وائٹ ہاوس کے نامزد
وزیردفاع چک ہیگل نے امریکی سینیٹ میں 54 ووٹس لیکراوبامہ کیبنٹ میں اپنی
سیٹ پکی ۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ بھارت ایک طرف پاکستان میں دہشت
گردانہ کاروائیوں کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے تو دوسری
جانب بھارتی ایجنٹ سرحد پار پاکستان کے خلاف سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ چک
ہیگل کے مطابق ہندوستان نہ صرف دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے بلکہ را
کے کرتے دھرتے سرحد پار تخریب کاری شدت پسندی اور خون ریزی کے معاون اور
مدد گار بنے ہوئے ہیں۔ چک ہیگل کا سچ جہاں پاکستانی موقف کی صد فیصد تائید
کرتا ہے تو وہاں چک ہیگل کا انکشاف بھارت کی منفی سوچ اور اینٹی پاکستان
فارن پالیسی کا احاطہ کرتا ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ پاکستان جو خطے
میں امن کا خواہاں ہے بھارت کے ساتھ تمام تنازعات پر ڈائیلاگ کی میز پر حل
کرنے کا متمنی ہے کے مقابلے میں دنیا کی بگ ڈیموکریسی پاکستان کی دفاعی اور
اقتصادی قوت کو پاش پاش کرنے کے درپے ہے۔ مہا بھارت اور خود کو سپریم
سمجھنے والے بھارتی حکمران اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی رو سے خطے میں
پائیدار امن کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ امریکی
وزیردفاع کے حق برمبنی انکشافات کے کارن چک ہیگل کی نامزدگی پر غوغہ ارائی
کررہی ہے۔ مغرب کے معروف تجزیہ نگار فل سٹیورٹ نے امریکہ کے نیو ڈیفینس
منسٹر چک ہیگل کی نامزدگی پر آٹیکل عنوان> کیا وزیردفاع امریکہ کے جنگی
جنون کو ختم کرسکتے ہیں <تحریر کیا ہے جس میں پاک بھارت ریلیشن شپ اور
افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔چک ہیگل ویت
نام کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ عسکری قوت کے استعمال جنگ کی ہولناک
تباہ کاریوں اور جنگی میدانوں کے حدود و دربعے سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔
امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کابل سے امریکی فورسز
کے انخلا اور شام و ایران کے ساتھ تمام تنازعات کے خاتمے کے لئے جنگ کی
بجائے مذاکرات کے انعقاد میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ صدر اوبامہ نے
دوسری ٹرم کے وزیردفاع کی نامزدگی کے موقع پر کہا تھا چک ہیگل سمجھتے ہیں
جنگ کوئی معمولی چیز نہیں۔ امریکی فورسز کو اس وقت میدان جنگ میں جھونکا
جانا چاہیے جب اسکے علاوہ کوئی اور آپشن نہ ہو۔ افغان جنگ کے متعلق
وزیردفاع کے خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی پر اپنی
مرضی مسلط نہیں کرسکتے۔ سوویت یونین نے بھی کابل میں یہی سبق سیکھا تھا اور
ہم بھی یہی درس سیکھ چکے ہیں۔ وزیر دفاع چونکہ جنگ کا براہ راست تجربہ
رکھتے ہیں اسی لئے پینٹگان میں انکا بہت احترام پایا جاتا ہے۔چک ہیگل
نے2008 میں فارن پالیسی میگزین کے انٹرویو میں یہودی لابیوں کو شدید ہدف
تنقید بنایا تھا کہ یہودی امریکی حکومت میں شامل کئی شخصیات کو ڈرانے
دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں اس پر طرہ یہ کہ یہود نواز حلقے ایران امریکہ
مذاکراتی عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ امریکی فضائیہ ہر ماہ
افغانستان کے آپریشن فریڈم کے اعداد و شمار جاری کرتی ہے۔ اعداد و شمار کی
رو سے امریکہ اور ناٹو نے2012 کے پہلے سات ماہ میں فضا سے زمین پر1505 بار
حملے کئے جن میں3886 ہتھیار استعمال ہوئے۔ ان میں سے3439 لڑاکا طیاروں
جبکہ447 ڈرون طیاروں سے فائر کئے گئے۔ ڈرون حملوں کے ایک یونٹ پر120 ملین
ڈالر جبکہ پائلٹ بردار جہازوں کا خرچہ55 ملین ڈالر ہے۔ڈرون جہازوں کو چلانے
پر سالانہ20 ملین ڈالر جبکہ پائلٹ بردار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں
کوبرا اور ایف 16 کا سالانہ خرچہ5 ملین ڈالر ہے۔فل سٹیورٹ لکھتے ہیں کہ چک
ہیگل نے ڈرون حملوں کے متعلق فیصلہ کرنا ہے جو انکے نذدیک مشکل ترین فیصلہ
ہوگا کیونکہ امریکی ایوان بالہ میں ڈرون کے طرفداروں کی تعداد زیادہ ہے۔
امریکہ کے دفاعی تجزیہ نگارsimon jakins نے گلف نیوز میں شائع ہونے والے
اپنے آرٹیکل >کیا ڈرون سے جنگ جیتی جاسکتی ہے< میں ڈرون کے سہارے جنگ جیت
لینے کے خواہشمندان کے سارے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔ سائمن لکھتا ہے کہ
امریکہ ڈرون ٹیکنالوجی کی بھرمارسے جنگ جیتنا چاہتا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ
ڈرون نامی تدبیر ناکام ہوچکی ہے ڈرون نے تو جنگ کو طویل تر بنادیا۔ ڈرون سے
جیت تو درکنار الٹا ڈرون کی بھرمار نے طالبان کی مزاحمت کو توانائی بخشی۔
بھارت جنوبی ایشیا میں سامراجی عزائم رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش ہو یا بھوٹان
نیپال ہو یا چین ہمسائیہ ملکوں کے ساتھ بھارتی تعلقات کی تاریخ زیادہ
خوشگوار نہیں۔پاکستان نے جوق در جوق افغان جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ
دیا۔ دہشت گردی کی صہیونی جنگ میںپاکستان 45 ہزار ہلاکتوں کی قربانی دے چکا
ہے مگر انڈین لابی اتنی مضبوط و فعال ہے کہ انہوں نے امریکہ کو باور کروا
رکھا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔ اگردوسری جنگ عظیم میں ایک
دوسرے کو تہس نہس کرنے والے مغربی ممالک ایک یورپی یونین کے شجر سایہ
دارتلے یک جان ہوسکتے ہیں تو پھر کیوں بھارت گھمنڈ میں مبتلا ہوکر ہمسائیوں
کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟ بھارت نے70 کی
دہائی میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت دی اسلحہ دیا اور بعد
میں مشرقی پاکستان پر جارہیت کرکے دنیا کی سب سے بڑی نظریاتی اسلامی مملکت
کو دو لخت کر دیا۔ بھارت اب افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردانہ فتنہ
گریوں کے لئے استعمال کررہا ہے۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے حال ہی
میںبھارتی سکرپٹ پڑھ کر پاکستان کو مورد الزام ٹھرایا یہ کہاں کی دانشمندی
ہے ؟کرزئی شائد بھول چکے ہیں کہ پاکستان ان سمیت تین دہائیوں سے لاکھوں
افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کرتا آرہا ہے۔ پاکستان میں اسلحہ کلچر مذہبی
انتشار فرقہ واریت اور منشیات کا سیلاب افغان مہاجرین کے کارنامے ہیں جس نے
ہماری سلامتی قانون کی رٹ اور آئین کی کارفرمائی کا بھرکس نکال دیا۔ ہماری
قربانیوں کا یہ صلہ دیا جارہا ہے۔ cia کے سابق افیسرbroos ridel نے اپنی
کتاب میں نیا انکشاف کیا ہے کہ1970 میں امریکی صدر نکسن کو پاکستان کی
حمایت پر امریکہ کے محکمہ خارجہ اور دفاع کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا
کرنا پڑا تھا۔ بروس رائیڈل کے مطابق نکسن نے سفارت کاروں کو اپنا جھکاو
پاکستانی پلڑے میں ڈالنے کا حکم جاری کیا تھا مگر اس وقت کے وزیر خارجہ
ولیم روگرز نے ڈھاکہ ایمبیسی میں خود ساختہ ٹیلی گرام بھیجا کہ صدر کی
ہدایت پر بے گناہ بنگالیوں کے قتل عام کو روکنے اور جمہوریت کی حمایت پر
مبنی نیو امریکی پالیسی مرتب کرنے کی کوشش کی جائے۔ گو بھارت نے روائتی ہٹ
دھرمی سے کام لیکرمیں نہ مانوں والی پالیسی کی روشنی میں چک ہیگل کے
انکشافات کو مسترد کرتے ہوئے لغوبیانی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔بھارتی
ترجمان نے چک ہیگل کے سچ کو سفید جھوٹ میں بدل دیا کہ بھارت پڑوسی ملکوں کی
خوشحالی چاہتا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی زی ہوش مند شخص انڈین ترجمان کے اس
فسوں کار بیان کی تائید کرسکتا ہے؟ بھارت کے سر پر ex قاتل اعظم امریکی صدر
بش جونیر کی طرح جنگی جنون کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے۔بھارت جنوبی ایشیا
کی بڑی عسکری اور اقتصادی سپرپاور بننے کے زعم میں مبتلا ہے۔ کاش بھارت
دہشت گردی کو فروغ دینے کی بجائے امن کی خاطر بگ برادر کا کردار ادا کرتا۔
بھارت کشمیر سے لیکر کوئٹہ تک اور کابل سے لیکر فاٹا تک دہشت گردانہ
سرگرمیوں کو فروغ دیکر انسانیت کا منہ کالا کررہا ہے۔چک ہیگل کے انکشافات
اور سچ نے جہاں بگ ڈیموکریسی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کیا ہے تو وہیں
وزیردفاع کا سچ خود چک ہیگل کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے کہ وہ وزیردفاع کی
حثیت میں اپنے جنگی پارٹنر پاکستان پر ڈرون حملوں کی بندش ،کابل سے امریکی
فورسز کے انخلا ،پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے ایران امریکہ ڈائیلاگ کو یقینی
بنانے کی سعی کریں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چک ہیگل سچ کا افتاب ظلمت
استعماریت اور سامراجیت کے تاریک بادلوں میں ہمیشہ کے لئے غروب ہوکر
تازیانہ عبرت بن جائے۔ |