صَبر و اُمید کی بیساکھیاں

جب بھی ہمارے اکابرین اور قومی رہنما سیاسی داﺅ پیچ کے حق میں بولتے ہیں یا پھر ان کے لئے حمایتی بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو میرے سینے پر جیسے سانپ لوٹنے لگتا ہے۔ میں پریشان ہو جاتا ہوں۔ اور میرے ذہن میں ایک کے بعد ایک سوال اٹھنے لگتے ہیں جو مجھے اور میری جسم کے اندر سرائیت کرکے پریشان کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں میرا اور پوری قوم کا مستقبل تو تابناک دکھائی دیتا ہے (چاہے دیر سے ہی سہی تابناکی تو آئے گی ! ) مگر موجودہ سیاست خسارے مین نظر آتی ہے۔ جب جب تک چند مفاد پرست سیاسی پارٹیوں کے حق میں قوم کے کچھ لوگ کھڑے نظر آتے ہیں تب تب ایسی پارٹیاں اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ سیاست کے افق پر چمکنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ایسے لوگ قوم سے مخلص نہیں ہوتے کیونکہ وہ پچھلے ادوار میں قوم پر ہوئے تمام ظلم و ستم بھلا کر پھر سے ان کا ساتھ دیتے ہیں تاکہ وہ ایک بار پھر اقتدار میں آکر عوام پر ظلم و ستم میں اضافہ کر دیں۔ ایسی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کی حمایت کرنے کے پیچھے چاہے ان لوگوں کی جو بھی وجوہات کیوں نہ ہو مگر آخر کار نقصان تو ملت اور قوم کا ہی ہوتا ہے۔ اور ایسی پارٹیاں جب جب عوام کو اپنی جاگیر سمجھ کر جیسے چاہے ویسے استعمال کرتی ہے جب چاہے ہمیں وطن پرست بنا دیتی ہے اور جب چاہے ہم پر ظلم و ستم (مہنگائی، بے سکونی، بے روزگاری) جیسے دلدل میں پھنسا دیتے ہیں۔ ہماری ترقی کے راستوں میں ہمارے علم کے راستوں میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیںتب یہ ہمارے رہنما کہاں ہوتے ہیں۔ یہ سیاست قوم کے لئے گھاٹے پر مشتمل ہے جیسا کہ آپ سب آج تک بھگت رہے ہیں۔

ہم سب پاکستانی ہیں ، ہمیں اپنے ملک پر فخر ہے، ہمیں یہاں جس قدر سکون ملتا ہے اتنا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتا اس لئے کہ یہاں قومی یکجہتی کی جو جیتی جاگتی مثال اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں تمام عقائد کے لوگ آپ میں گھل مل کر رہا کرتے تھے اور سب بھائی بھائی کہلانے پر فخر محسوس کرتے تھے مگر پتہ نہیں چند سالوں سے ہمارے یہاں یہ سب ناپید ہو چکی ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں جانے سے ڈرتے ہیں، نئے لوگوں کو دیکھ کر یکدم تیور بدلنے لگتے ہیں، کسی علاقے میں جاکر کسی کا ایڈریس تک نہیں پوچھ سکتے اگر پوچھا تو وہاں کے کرتا دھرتاﺅں کے عتاب میں آنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔جگہ جگہ بم دھماکے، قتل و غارت گری کے ناسور پھیلے ہوئے ہیں، کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے ہاتھوں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ یہ کیسا زمانہ آگیا ہے اور یہ کیسی سیاست ہو رہی ہے اگر اسی طرح قوم و ملت کی ترقی ہونی ہے تو خدا ہم سب کو ایسے شر سے محفوظ رکھے۔
ہماری آنکھ ہے کیوں نم کوئی پتہ تو کرے
دیئے ہیں کس نے یہ غم کوئی پتہ تو کرو
وہ کون ہے جسے انسانیت سے نفرت ہے
کہاں سے آتے ہیں یہ بم کوئی پتہ تو کرے

یہ کیسی سیاست ہے جہاں اپنے ہی لوگوں کا خونِ ناحق بہایا جاتا ہے، بقول عدلیہ ، میڈیا اور اخبارات کے ہمارے ملک میں تمام ہی پارٹیاں میلیٹنٹ ونگ کی حامل ہیں، یہ سب کچھ سب اہلِ وطن کے لئے مفید نہیں ہے کیونکہ جس سے ملت کے بدنام ہونے کا خطرہ ہو ایسے کاموں سے پرہیز ضروری ہوتا ہے ۔ کاش کہ ہمیں وقت رہتے ہوش آجائے ۔ کیونکہ آج کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے ملک میں دہشت گردی میں کوئی اور بھی شامل ہے جس پر کنٹرول نہیں پا رہا ہو سکتا ہے کہ اس میں کسی اور ملک کا بھی ہاتھ کارفرما ہو۔ حکومت ، سرکاراور ایجنسیاں ان کے خلاف سخت قدم کیوں نہیں اٹھا پارہی یہ تو وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں ، عدلیہ سرگرم نظر آتی ہے مگر ان کے بھی اکثر فیصلوں کو اس کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ عوام جس کو اپنا سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں ، جسے ہم لوگ اپنی ذمہ داریاں سونپتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ وہ کبھی ہمارے ہوتے ہی نہیں، الٹا سازشوں کے تانے بانے کی زد میں آکر اپنے ہی لوگوں کو دکھ اور تکلیف کے سمندر میں غرق کرنے کے در پہ لگ جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ عوام کو سبز باغ دکھانے والے پیچھے سے ان پر خنجر کا وار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل میں یہی ہے ہمارے موجودہ دور کی تصویرجس میں سیاست کے ہر ہر قدم پر خسارہ اور نقصان نظر آتا ہے ۔ سیاست کوئی اور کرتا ہے اور سیاسی فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے اور نقصان قوم کے حصے میں آتی ہے۔
تمہاری پاٹھ شالاﺅں میں نفرت بوئی جاتی ہے
ہماری درسگاہیں تہذیب کا پیکر بناتے ہیں
ہماری صنعتیں امن و اماں کا درس دیتی ہیں
تمہارے کارخانے ظلم کا خنجر بناتے ہیں

سمندر کی گہرائی ناپنے کے لئے لازمی امر ہے کہ ہم سمندر کی تہہ تک جائیں، اس میں غوطہ زن ہوں۔ عین اسی طرح ہم خود اپنے اندر جھانکے بنا اپنی خطاﺅں ، اپنی غلطیوں، اپنی گستاخیوں پر نظر ثانی کس طرح کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ دورِ حاضر میں تاحدِ نگاہ سے لیکر سوچ کی بالغ انتہا تک اور خفیہ سے لیکر ظاہری تک خود پسرتی اور انا کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ موجودہ حالات میں غریب ، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ دورِ موجودہ میں تو ظاہر کو سب ہی آئینہ دکھاتے ہیں مگر باطن کی جانب کوئی بھی آئینے کا رُخ نہیں کرتا۔ سب کو ہی اپنے معدہ کی فکر رہتی ہے۔ بس اپنے گھر میں موجود آٹے کی بوری ہونا ضروری ہے کوئی بھوکا ہے تو ہمیں اس سے کیا ،تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے۔ اگر حکمرانوں کے وعدوں اور کارکردگی میں ملاوٹ ہے تو اس میں عوام کا کیا دوش ہے۔ دورِ موجودہ کی یہی جمہوریت ہے کیا؟ کہ پیزا کا آرڈر تو پندرہ منٹ میں آپ کے دروازے پر آجاتا ہے مگر اپلائی کی گئی نوکریوں کے جوائننگ لیٹر مہینوں، سالوں میں تو کیا مرتے دم تک آتے ہیں نہیں۔ آمدنی میں اجافہ ہوتا نہیں مگر مہنگائی روز اپنا قد بڑھا لیتی ہے ، آپ موازنہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دن بدن دستر خوانوں پر روٹیوں کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ عوام بس اب اسی آکری اُمید پر جی رہے ہیں کہ جہاں مرغ اذان نہیں دیتا صبح کی کِرنیں تو وہاں بھی پھوٹتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اب کچھ بچا نہیں ہے سوائے صبر اور امید کے دامن کے۔ اس لئے عوام اب ان ہی بیساکھیوں کے سہارے جینے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ عوامی داد رسی کا توڑ کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔اس پورے مضمون کا خلاصہ عبرت صدیقی کے اس شعر میں پِنہاں ہے۔
یہ دوستوں کا چلن ہم نے بارہا دیکھا
ہماری کچھ نہ سنی اپنا فائدہ دیکھا
ہم اپنی خانہ خرابی کا حل بھول گئے
جہاں بھی خانہ بدوشوں کا قافلہ دیکھا

آپ بھی پڑھیے سمجھئے اور اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑایئے کیا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ایک ایک لفظ آپ کو اپنے سامنے نظر نہیں آ رہا ، یقینا آ رہا ہوگا تو مستقبل آپ کے سامنے ہے اور ماضی آپ دیکھ چکے ہیں اور حال آپ کے سامنے ہی ہے لہٰذا ”ہوشیار اہلِ وطن“
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.