تحریر : محمد اسلم لودھی
میں یہ بات واضح کردینا چاہتاہوں کہ مجھے نہ چوہدری پرویز الہی سے کوئی
عناد ہے اور نہ ہی میاں محمد شہباز شریف سے کوئی مفاد۔ ایک عام شہری کی
حیثیت سے میں نے دونوں کے ادوار دیکھے ہیں ۔لیکن محسوس ہوتا ہے کہ جب سے
چوہدری پرویز الہی کے وزیر اعظم پاکستان بننے کے خواب چکنا چور ہوئے ان کو
دن میں خواب نظر آنے لگے ۔ کون نہیں جانتا کہ مشرف کے آٹھ سالہ دور میں
صوبہ پنجاب کے تمام سرکاری وسائل چوہدریوں کی صوابدید پر ہوا کرتے تھے بلکہ
سیاہ و سفید کا مالک تھے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ دنیا بھر کو دکھانے
کے لیے کہ ہم بہت روشن خیال ( بے حیا) ہیں لاہور میں عورتوں کی نیم عریاں
کپڑوں میں میرا تھن ریس منعقد کروائی جاتی تھی کسی نے پنجاب اسمبلی میں
سوال کیا کہ چوہدری صاحب آپ اپنی فیملی کی خواتین کو میراتھن ریس میں کیوں
شریک نہیں کرتے تو چوہدری صاحب نے کہا کہ وہ تو شریف خواتین ہیں پوچھنے
والے نے کہا کہ کیا میراتھن ریس میں حصہ لینے والی کسی اور جگہ سے آتی ہیں
۔پرویز الہی کے دور میں بسنت جیسے تہوار پر سرکاری خزانے سے نہ صرف کروڑوں
روپے حکمران طبقے کی عیاشی پر خرچ کردیئے جاتے بلکہ سپریم کورٹ کی جانب سے
پابندی کے باوجود درجنوں بچے اور نوجوان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو
بیٹھے۔یہ پرویز الہی کا ہی کارنامہ تھا کہ لاہور کا رنگ روڈ ( جس کی لمبائی
75 کلومیٹر تھی ) کو صرف اس لیے ختم کردیا گیا کہ وہ نواز شریف کے جاتی
عمرہ کے قریب سے گزرتا تھا اور پہلے سے تعمیر شدہ فیروز پور روڈ کو ہی رنگ
روڈ قرار دے کر اربوں روپے ہڑپ کرلیے گئے یہ کارنامہ پرویز الہی کے
صاحبزادے مونس الہی نے نہایت خوبصورتی سے انجام دیاکہ کسی کو کانوںکان خبر
نہ ہوئی ۔پھر اسی دور میںپرویزالہی نے( جو خود کو جمہوریت کا باوا آدم قرار
دیتے ہیں) پنجاب ا سمبلی میں کھڑے ہوکر واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ جنرل
پرویز مشرف کو ایک نہیں دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کروایں گے کون نہیں
جانتا مشرف کے صدارتی الیکشن میں چوہدری برادران ایم این اے اور ایم پی اے
حضرات کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھیر کر مشرف کے پاس لے جایا کرتے تھے تاکہ ان
کو ایک بار پھر صدر منتخب کروایا جاسکے یہ سب کچھ وہ اس لیے کرتے تھے کہ
مشرف نے چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعظم کا عہدہ دینے پر رضامندی ظاہر کر
دی تھی میری اس بات کی گواہی لاہور سمیت پورے پنجاب میں ہونے والی وال
چاکنگ دیکھ کر سکتی ہے بلکہ صحافی برادری اس بات کی گواہ ہے کہ 100 سے
زیادہ دیگیں الیکشن میں کامیابی کی خوشی میں ظہور الہی روڈ پر تیار تھیں
تاکہ وزیر اعظم بننے کا جشن منایا جاسکے لیکن یہ خواب ادھورے رہ گئے جب
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو قابل ذکر کامیابی مل گئی سرکاری خزانے سے
کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کئی جگہوں سے پرویز الہی اور لاہور سے مونس
الہی شکست کھا گئے ۔آج وہ شہباز شریف کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے میٹروبس
پراجیکٹ بنا کر پورے پنجاب کے فنڈز لاہور میں خرچ کردیئے ہیں وہ شاید بھول
رہے ہیں کہ انہوں نے خود بھی اپنے دور میں میٹروٹرین کا 40 ارب مالیت کا
منصوبہ لاہور میں ہی شروع کرنے کا اعلان کیاتھا لیکن اعلان کے باوجود تعمیر
کی نوبت نہیں آئی وہ 40 ارب کہاں گئے کوئی نہیں بتا سکتا ۔ لاہور جیسے ایک
کروڑ آبادی کے شہر میں رنگ روڈ کا اصل منصوبہ ختم کرکے لاہور میں رہنے
والوںکی کمر میں چھرا بھی پرویز الہی نے ہی گھونپا تھا جس کی اب تک نہ تو
تکمیل ہوسکی ہے بلکہ پچیس سے تیس ارب روپے کے اخراجات بڑھ گئے ہیں ۔ انہوں
نے لاہور سے گجرات موٹروے بھی منظور کر کے اس کی تعمیر کے لیے اربوں روپے
مختص بھی کردیئے وہ فنڈز کہاں گئے پتہ نہیں ۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں شہباز
شریف کو لاہور بہت پسند ہے تو کیاچوہدری صاحب کو گجرات پسند نہیں ہے جہاں
تک موٹروے پر سفر کرنے کا خواب وہ دن رات دیکھا کرتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ
انہوں نے اپنے دور 36 ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر کیں اب وہ سڑکیں کہاں ہیں
اگر سڑکوں کی تعمیر معیارکے مطابق ہوتی تو آج چوہدری صاحب وزیر اعظم
پاکستان ہوتے ۔لیکن یہ سب کچھ کاغذوں تک ہی محدود رہا یا اپنے من پسند
چہیتوں میں بانٹ دیا گیا بلکہ چوہدری برادران نے اپنی اور مشرف کی ذاتی
تشہیر پر خوشحال پاکستان کے نام پر جو اربوں روپے اشتہارات پر قومی خزانے
سے خرچ کیے ان کا حساب ابھی تک وہ نہیں دے سکے ۔ بلدیاتی ادارے تو تھے ہی
چوہدریوں کے غلام ۔ یہ تو مہربانی ہے شہباز شریف کی کہ انہوں بلدیاتی
اداروں کے فنڈز کا تھرڈ پارٹی آڈٹ نہیں کروایا وگرنہ ناظمین سمیت خود
چوہدری بھی جیل میں نظر آتے ۔ اس سے بڑی زیادتی اور مکرو فریب اور کیا ہوگا
کہ ان کے والد چوہدری ظہور الہی ساری عمر جس ( بھٹو)خاندان کے خلاف لڑتے
رہے مونس الہی کو کرپشن کے مقدمات سے بچانے کے اور ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ
حاصل کرنے کے لیے اسی خاندان کی کرپٹ ترین حکومت کو سہارا دینے کا کارنامہ
بھی انجام دیا ۔ اگرآج تک پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے تو اس گناہ میں
چوہدری بردارن برابر کے شریک ہیں ۔اب ان کے پیٹ میں جنوبی پنجاب کا درد اٹھ
رہا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ اپنے دور میں انہوںنے جنوبی پنجاب کو صوبہ کیوں
نہیں بنایااگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ سب مگرمچھ کے آنسو ہیں ان
کا بس چلے تو وہ لاہور کی دشمنی میں گجرات کو بھی صوبہ بنانے کا اعلان
کرسکتے ہیں اب وہ اٹھتے بیٹھتے شہباز شریف کے کثیرالمقاصد منصوبوں کا تمسخر
اڑانا اپنا فرض تصور کرتے ہیں جہاں تک میاں شہباز شریف کی طرز حکمرانی کا
تعلق ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے پنجاب کے تمام مسائل حل کردیئے ہیں
بلکہ پنجاب کی صنعتوں کی بجلی گیس کی بندش اور پنجاب کے دریاﺅں کے پانی کی
قلت ، حد سے
زیادہ بے روزگاری ، جعلی ادویات کی کھلے عام فروخت اور امن و امان کی خرابی
کے حوالے سے وہ اپنا دامن نہیں بچا سکتے کیونکہ اگر وہ چاہتے تو مرکزی
حکومت پر شدید دباﺅ ڈال کر ان تمام مسائل کا حل نکال سکتے تھے لیکن انہوںنے
جزوی اور رسمی احتجاج پر ہی اکتفا رکھا ۔لیکن اس بات سے بالکل انکار نہیں
کیاجاسکتا کہ میاں شہباز شریف نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں جن کی بنا پر وہ
عوام سے ووٹ مانگنے کا حق رکھتے ہیں ان کے اچھے کاموں میں ، سیلاب زدہ
علاقوں میں جناح کالونی ، آشیانہ سکیم ،ایک روپے کی روٹی ، یلو کیپ سکیم ،
دانش سکول ، رمضان پیکج ، پارکنگ فیس کا ہسپتالوں اور پارکوں سے خاتمہ ،
میٹروبس پراجیکٹ ، لاہور رنگ روڈ ( نارتھ ونگ) کی تعمیر، ڈینگی مچھروں کا
ہنگامی طور پر خاتمہ، لیپ ٹاپ کی ہونہار نوجوانوں میں تقسیم ، سولر انرجی
یونٹوں ، پاکستان کے تمام ہونہار طلبہ و طالبات کے لیے سکالر شب کا اجرا
اور دنیا بھر کی سیر شامل ہیںیہ وہ منصوبے اور اقدامات ہیں جن سے عوام کو
براہ راست فائدہ پہنچا ہے اور عوام کے ذہن و دل میں شہباز شریف ہمیشہ زندہ
رہیں گے ۔ یہ الگ بات ہے کہ چوہدری صاحب ان سکیموں کو وقت اور پیسے کا ضیاع
قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن ان کی اس بات سے کوئی
باشعور شخص اتفاق نہیں کرے گاسوائے ان کے بے ضمیر لوٹوں کے جو اب بھی ان کی
بے ضمیری کا دم بھرتے ہوئے ان کے آگے پیچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں ۔اگر
کارکردگی کے اس معیار پر چوہدری پرویز الہی اور میاں شہبازشریف کے ادوار کو
پرکھا جائے تو چوہدری پرویز الہی کی نسبت میاں شہباز شریف کا دور کہیں
زیادہ اچھا اور بہتر ہے ویسے بھی وہ پرویز الہی کی نسبت بہت متحرک اور
مستعد دکھائی دیتے ہیں کم ترین کابینہ کے ساتھ انہوںنے دور رس اقدامات کیے
ہیں ۔ وزارت اعلی سے اترنے کے باوجود ان کے منصوبے روشنی کی کرن بن کر
سیاست کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے لیکن چوہدری پرویز الہی کا صرف
ایک منصوبہ( 1122 ریسکو) ایسا ہے جس پر وہ فخرکر سکتے ہیں ہے اس کے علاوہ
انہوںنے اپنا دور مشرف کی چاپلوسی ، مشرف کی وردی کی غلامی اور روشن خیالی
( بے حیائی ) کو پروان چڑھانے میں ہی گزار دیا ہے اور سرکاری خزانے کی لوٹ
مار میں گزار دیئے ہیں۔
لیکن شہباز شریف چاہتے تو چولستان میں چین یا جرمنی کے تعاون سے سولر انرجی
یونٹ لگا کر ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے تھے لیکن اب انہوں نے صرف
پانچ سومیگاواٹ کا معاہدہ کیا اور وہ بھی اس وقت جب ان کی حکومت ختم ہونے
والی ہے ۔ پھر پنجاب کی سرزمین معدنی دولت تانبا ، لوہا ، کوئلے ، تیل ،
گیس قیمتی لکڑی اور قیمتی دھاتوں سے بھری پڑی ہے لیکن میاں صاحب اگر چاہتے
تو پنجاب کو ہر اعتبار سے خود کفیل بنا سکتے تھے افسوس کہ وہ بھی ان مسائل
کو حل کرنے کی بجائے پانچ سال تک نااہل ادر کرپٹ ترین وفاقی حکومت کا چہرہ
ہی دیکھتے رہے ۔پنجاب کے تمام دریا بھارت کی آبی جارحیت اور وفاقی حکومت کی
مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے صحرا بن چکے ہیں ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ
پانی نہیں ہوگا توکاشتکاری کیسے ہوگی اور اگر زراعت تباہ ہوگی تو پنجاب کے
لوگ کہاں سے کھائیں گے کاروبار ، فیکٹریاں ، کارخانے ، دفتر اور بنک کیسے
چلیں گے لیکن جہاںوفاقی حکومت اس اعتبار سے مجرم ٹھہرتی ہے وہاں وزیر اعلی
کی حیثیت سے شہباز شریف بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتے انہیں چاہیے تھا کہ
پنجاب کی زمینوں کو بنجر ہونے سے بچانے کے لیے وفاقی حکومت کا جینا حرام
کردیتے لیکن اب پنجاب کی اربوں ایکڑ زرخیز اراضی کے بنجر ہونے میں زیادہ
وقت نہیں رہا ۔کچی آبادیوں کے رہنے والوں کو نہ چوہدری صاحب کے دور حکومت
میں مالکانہ حقوق ملے اورنہ ہی شہباز شریف کے ( صرف وعدوں پر ہی دونوں نے
ٹرخاکر ووٹ لیتے رہے )-
میں تسلیم کرتا ہوں کہ میاں شہباز شریف نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں جن کی
بنا پر وہ عوام سے ووٹ مانگنے کا حق رکھتے ہیں ان کے اچھے کاموں میں غریبوں
کو مکان کی سہولت فراہم کرنے والی آشیانہ سکیم ،ایک روپے کی روٹی ، یلو کیپ
سکیم ، دانش سکول ، رمضان پیکج ، پارکنگ فیس کا ہسپتالوں اور پارکوں سے
خاتمہ میٹروبس پراجیکٹ ، لاہور رنگ روڈ کی تعمیر، ڈینگی مچھروں کا ہنگامی
طور پر خاتمہ، لیپ ٹاپ کی ہونہار نوجوانوں میں تقسیم ، سولر انرجی یونٹوں ،
پاکستان کے تمام ہونہار طلبہ و طالبات کے لیے سکالر شب کا اجرا اور دنیا
بھر کی سیر شامل ہیں یہ وہ منصوبے اور کام ہیں جن سے عوام کو براہ راست
فائدہ پہنچا ہے اور عوام کے ذہن و دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ یہ الگ بات
ہے کہ چوہدری صاحب ان سکیموں کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیتے ہیں لیکن
ان کی اس بات سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرے سوائے بے ضمیر لوٹوں کے۔
سیلاب زدگان کے لیے معیاری کالونیوں کی تعمیر اور سیلاب میں گھیرے ہوئے
افراد کے بچاﺅ اور بحالی کے لیے میاںصاحب کی ذاتی کاوشیں لائق تحسین ہیں بے
شک وہ اپنی قوت اور استعداد کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے
ہیں لیکن انصافی کی فراہمی کو عوامی سطح تک ممکن نہیں بنا سکے اگر وہ چاہتے
تو ہر ضلع میں ضلعی محتسب کا ادارہ قائم کرکے مقامی لوگوں کے مسائل اور
شکایات کا ازالہ مقامی طورپر ہی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے لاہور میں شکایت
سیل کے نام سے ایک ایسا ادارہ بنایا جہاںآنے والے کے مسائل حل نہیں ہوتے
بلکہ مزید خجل خواری اس کامقدر بن جاتی ہے ۔اگر کارکردگی کے اس معیار پر
چوہدری پرویز الہی اور میاں شہبازشریف کے ادوار کو پرکھا جائے تو چوہدری
پرویز الہی کی نسبت میاں شہباز شریف کا دور کہیں زیادہ اچھا اور بہتر
دکھائی دیتا ہے ویسے بھی وہ پرویز الہی کی نسبت بہت متحرک اور مستعد دکھائی
دیتے ہیں ۔ وزارت اعلی سے اترنے کے باوجود ان کے منصوبے روشنی کی کرن بن کر
ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے لیکن چوہدری پرویز الہی کا صرف ایک منصوبہ جس کے
بارے میں وہ فخریہ کہہ سکتے ہیں 1122 ریسکو ہے اس کے علاوہ انہوںنے اپنے
دونوں ادواروں مشرف کی چاپلوسی ، مشرف کی وردی کی غلامی اور روشن خیالی (
بے حیائی ) کو پروان چڑھانے میں ہی گزار دیئے ۔
کیونکہ اگر وہ چاہتے تو 300 مربع میل چولستان میں سولر انرجی یونٹ غیرملکی
فرموں کے تعاون سے لگاکر نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے انرجی
پرابلم سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں وہ چاہتے تو وفاقی حکومت کومجبور کرسکتے کہ
وہ پنجاب کی فیکٹریوں کارخانوں اورگھریلو صارفین کے لیے بجلی گیس کا بحران
پیدا کریں لیکن ان کی چشم پوشی اور وفاقی حکومت کی مجرمانہ شرانگیزی کی
بدولت دس ہزار سے زیادہ فیکٹریاں کارخانے بند ہوچکے ہیں اور گھر گھرمیں بے
روزگار ، تنگ دستی اور فاقہ کشی کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔پولیس کی نااہلی کی
بدولت چوری ڈاکے اور اغوا کی وارداتیں ایک معمول بن چکی ہیں میاں صاحب کو
خبر نہیں یا وہ خود نہیں جاننا چاہتے کہ روزانہ کتنے ہی لوگ چوری ڈاکے کی
ان وارداتوں سے زندگی بھر کے اثاثوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں وہ ایک
میٹروبس پراجیکٹ بنا کر یہ سمجھ رہے ہیں پورے پاکستان کے ٹریفک کے مسائل حل
ہوگئے ہیںلیکن انہیں خبر نہیں کہ پنجاب تو دور کی بات ہے لاہور کے باقی
ماندہ شہر میں بھی ہر بڑی شاہراہ پر ٹریفک جام رہنا ایک معمول بن چکا ہے
آلودگی اس قدربڑھ گئی ہے کہ سانس لیتے ہوئے گرد پھیھڑوں میں بھر جاتی ہے ۔
میاں صاحب کی تمام پھرتیوں اور چابک دستیوں کے باوجود پنجاب میں نہ تو جعلی
دوائیوں کا کاروبار ختم ہوا ہے اور نہ ہی نیم حکیموں کی پریکٹس پر کوئی
قدغن لگی ہے ۔نہیں یقین آتا تو درو دیوار پر لکھے ہوئے نیم حکیموں کے
اشتہار دیکھے جاسکتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر میں نہ پہلے میعار ملحوظ رکھا
جاتا تھا نہ اب ۔ یہی وجہ ہے کہ نئی تعمیرشدہ سڑکیں ایک ہی بارش کے بعد
کھنڈر کا ڈھیر بن جاتی ہیں پھر وہاں ٹریفک کا گزرنا عذاب سے کم نہیں ہوتا
۔اگر میاں شہباز شریف چاہتے تو چولستان میں چین یا جرمنی کے تعاون سے سولر
انرجی یونٹ لگا کر ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے تھے لیکن اب انہوں
نے صرف پانچ سومیگاواٹ کا معاہدہ کیا اور وہ بھی اس وقت جب ان کی حکومت ختم
ہونے والی ہے ۔ پھر پنجاب کی سرزمین معدنی دولت تانبا ، لوہا ، کوئلے ، تیل
، گیس قیمتی لکڑی اور قیمتی دھاتوں سے بھری پڑی ہے لیکن میاں صاحب اگر
چاہتے تو پنجاب کو ہر اعتبار سے خود کفیل بنا سکتے تھے افسوس کہ وہ بھی ان
مسائل کو حل کرنے کی بجائے پانچ سال تک نااہل ادر کرپٹ ترین وفاقی حکومت کا
چہرہ ہی دیکھتے رہے ۔پنجاب کے تمام دریا بھارت کی آبی جارحیت اور وفاقی
حکومت کی مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے صحرا بن چکے ہیں ایک عام آدمی بھی
جانتا ہے کہ پانی نہیں ہوگا توکاشتکاری کیسے ہوگی اور اگر زراعت تباہ ہوگی
تو پنجاب کے لوگ کہاں سے کھائیں گے کاروبار ، فیکٹریاں ، کارخانے ، دفتر
اور بنک کیسے چلیں گے لیکن جہاںوفاقی حکومت اس اعتبار سے مجرم ٹھہرتی ہے
وہاں وزیر اعلی کی حیثیت سے شہباز شریف بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتے انہیں
چاہیے تھا کہ پنجاب کی زمینوں کو بنجر ہونے سے بچانے کے لیے وفاقی حکومت کا
جینا حرام کردیتے لیکن اب پنجاب کی اربوں ایکڑ زرخیز اراضی کے بنجر ہونے
میں زیادہ وقت نہیں رہا ۔کچی آبادیوں کے رہنے والوں کو نہ چوہدری صاحب کے
دور حکومت میں مالکانہ حقوق ملے اورنہ ہی شہباز شریف کے ( صرف وعدوں پر ہی
دونوں نے ٹرخاکر ووٹ لیتے رہے )- |