بد ترین ناکامی
کا سامنا رہا ہے اور حکومتی اداروں سے عوام نے شدید مایوسی کا اظہار کیا
ہے،جس سے حساس و حکومتی اداروں کی ساکھ داﺅ پر لگ گئی ہے، لہذا اس ضمن میں
اسمبلیوں کے اندر یا باہر بیٹھنے والی جماعتوں کی جانب سے کسی بھی قرارداد
کا حشر ایوانوں میں پیش کی جانے والی قراردوں جیسا ہوسکتا ہے۔اگر من الحیث
القوم تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کےخلاف متفق ہوتیں تو یقینی طور پر اے
پی سی میں منظور کی جانے والی قراردادوں کا حشر ،مختلف ہوتا اور آج پاکستان
میں امن کا وجود ، ناممکن کے بجائے ممکن ہوتا۔بنیادی طور پر یہ المیہ رہا
ہے کہ پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیساں ، صرف اور صرف عالمی قوت امریکہ کی
آرزﺅں کا شاہکار رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے منتخب ایوانوں کی
قراردادوںپر عمل درآمد صرف پریس کانفرنس تک محدود رہا۔ملکی سیاسی عدم توازن
اور باہمی اختلافات کی بنا ءپر عوام متقاضی رہے کہ دہشت گردی کےخلاف تمام
سیاسی جماعتوں میں توازن اور بردباری پیدا ہو تاکہ بین لااقوامی طاقتوں
کےلئے سرزمیں پاک کسی بڑی تباہی اور مسلسل جنگ سے نکل سکیں۔ملکی سیاسی عدم
توازن واختلافات کے باعث دہشتگردی کےخلاف جنگ میں ناکامی رہی اور دنیا کی
واحد عالمی قوت کے مفادات کےلئے پاکستانی عوام کو بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ۔
اگر عالمی طاقتوں میں امریکہ کے انفرادی کردار کے بجائے ، دنیا میں بیلنس
آف پاور ہوتا تو یقینی طور پر کسی بھی خطے میں جنگ کا دورانیہ اس قدر طویل
ہرگز نہیں ہوتا۔عمومی طور پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ
کیجانب بڑھ رہی ہے ،لیکن یہ تجزیات ، مجموعی غلطی پر ہیں کیونکہ جنگ میں
مخالف قوتیں آپس میں نبر الزما ہوتی ہیں ، لیکن جب عالمی طور پر طاقت کا
توازن صرف ایک جانب ہو تو کسی طور عالمی جنگ چھڑنے کے خدشات نہیں
رہتے۔پاکستان بلاشبہ عالمی ایجنڈے کے تحت ، دہشت گردی کا شکار ہے ، جیسے
مستحکم بنانے کےلئے حکومتی اداروں اور ارباب اختیار نے اہم کردار ادا کیا
ہے۔واحد عالمی قوت کی تمام تر خرابی یہی ہے کہ ایسے روکنے ٹوکنے اور من
مانی کرنے سے روکنے ولا کوئی نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی اورطاقت سے جیسے
چاہیے روندتا چلا جاتا ہے۔افغانستان کےخلاف امریکی جارحیت نے خطے میں بے
امنی کا عفریت مسلط کردیا ہے۔نائن الیون کا بہانہ تراش کر افغانستان کی
سرزمین پر جارحیت کرنے والی واحد عالمی طاقت کو روکنے میں ،تمام مسلم ممالک
ناکام رہے بلکہ نمایاں طور پر جارحیت کو توثیق بخشی۔پاکستانی ارباب اختیار
اس غرور وزعم میں مبتلا تھے کہ وہ فاتح افغان اور سودیت یونین کو شکست دینے
میں کامیاب رہے ہیں ، لیکن جب امریکی حکام نے دہمکی دےتے ہوئے ،پاکستان کو
پتھر کے دور میں لے جانے کا کہا تو ، شاہینوں کے بازوں میں پرواز کی قوت ہی
نہیں رہی اور کسی مٹی کے تودے کی طرح، نام نہاد سنگلاخ چٹانوں کے دعوے کرنے
والے صرف ایک ٹیلی فون پر ڈھیر ہوگئے ۔مسلم ممالک کےساتھ عالمی قوت کا واحد
استعارہ امریکی رویہ ، خود ہمارے مسلم ممالک کی جانب سے بے حسی کی بنا ءپر
جارح ہوا۔ عراق پر امریکی طاقت کا مظاہرہ ، کہ کیمیاوی ہتھیاروں سے دنیا کو
خطرہ لاحق ہے ، آج تک جاری ہے لیکن اتنے عرصے بعد بھی ایک کیمیاوی ہتھیار
سرزمیں عراق سے برآمد نہیں کرایا جاسکا ،لبنان ، شام ، مصر اور ایران
امریکی سازشوں کی سرزمین بنی ہوئی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ کرہ ارض
پر واقع کسی بھی ملک کو، امریکی جارحیت اور دہمکیوں کا جواب دینے کی ہمت
نہیں ہوئی،۔ یہی کچھ افغانستان اور پھر پاکستان کے ساتھ ہوتا رہا لیکن کسی
بھی مسلم ملک نے مسلم ایٹمی طاقت کو معاشی طور امریکی صہیونی غلامی سے
نکالنے کی کوشش نہیں کی۔اس سے زیادہ افسوس ناک صورتحال یہ بھی رہی کہ ملک
کی سیاسی جماعتوں نے جب طویل آمریت کے بعد جمہوری دور میں قدم رکھا ، تو
ڈکٹیٹر کی پالیسوں کو ختم کرنے کے بجائے ،شاہ سے بڑھ کر عوامی امنگوں کے
برخلاف اقدامات میں تاریخ میں سیاہ کردار ادا کرگئے ، جس کا آج لازمی نتیجہ
، معصوم و بےگناہ عوام کو دہشت گردی کی صورت میں مل رہا ہے جیسے بد قسمتی
سے سیاسی جماعتیں بے امنی کہہ رہی ہیں جبکہ اسکول ، ہسپتال ،مذہبی مقامات ،
بازار، دفاعی ادارے اور کوئی بھی راہ گزر ایسی نہیں جیسے عسکریت پسندوں نے
تہہ و بالا نہ کیا ہو۔ہزاروں معصوم بے گناہوں کا خون ان کی گردن پر ہے ، آج
انتخابات سے قبل اگر تمام سیاسی جماعتیں آل پارٹیز منعقد کرکے خود کو یکجا
کرنے میں مصروف ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ، انتخابی جلسوں و وریلیوں میں ،
اپنے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ورنہ پانچ سال تک ، ملک کو درپیش اس اہم مسئلے
پر ، اختیار کے باوجود عملی اقدامات نہ اٹھانا ، سیاسی کمزوری اور مصلحت
پسندی تھی ، جس کے باعث عسکریت پسندوں کے قدم اس قدر مضبوط ہوئے کہ جب
چاہیں ، جدھر چاہیں ، اپنے ہدف کو با آسانی کامیاب نشانہ بنا سکتے ہیں،جے
یو آئی ف کی اے پی سی میں قبائلی جرگے کا کردار اہم ہے ، کیونکہ دہشت گرد
عناصر انہی کے علاقوں میں مستحکم ہوئے ہیں ، اگر پختون روایات کے مطابق ،
قبائل سنجیدہ ہوجاتے ہیں تو یقینی طور پر عسکریت پسندوں کو بھی ، اپنے
رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی ۔ تمام سیاسی و حکومتی جماعتوں سے صرف
اتنی درخواست ہے کہ عوام کے حوصلے آج بھی باعزم اور بلند ہیں ،لیکن بغیر
اسلحہ اور دفاعی تیاری کے یہ بلند حوصلگی کتنی دیر چلے گی ؟۔کیا اخلاقی و
صرف سیاسی کانفرنسیں ، مسلح دہشت گردوں کی کاروائیوں کو روکنے میں کامیاب
ہوسکتی ہیں۔یا پھر مذمت اوراحتجاج معصوم بے گناہوں کے خون سے عسکریت پسندوں
کو دستبرادر کرانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟یقینی طور سب جانتے ہیں کہ ایسا
ممکن نہیں ہے ۔عوام اس وقت سیاسی جماعتوں کے کمزور فیصلوں کی وجہ سے مصیبت
میں گرفتار ہے۔عسکری پسندوں کی جارحیت اور حملہ آور کو صرف واعظ سے نہیں
روکا جا سکتا ، اسلئے سیاسی و مذہبی جماعتیں ،صرف حکومت پر زور نہ ڈالیں کہ
وہ ہتھیار پھینک دے اور عسکریت پسند من مانی کرتے رہیں ،۔اصل خرابی ، دہشت
گردی کی مذموم کاروائیاں ہیں، جیسے قابل مذمت ،کم از کم تسلیم کرتے ہوئے ،
اس کے ذمے داری دہشتگرد گروپوں پر عائد کرنا ضروری ہے ،نیز اپنی قرارداد
میں سیاسی جماعتیں یہ کیوں نہیں کہتی کہ اگر عسکریت پسند حکومت رٹ تسلیم
نہیں کرتے تو ان کے خلاف عوام و فوجی طاقت کے ساتھ ان کی جماعت بھی ہوگی۔اب
تک منعقد کی جانے والی دونوں اے پی سی میں اہم خامی یہی ہے کہ ، سیاسی
جماعتیں مذاکرات کےلئے حکومت پر دباﺅ ڈالنے کا عزم تورکھتی ہیں لیکن عسکریت
پسندوں کے خلاف ، مربوط حکمت عملی اب بھی مقفود ہے ، گذارش ہے کہ صرف
قراردادیں ، بے امنی کا مسئلے کا حل نہیں ، اس کےلئے عملی اقدامات بھی
ضروری ہیں۔ |