ہندوستا ن میں صدر جمہوریہ کو
عام طور پر کوئی ایسا کام کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے
یاد کیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے پرنب مکرجی کا دورِ صدارت سزائے موت کے نام
سے جانا جائے گے ۔ ان کے زیر صدارت اول تو اجمل قصاب کو پھانسی ہوئی اور اس
کے بعد افضل گرو کو تختۂ دار کا منھ دیکھنا پڑا ۔ان دونوں سے فارغ ہونے کے
بعد وہ ویرپن کے چار ساتھیوں کی جانب متوجہ ہوئے لیکن درمیان میں کوئی
رکاوٹ پیش آئی تو انہوں نے اپنی سسرال یعنی بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کیا ۔
صدرِ مملکت کی حیثیت سے یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے لیکن یہ دورہ بھی
ایک ایسے موقعہ پر کیا گیا جبکہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے
نائب امیر اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین علامہ دلاور حسین سعیدی کو
پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس کے خلاف احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا تو
حکومت نے اسے بزور قوت روکنے کی خاطر دو چار دنوں میں تقریباً سو لوگوں کو
موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اب چونکہ ظالم حسینہ پرنب داقوم کے سب سے بڑے اعزاز
سے نواز رہی ہیں تو ان پر لازم ہوگیا کہ وہ اس کے ظلم و جبر سے آنکھیں پھر
لیں اور اس کی بیجا تعریف و توصیف کے پل باندھیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ پرنب دا
اپنی تمام تر سیاسی مہارت کے باوجود حسینہ کے دام میں آگئے ۔ اس نے اپنے
مظالم کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے انہیں اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی
لیکن ہوا یہ پرنب کے دورے کے سبب وہ احتجاج جس کی جانب سے ہندوستانی ذرائع
ابلاغ اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے تھے منظر عام پر آگیا ۔ حسینہ واجد کے
چہرے پر لگا منافقت کا غازہ دھل گیا اور کریہہ چہرہ ساری دنیا کے سامنے بھی
آگیا ۔لگتا ہے صدارتی محل میں جانے کے بعد پرنب مکرجی سیاسی داؤں پیچ
بھول گئے ورنہ اس موقع پر حسینہ واجد کے جھانسے میں آکر بنگلہ دیش کا دورہ
ہر گز نہیں کرتے جبکہ امریکہ تک نے بنگلہ دیش کی مذمت کی ہے اور ساری دنیا
میں احتجاج ہو رہے ہیں۔
پانچ سال قبل بنگلہ دیش میں سات سال کے بعد انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں
حسینہ واجد نے زبردست کامیابی درج کرائی لیکن اس عرصے میں عوام الناس کی
فلاح و بہبود کا وہ کوئی ایسا کام نہ کر سکیں جس کے سبب لوگ انہیں دوبارہ
اس سال کے اواخر میں منتخب کریں ۔اسی غرض سے انہوں نے ایک سال قبل سے جنگی
مجرمین کا مسئلہ چھیڑ دیا۔فسطائی قومی جذبات کو بھڑکا کر دوبارہ انتخاب
جیتنے کا منصوبہ بنایا اور بڑی صفائی سے اس پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ صحیح ہے
کہ بنگلہ دیش کے اندر جماعتِ اسلامی سقوط پاکستان کے خلاف تھی لیکن یہ اس
کا ایک سیاسی فیصلہ تھا اور اس نظریہ کی حامل اور بھی بہت ساری جماعتیں
سابقہ بنگلہ دیش یعنی مشرقی پاکستان میں موجود تھیں مثلاً مسلم لیگ ، جمیعت
العلماء پاکستان اور چین نواز کمیونسٹ پارٹی وغیرہ لیکن اس طرح کے نظریاتی
اختلافات کو سیاسی دشمنی بنا کر عوام کو ورغلانا اور اپنی سیاست چمکانا
کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ ہندوستا ن کی آزادی کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ
میں ملک کی تقسیم کے مسئلہ پر اختلاف تھا مگر تقسیم کے بعد بھی مسلم لیگ
ہندوستا نی سیاست میں سرگرم ہے بلکہ کیرالا کی حکومت میں شامل ہے ۔ خان
عبدلغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی پاکستان بنانے کے ویسے ہی خلاف تھی جیسی
کہ جماعت اسلامی سقوطِ پاکستان کی مخاللف تھی لیکن عوامی نیشنل پارٹی بھی
پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے اور صوبہ سرحد میں فی الحال اسی کی
صوبائی حکومت ہے ۔لیکن افسوس کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اس اختلاف میں بے
بنیاد الزامات جوڑ کر اسے انتخابی کھلونا بنا دیا ۔
بنگلہ دیش کی تاریخ کو مشرقی پاکستان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ جنرل
ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے کھل کر تحریک چلائی تھی
اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس طرح اب حسینہ واجد جماعت کے رہنماوں کی دشمن
بنی ہوئی ہیں جنرل ایوب خان نے بھی قادیانیت کا بہانہ بنا کر مولاناابواعلیٰ
مودودی کو تختۂ دار تک پہنچانے کا اہتمام کردیا تھا لیکن مشیت ایزدی نے
اسے اپنے ناپاک عزائم میں ناکام کردیا ۔ ایوب خان کے خلاف پاکستانی جمہوری
تحریک ۔ حزب اختلاف کا متحدہ محاذ اور جمہوری ایکشن کمیٹی کے قیام میں
جماعت پیش پیش تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن
اور ان کی جماعت عوامی لیگ متحدہ محاذ اور ایکشن کمیٹی میں شامل تھیں ۔خیر
یہ تو بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے کی بات ہے لیکن ۱۹۸۰ کی دہائی میں
جمہوریت کی بحالی کی خاطر چلائی جانے والی تحریک میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی
اور جماعت کے ساتھ عوامی لیگ بھی شریک تھی ۔ ان تینوں ایک دوسرے کے شانہ
بشانہ کام کیا تھا ۔ اس وقت عوامی لیگ کویہ خیال نہیں آیا کہ وہ جنگی
مجرمین کے ساتھ اشتراک کررہے ہیں اور جنگی مجرمین ملک میں جمہوریت کے فروغ
کا کام کررہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے دستور میں ترمیم کرکے غیرجانبدار اقتدار
کے تحت انتخابات کے انعقاد کی تجویز جماعت اسلامی نے سب سے پہلے پیش کی اور
جنرل ارشاد کی جاتیہ پارٹی کے علاوہ عوامی لیگ نے اس کا ساتھ دیا ۔
حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کو اس سے پہلے بھی دومرتبہ ۱۹۷۲ تا ۱۹۷۵
اور ۱۹۹۶ تا ۲۰۰۱ اقتدار حاصل ہو چکا ہے ۔ اس دوران باپ اور بیٹی دونوں
کو کبھی بھی جماعت اسلامی کا جنگی جرائم میں ملوث ہونایادنہیں آیا لیکن۲۰۱۰
میں جاکر اچانک حسینہ واجد پر یہ انکشاف ہوا اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔
۱۹۸۰ کے بعد سےجماعت اسلامی باقائدہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سےقومی
انتخابات میں حصہ لیتی رہی ۔ ۱۹۹۱ کے انتخابات میں جماعت کوپارلیمان کی ۱۸
نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس وقت عوامی لیگ کے رہنما امیر حسین امو نے
جماعت کو عوامی لیگ کے ساتھ مل کرمخلوط حکومت تشکیل میں شمولیت کی دعوت دی
اور اس کے دو ارکان کو وزارت دینے کا بھی وعدہ کیا ۔ تو کیا وہ جنگی مجرمین
کو وزیر بنا رہے تھے؟ جماعت اسلامی نے اقتدار کی خاطر اپنے اصولوں کو قربان
کرنے کے بجائے عوامی لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا ۔اور اقتدار سے باہر رہ کر
بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کا تعاون کیا ۔ ۲۰۰۱ میں جماعت کو ۱۷ سیٹوں پر
کامیابی ملی اور بی این پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں وہ شامل ہوئی ۔ جماعت
کے رہنماؤں مولانا مطیع الرحمٰن کووزیر زراعت وصنعت اور علی احسن مجاہد کو
سماجی فلاح وبہبود کا وزیر بنایا گیا ۔ ان دونوں نے اپنی میقات مکمل کی اور
غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن اب اچانک ان دونوں کا نام جنگی
مجرمین کی فہرست میں شامل ہو گیا ۔
عوامی لیگ کے لوگ جو تماشہ فی الحال کررہے ہیں اسی طرح کی ایک گھناونی سازش
وہ اس وقت بھی کرچکی ہے جب جماعت اقتدار میں شامل تھی ۔ ۲۰۰۵ کے اندر
اچانک ملک میں بم دھماکوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ ان دھماکوں میں نچلی عدالت کے
دو جج بھی جان بحق ہوگئے ۔ چونکہ یہ دھماکے اسلام کے نام پر کئے جارہے تھے
اس لئے ذرائع ابلاغ نے ان کا تعلق جماعت اسلامی سے جوڑ دیا اور یہ کہنا
شروع کردیا کہ اب جماعت تشدد کے ذریعہ اقتدار کی راہیں ہموار کررہی ہے ۔
کسی نے کہا دہشت گردوں کو جماعت کی سرپرستی حاصل ہے، کوئی بولا ان کے حوصلے
جماعت کی وجہ سے بلند ہوئے ہیں وغیرہ لیکن جماعت اسلامی نے نہ صرف ان
دھماکوں پرزور مذمت کی بلکہ ان کے خلاف ملک کو طول وعرض میں عوامی جلسوں کا
اہتمام کیا جس سے رائے عامہ اس کے خلاف ہوگئی اور بہت جلد اقتدار کی مددسے
مجرمین کو گرفتار کر کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا ۔
جنگی جرائم کے مجرمین کا جہاں تک تعلق اس کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے ۔بنگلہ
دیش کے قیام کی جنگ عملاً پاکستانی فوج اور مکتی باہنی کے درمیان لڑی گئی
جس میں عوامی لیگ کے لوگ شامل تھے۔ اس وقت پاکستانی حکومت انہیں علٰحیدگی
پسند اور دہشت گرد کا نام دیتی تھی ۔ ان کے تربیتی کیمپ سرزمینِ ہند پر اسی
طرح قائم تھے جیسے آئی ایس آئی کے کیمپ پاکستان میں موجود ہیں اور ہماری
حکومت جن پر بمباری کی بات کرتی ہے ۔ مکتی باہنی کے نوجوان ہندوستان میں
تربیت حاصل کرنےکے بعد اسلحہ سے لیس ہوکر بنگلہ دیش میں اسی طرح سرحد پار
کرکے جاتے تھے جیسے کہ کشمیری نوجوان آتے ہیں ۔ دونوں کے لبوں پر آزادی
کا نعرہ ہوتا تھا ۔پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ ہندوستان نے باقائدہ پاکستان پر
فوج کشی کردی اور پاکستانی فوج نے ہتھیارڈال دئیے اور انہیں جنگی قیدی بنا
لیا گیا ۔ یہی وہ احسانِ عظیم ہے جس کیلئے اندرا گاندھی کےبعداب پرنب مکرجی
کو بنگلہ دیش کے عظیم ترین قومی اعزاز سے نوازہ جارہا ہے۔ اس جنگ میں سب سے
کم ہندوستانی یا پاکستانی فوجی مارے گئے اور ان سے کچھ زیادہ مکتی باہنی
لوگ ہلاک ہوئے اس لئے کہ یہ سب ہتھیار بند تھے ۔ سب سے زیادہ جانی نقصان
نہتے عوام کا ہوا ۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اس نازک دور میں کئی ہندو
خاندانوں کو جماعت کے لوگوں نے پناہ دی اور تحفظ فراہم کیا ۔
شیخ مجیب الرحمٰن کے دورِ اقتدار میں ۱۹۷۳ کے اندر دستور میں ترمیم کرکے
جنگی مجرمین کو بنیادی حقوق کے تحفظ سے محروم کیا گیا اور پارلیمان نے بین
الاقوامی جرائم (ٹریبونل)ایکٹ پاس کیا تاکہ انہیں سزا دی جاسکے ۔ شیخ مجیب
الرحمٰن کی حکومت نے ۹۳ ہزار پاکستانی فوجیوں میں سے صرف ۱۹۵ پر جنگی جرائم
کا لزام لگایا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس وقت بنگلہ بندھو کو جماعت اسلامی کے
اندر کو جنگی مجرم نہیں آیا ۔ ۱۹۷۴ میں شملہ معاہدے کی روشنی میں دہلی کے
اندر بنگلہ دیش ، ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے ان ۱۹۵ جنگی
مجرمین کو بھی مقدمہ چلائے بغیر پاکستان واپس بھیج دینے کے معاہدے پر دستخط
کردیئے ۔ اس معاہدے کے الفاظ درجِ ذیل ہیں:
• اس بابت تینوں وزرائے خارجہ (کمال حسین :بنگلہ دیش، عزیز احمد:پاکستان
اور سورن سنگھ:بھارت)نے یہ محسوس کیا معاملات کو دوستی اور یگانگت کے زاویہ
سے دیکھنا چاہئے ۔ وزراء نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستانی وزیراعظم نے
بنگلہ دیشی وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے
اور بنگلہ دیش کی عوام سے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر عفو ودرگزر کے ذریعہ
تعلقات بحال کرنے کی اپیل کی ہے ۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے بھی اعلان کیا کہ
وہ چاہتے ہیں عوام ۱۹۷۱ کے مظالم اور تباہ کاری کو بھلا کر ایک نئے دور کا
آغاز کریں اور ظاہرکردیں کہ بنگلہ دیش کے عوام معاف کرنا بھی جانتے ہیں ۔
• آگے بڑھنے کی غرض سے اور خاص طور پر بنگلہ دیش کی عوام سے پاکستانی وزیر
اعظم کی درخواست پر کہ ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر معافی تلافی سے کام لیا
جائے، بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے جذبۂ خیر
سگالی کے تحت مقدمات کو نہیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس بات پر اتفاق کیا
گیا کہ جنگی مجرمین کو بھی دیگر جنگی قیدیوں کے ساتھ واپس بھیج دیا جائیگا
۔
شیخ مجیب الرحمن نے ۱۹۷۳ میں صدارتی حکمنامہ نمبر ۱۶ جاری کروا کر تنازعہ
میں ملوث سارے لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان کردیا تھا اس طرح گویا جنگی
مجرمین کا باب بند ہوگیا ۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی خوش فہمی کہ بنگلہ دیشی
معاف کرنا جانتے ہیں ان اپنی بیٹی حسینہ واجد نے دور کردی۔ باپ نے پاکستانی
فوج کے مجرمین کو معاف کردیا لیکن بیٹی نے خود اپنے ہی ملک کے معصوم سیاسی
مخالفین کو سوئے دار پہچانا شروع کردیا ۔ ویسے شیخ مجیب الرحمٰن بھی اپنے
سیاسی حریف اور جماعت اسلامی کے نہایت مقبول رہنما پروفیسر غلام اعظم کو
فراخ دلی کے ساتھ معا ف نہ کرسکے تھے ۔ پروفیسر غلام اعظم کو ۲۲ سالوں تک
بنگلہ دیش کی شہریت سے محروم رکھا گیا اور بالآخر اپنا یہ بنیادی حق حاصل
کرنے کیلئے انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا ۔ انہوں نے ہائی کورٹ اورسپریم
کورٹ میں سرکار کے اس حکمنامے کو چیلنج کیا اور اپنے شہریت کو تسلیم کروایا
۔ پروفیسر غلام اعظم پر بھی جنگ آزادی کے دوران مظالم کے ارتکاب کا الزام
تھا مگر ہائی کورٹ کا وہ جج نے بھی جس نے انہیں شہری تسلیم نہیں کیا تھا
اپنے فیصلے میں لکھا مدعاالیہ( غلام اعظم )کاپاکستانی فوج یا اس کے آلۂ
کار رضاکار، البدر یا الشمس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس کا جنگ آزادی کے
دوران ڈھائے جانے والے مظالم سے کو سروکار نہیں ہے ۔ عدالت عالیہ کی شہادت
کے باوجود شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے پروفیسر غلام اعظم کو جنگی مجرم قرار
دے رکھا ہے ۔بلکہ جج کے استفسار پرکہ غلام اعظم فوجیوں کو کیوں کر احکامات
دے سکتے تھے جبکہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا تو سرکاری وکیل کہتا
ہے وہ تو اس زمانے میں ہٹلر کی مانند تھے اور ہٹلر کو کسی عہدے کی ضرورت
نہیں تھی۔ اب اس احمق کو کون بتائے کہ ہٹلر جنگ عظیم کے زمانے میں شیخ حسنہ
واجد کی ماننددستوری سربراہِ مملکت تھا اور شیخ حسینہ وہی سب کررہی ہے جو
ہٹلر کیا کرتا تھا۔
جمہوریت کی دنیا میں امریکہ ساری دنیا کی رہنمائی کرتا ہے ۔ صدر اوبامہ کو
اپنے انتخاب سے ایک سال قبل ایک جعلی اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے اپنے آپ
کو دلیر ثابت کرنا پڑا تب جاکر وہ انتخاب جیت سکا ۔ منموہن سنگھ افضل گرو
کی پھانسی کے سہارے کانگریس کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں اور حسینہ واجد
چاہتی ہے کہ مولانا دلاور حسین سعیدی کو تختۂ دار پر چڑھا کر اقتدار پر
اپنا قبضہ برقرار رکھے اسی لئے سرکاری وکیل رانا داس گپتا بڑی ڈھٹائی کے
دعویٰ کرتا ہے ۲۰۱۲ جنگی جرائم کے فیصلوں کا سال تھا اور ۲۰۱۳ ان فیصلوں
پر عملدرآمد کا سال ہے ۔ لیکن اس دھمکی کے جواب میں علامہ سعیدی نے بھری
عدالت میں کہا کہ اگر قرآن کی تبلیغ میرا جرم ہے تو میں اس کیلئے ہزار بار
پھانسی کے تختے پر چڑھنے کیلئے تیار ہوں ۔ مولانا کے حق میں ۱۶ شواہد کو
طلب کیا گیا تھا لیکن ان کی پیشی کے بغیر ہی سزائے موت کا ظالمانہ فیصلہ
سنا دیا گیا ۔مولانا سعیدی نے مومنانہ شجاعت کے ساتھ جج کو مخاطب کرکےکہا
کہ عدالت کے دو مرحلے ہیں ۔ آج میں بےکس اور معصوم مدعاالیہ ہوں اور آپ
کو جج کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے تاکہ سیاسی مفاد کی خاطر مجھ سے انتقام لیا
جائے۔ آج طاقتورلوگ معصوموں پر ظلم ڈھا رہے ہیں کل قیامت کے دن ساری
کائنات کے مالک احکم الحاکمین کی عدالت میں یہ ظالم مجرم کے کٹھہرے میں
کھڑے ہوں گے اورہم مظلوم مدعی ہوں گےیہ کہہ کر مولانا نے ان لرزہ خیز آیات
کی تلاوت کی : کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟(التین)۔جس
روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے(الدخان)۔
افسوس کے بنگلہ دیش کے سرخ پرچم پر بنا سورج فی الحال روشنی کے بجائے
تاریکی پھیلا رہا ہے۔حق و باطل کی جو کشمکش فی الحال سرزمینِ بنگلہ دیش میں
برپا ہے کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے رہی ہے اور جاری رہے گی ۔ اس کا
مقام بدلتا رہتا ہے کبھی افغانستان کے کہسارتو کبھی صحرائے فلسطین۔ کبھی
ایران کی گلیاں تو کبھی مصر کے بازارلیکن حق کے علبرلدار نہ کبھی پسپا ہوئے
ہیں اور نہ ہوں گے بقول افتخار راغب ؎
ہے نور کی ظلمات سے یہ جنگ پرانی
لڑتا ہے اندھیروں سے ہمیشہ کوئی سورج
|