امریکہ کی جانب سے نریندرمودی کو
ویزا جاری کرنے یا نہ کرنے کے متعلق بیان سے مسلمانوں کوکسی خوش فہمی یا
فکر مندی کا شکار نہیں ہوناچاہئے۔ کیونکہ امریکہ جس کی بھی حمایت یا مخالفت
کرتا ہے۔تووہ پہلے اپنے سیاسی فائدے و نقصان کو دیکھتا ہے اس طرح کے بیانات
سے وہ مخصوص لوگوں خاص کر مسلمانوں کوگمراہیت میں بھی مبتلا کرتاہے۔کسی کو
ویزافراہم کرنا یا نہ کرنا یہ اس کی ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔اور
جوسیاسی فوائد پر محیط ہے۔اس کے اس بیان پر یہ سمجھ لینا کہ ایسا صرف
مسلمانوں کی ہمدردی کیلئے ہورہا ہے۔ تو یہ ہماری بھول اور ناسمجھی
ہے۔اگرامریکہ کی طرف سے مودی میاں کو ویزا بھی فراہم کردیا جائے تو
مسلمانوں پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مودی کو امریکی ویزے کی عدم فراہم
کی مہم اس کی پبلسٹی کیلئے ہورہی ہے۔ جس کا مودی میاں کو سیاسی فائدہ
پہنچایا جارہا ہے۔امریکہ کی اس پبلسٹی کی حمایت کی وجہ سے وہ وزیر آعظم کی
امیدواری کی دوڑ میںہیں۔یہ کوشش ان کو ہندوستان کا وزیر آعظم بنوانے کیلئے
چل رہی ہے۔مودی کی بھر پور پبلسٹی کیلئے امریکہ کی یہ ’ حمایت ‘ ، ’مدد‘،
اور ’تعاون‘ جس پرانپڑھ مسلمان خوامخواں شادمہ ہورہے ہیں۔جبکہ عام مسلمانوں
کیلئے یہ دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ اب مسلمانوں کا با شعور طبقہ یہ سمجھتا
ہے۔یہ مودی میاں اب بھاجپا کے امیدوار نہیں بلکہ یہ تو اب امریکہ کے
امیدوار ہی دیکھائی پڑتے ہیں۔؟ ان کو وزارتِ عظمیٰ تک پہنچانے کی خاطر ہی
امریکہ کی طرف سے مذکورہ یہ حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔دراصل مودی کو ویزا کی
عد م فراہمی صر ف سیاسی فوائد پر ہی مبنی ہے۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ
ہندوستا ن کو کمزور کرنے کیلئے پس پست یقینا کوئی شرارت چل رہی ہے۔
اگربھاجپا مودی کو اپنا امیدوار بناتی ہے۔ تووہ بھی ملک کو کمزورکرنے کی
شرارت میں شریک جرم ہوگی۔ویزے کی عدم فراہمی میں مودی کی عوامی تشہیر کا
اصل مفہوم اب واضح ہوتا جارہا ہے۔کہ امریکہ ہندوستان کو فرقہ پرستی کی آگ
میں جھونکنے کا کوئی خفیہ منصوبہ بنا یا چکا ہے۔جس کا فوکس ویزے کی عدم
فراہمی کی وجہ سے نریندر مودی کو جان بوجھ کر بنایا گیا ہے۔ اب جبکہ مسلمان
سیاسی سوجھ بوجھ کی طرف مائل ہیں وہ مودی کو شکست دینے حکمت عملی تیار
کررہے ۔ مودی سے پارلیمانی حلقہ میں سیاسی مقابلہ آرائی کیلئے مسلمان اپنا
امیدوار نا صرف امام صدیقی (بگ باس ۶ کے بہترین ڈرامہ باز)بلکہ بھائی پروین
توگڑیا(دل کی بھڑاس مسلمانوں کے خلاف نیکالتے ہیںمگر دل سے مسلم و انسانیت
کے گہرے ہمدرد، بھڑاس نیکالنا ان کی ایک گہری بیماری ہے جس کو ہر کوئی نہیں
سمجھ سکتا) کو بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ دونوں کسی بھی جماعت سے نریندر مودی کے
خلاف میدان میں آئے تو ان کو مسلمانوں کا امیدوار مانا جائے گا۔مقصد امریکہ
کے اس امیدوار کو ہندوستان میں شکست دینا ضروری ہے۔اب دیکھنا ہے کہ لوک
سبھا کے انتخاب میں کون کس کے سا تھ ہے؟؟اور کون ہندوستان کا وفادار ہے؟اب
مسلمانوں کے بہ شعور طبقہ کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرستی کی پھیلائی
جارہی آگ کو ٹھنڈہ کرنے میں اہم رول ادا کریں۔یہ ہی اس وقت کی سب سے اولین
ضرورت ہے۔ |