بادشاہ نے اپنے محل کی خستہ حالت
کو دیکھتے ہوئے اپنے وزیر سے مشورہ چاہا جس نے بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملائی
اور ساتھ ہی بادشاہ کے اس محل کو بادشاہ کی شان و شوکت کے منافی گردان کر
نیا محل بنانے کا مشورہ دیا جسے بادشاہ نے فوراً ہی قبول کر لیا۔بادشاہ نے
اپنے اس وزیر کو ہی نئے محل کی تعمیرا ور تزئین و آرائش کا کام سونپا اور
بے فکر ہو کر اپنے معاملات میں مشغول ہو گیا ۔وزیر نے شاہی ٹھیکیدار کو نئے
محل کے لیے جگہ منتخب کرنے کا کہا جسے شاہی ٹھیکیدار نے کچھ دنوں میں کر
دیا ۔وزیر نے بادشاہ کونئے محل کے لیے منتخب جگہ دکھائی اور تعمیر کے کام
کی اجازت طلب کی اس پر بادشاہ نے نہ صرف اجازت دی بل کہ فنڈ فراہم کر کے
کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ساتھ بادشاہ نے وزیر کو یہ بھی کہا کہ کام
بہت اعلیٰ ہونا چاہیے اور جلد از جلد ہونا چاہیے جسے وزیر نے سن کر
ٹھیکیدار کو بتا دیا اور ٹھیکیدار کو کام سونپ کر بادشاہ کی طرح بے فکر ہو
گیا۔
ایک سال بعد بادشاہ نے وزیر سے محل کے بارے میں پوچھا تو وزیر نے ٹھیکیدار
کو دربار طلب کیا اور محل بارے رپورٹ طلب کی جسے ٹھیکیدار نے ایسے بیان کیا
کہ بادشاہ حیرت سے ششدر رہ گیا اور خوشی میں ٹھیکیدار کو انعامات سے
نوازا۔لیکن نئے محل کا جو منظر ٹھیکیدار بادشاہ کو بیان کر کے گیا تو وہ
اتنا اعلیٰ تھا کہ بادشاہ محل دیکھنے کے لیے بے چین تھا ۔بادشاہ نے اپنی اس
بے چینی کا ذکر اپنے وزیر سے کیا اور وزیر نے بادشاہ کی اس بے چینی کا ذکر
ٹھیکیدار سے کیا ۔ٹھیکیدار نے بادشاہ کو زیر تعمیر محل دکھانے کے بجائے کچھ
وقت مانگا اور بادشاہ کو محل دکھانے میں ٹال مٹول کر گیا ۔بادشاہ بھی اپنے
شاہی معاملات میں اتنا مگن رہا کہ اس کی توجہ نئے محل کی طرف جا ہی نہ سکی۔
چار سال بعد بادشاہ جب اپنے شاہی معاملات سے کچھ فراغت پا چکا تو اس نے ایک
دن شاہی ٹھیکیدار کو بلایا اور زیر تعمیر محل کے بارے میں دریافت کیا جس کا
نقشہ شاہی ٹھیکیدار نے ایسا کھینچا کہ بادشاہ کو اپنا محل دیکھنے میں پھر
بے چینی ہونے لگی مگر اس بار بادشاہ نے اپنی بے چینی وزیر سے ظاہر نہ کی
۔ایک دن وزیر ، شاہی محافظوں اور کچھ درباریوں کو لے کر زیر تعمیر محل کی
جانب روانہ ہوا ۔راستے میں وزیر بادشاہ ،درباریوں اور شاہی محافظوں کو نئے
محل کی کہانیاں سناتا رہا جسے سن کر بادشاہ سمیت سبھی نیا محل دیکھنے کے
لیے بے چین تھے۔چوں کہ محل کی تعمیر کا کام تقریباً ہو چکا تھا اس لیے
بادشاہ نے ٹھیکیدار کو اپنی آمد کے بارے میں بتانا مناسب نہ سمجھا۔
کچھ اثنا ء میں شاہی سواری ایک ویران جنگل میں رکی تو بادشاہ نے حیرت سے
اپنے وزیر کو دیکھا ۔وزیر بادشاہ کی حیرت کو بھانپتے ہوئے بولا کہ بادشاہ
سلامت نئے محل کی جگہ آچکی ہے ۔بادشاہ نے شاہی سواری سے اترتے ہی اپنے
اردگرد دیکھا تو اسی کہیں بھی محل نظر نہ آیا اور نہ ہی زیر تعمیر عمارت
نظر آئی۔جھاڑیوں سے گزر کر بادشاہ کوایک جگہ ریت کا ایک ڈھیر نظر آیا جس پر
ٹھیکیدار بیٹھا تھا جب کہ نیچے زمین پر مزدور بیٹھے ٹھیکیدار کی کسی بات پر
ہنس رہے تھے ۔بادشاہ کو دیکھ کرٹھیکیدار اور مزدوروں کی ہنسی پل بھر میں
غائب ہو گئی ۔بادشاہ نے ٹھیکیدار سے محل کے بارے میں پوچھا تو ٹھیکیدار نے
ہاتھ پھیلاتے ہوئے جھاڑیوں سے مزین میدان کی طرف اشارہ کیا اور کہا بادشاہ
سلامت یہ آپ کا دربار ہے ۔جسے دیکھ کو بادشاہ کر رنگ غصے سے زرد ہو گیا مگر
بادشاہ نے اپنا غصہ ظاہر نہ کیا اور ٹھیکیدار سے محل دکھانے کی خواہش ظاہر
کی جسے ٹھیکیدار نے فوراً قبول کر لیا۔
سب سے پہلے بادشاہ نے دربار دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس پر ٹھیکیدار بادشاہ
کو ایک میدان میں لے گیا اور بولا کے بادشاہ سلامت کا دربار یہ ہو گا
۔بادشاہ نے ٹھیکیدار سے کہا کہ شاہی کرسی کہاں ہے ؟ جس پر ٹھیکیدار نے ایک
طرف اشارہ کیا جہا ں کرسی کا نام و نشان بھی نہیں تھا مگر بادشاہ نے
ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے ٹھیکیدار کے کام کی تعریف اور کہا کہ اتنی
شان دار کرسی تعمیر کرنے پر میں یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کرسی پر سب سے پہلے
بیٹھو ۔وہاں تو کرسی کا نام و نشان نہیں تھا مگر بادشاہ سلامت کے حکم کی
تعمیل کرتے ہوئے ٹھیکیدار ہوا میں ایسے معلق ہوا جیسے کرسی پر بیٹھا ہواہو
۔گھنٹوں اس طرح بیٹھے کے بعد بادشاہ نے اس سے کہا کہ اب شاہی تالاب
دکھاؤ۔ٹھیکیدار لنگڑاتے ہوئے بادشاہ کو ایک جوہڑ کے پاس لے گیا جس میں مچھر
بھنبھنارہے تھے اور گدلے پانی کی بو اتنی تھی کہ درباریوں اور شاہی محافظوں
کو منہ پر ہاتھ رکھنا پڑا ۔بادشاہ نے شاہی تالاب کی تعریف کرتے ہوئے
ٹھیکیدار کو سراہا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس تالاب میں سب سے پہلے تم
نہاؤ ۔بادشاہ کی یہ خواہش سن کر ٹھیکیدار کا رنگ نیلا پیلا پڑا لیکن وہ کر
بھی کیا سکتا تھا مجبوراً تالاب میں چھلانگ لگائی اور مینڈکوں کے درمیان
تیرنے لگا ۔بادشاہ نے شاہی محافظوں کو کہا کہ اسے باہر نہ نکلنے دینا
ٹھیکیدار جیسے ہی باہر کی جانب بڑھتا شاہی محافظ اسے پھر گندے جوہڑ میں
دھکیل دیتے تھے ۔آخر کار وہ تھک ہار کر جب غوطے کھانے لگا تو بادشاہ نے
شاہی محافظوں سے کہا کہ اسے باہر نکالو۔
ٹھیکیدار کے ہوش ہواس بحال ہونے کے فوراً بعد بادشاہ نے شاہی باغ دیکھنے کی
خواہش ظاہر کی جس پر ٹھیکیدار بادشاہ کو ایک جنگل میں لے گیا اور وہاں جا
کر بولا کہ بادشاہ سلامت یہ آپ کا باغ ہے اور جھاڑیوں کی طرف اشارہ کر کے
بادشاہ سلامت کوکہا کہ یہ شاہی پھول ہیں ۔بادشاہ نے حسب سابق ٹھیکیدار کی
تعریف کی اور ٹھیکیدار کو شاہی پھول سونگھنے کا حکم دیا جسے ٹھیکیدار نے
قبول کیا ۔جیسے ہی ٹھیکیدار جھاڑیاں اپنے ناک کی طرف لے کر جاتا ناک میں
کھجلی ہوتی مگر بادشاہ نے ٹھیکیدار کو منع کر دیا کہ وہ کھجلی نہ کرے اور
ساتھ ہی شاہی محافظوں کو حکم دیا کہ وہ ٹھیکیدار کو کھجلی نہ کرنے دیں
۔ٹھیکیدار جیسے ہی جھاڑیا ں سونگھتا اسے کھجلی ہوتی مگر وہ ناک کی کھجلی
نہیں کر پاتا تو اسے چھینک لگ جاتی ۔چھینک چھینک کر جب ٹھیکیدار نڈھال
ہوگیا تو بادشاہ نے ٹھیکیدار کو کہا کہ جھاڑیوں کا بہترین سا گل دستہ بناؤ
۔ٹھیکیدار نے جب گل دستہ بنا لیا تو درباریوں سے کہا کہ یہ گل دستہ اس کی
بیگم کو دو اور کہوکہ ٹھیکیدار نے محبت سے بھیجا ہے ۔ ٹھیکیدار جو پہلے ہی
سزاؤں کے مزے لے چکا تھا نڈھال زمین پر پڑا درباریوں کو اپنے گھر کی طرف
جاتا دیکھ رہا تھا وہ مزدور جو اس کے ساتھ تھے وہ اب اس کی اس حالت پر ہنسی
سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے ۔
یہ وہ کہانی ہے جسے میں نے آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے اپنے زمانہ طالب
علمی میں پڑھا تھا اور آج پندرہ سال بعد تب یاد آئی کہ جب جمہوری حکومت کے
1806دن(19کم 5سال)ہوچکے ہیں اور رات دس کے قریب یک لخت پورا ملک اندھیرے
میں ڈوب گیا ۔یہ کیسی جمہوری حکومت ہے کہ 5سال مکمل ہونے کے قریب ہیں اور
سب سے بڑا جمہوری مسئلہ ہی ان سے حل نہ ہوا ؟بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،
لیپ ٹاپ سکیم، آشیانہ سکیم ، میٹرو بس سروس اور جانے کیا کیا پروگرام ہیں
جو گذشتہ پانچ سال میں تکمیل پذیر ہوئے ان کے محلات بن گئے ، بنک بیلنس بام
دوام حاصل کرچکے ، نسل در نسل میدان سیاست کے لیے تیار ہوچکی ہے بس حل نہیں
ہوا تو سب سے بڑا مسئلہ حل نہیں ہوا ۔یہ کیسی جمہوری حکومت ہے کہ عوام کا
سب سے بڑا مسئلہ مکمل حل ہونا تو دور کی بات رتی برابر حل بھی نہیں ہوااس
جمہوری حکومت کی جمہور سے مخلصی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے
بجلی کی لوڈشیڈنگ گرمیوں میں طول پکڑتی تھی مگر اب سردیوں میں بھی وہ حال
کہ موسم کی شدت کو ایک طرف رکھ کرلوڈشیڈنگ سے اندازہ لگایا جائے تو موسم
گرما و سرما میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
رواں ہفتے ایک دم پورے ملک میں بجلی کا غائب ہونا اس جمہوری حکومت کی 5سالہ
کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ وزیر پانی و بجلی کی طرف سے جاری بیان میں
کہا گیا کہ ’’ایسے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں‘‘ ۔یہ حقیقت ہے کہ پوری
دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن ملک کے ٹھیکیداروں نے اس ملک کو دنیا
کے شانہ بشانہ چھوڑا ہے ،ٹھیک ہے ایسے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر
ایسے واقعات تو روز ہی پاکستان میں ہوتے ہیں اور پچھلے پانچ سال سے ہو رہے
ہیں ۔آج سے چار سال پہلے ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے
والے اور رینٹل پاورکرپشن کیس میں نامزد ملک کے وزیر اعظم نے اس حادثے کا
نوٹس لے لیا ہے اور مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔کاش کے
یہ صاحب ملک سے اتنے مخلص ہوتے تو آج یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے ویسے بھی ان
کی بات پر یقین کرنا کسی پاکستانی کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذا ان کی بات
پر’’مٹی پاؤ‘‘
مایوسی کا یہ عالم اتنا گھمبیر ہے کہ اب یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ملک
کے حالات نہیں سنور سکتے ہیں بس سسٹم کا حصہ بن جاؤ‘‘ حالاں کہ ایسا نہیں
ہے یہ سب ٹھیک ہو سکتا ہے اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے بس کمی ہے
توصرف اور صرف مخلص قیادت کی اور وہ مخلص قیادت تب ہی آسکتی ہے جب عوام
انفرادی مفادات کو چھوڑ کر اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر قیادت کا چناؤ
کریں ۔اب جب کہ الیکشن کے کچھ ایام رہتے ہیں عوام سے التجا ہے کہ حالات و
واقعات کے تناظر میں ایک مخلص حکومت کا انتخاب کریں ذاتی مفادات کو پس پشت
ڈال کر حقیقی اجتماعی مفادات کے حل کے بارے میں سوچیں تاکہ ملک کی قسمت
سنور جائے اور آنے والی نسلوں کو ایسی پریشانیوں اور قباحتو ں کا سامنا نہ
کرنا پڑے جن سے آج ہم نبر د آزما ہیں ۔ |