ووٹ پھر بکے گا؟

حضرت انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ وہ خوش و خرم، آسائشوں سے بھرپور زندگی بسر کرے۔ سہانے خواب دیکھنے کا منتظرانسان، پھر اُن خوابوں کی تکمیل کے لیے ہرحربے استعمال کرتا ہے۔ اگر خواب سچ ہو جائیں ،تو اسے دنیا ہی جنت نما لگتی ہے، تگ و دو کے باوجودزندگی میں راحت و سکون میسر نہ آئے تو دنیا زہر کی مانند لگتی ہے ۔جب امیروں کے بچے پیٹ بھر کر کھائیں، اورغریب باپ کے بچے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہوں۔ باپ سے اچھے کھانے کی خواہش ظاہرکریں، ہزار کوشش کے باوجود اُن کی خواہش کو پورا نہ کر پائے تو انسان کو اپنی زندگی زنجیروں میں جکڑی نظر آتی ہے ،آخر کار کر وہ زندگی کی مصیبتوں سے آزاد ہونے کے لیے وہ حربہ استعمال کرتا ہے، جس کے بعد وہ خود تو دنیا کی مصیبتوں سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن اپنے بچوں کو ظالم اور بے حس معاشرے کے سپرد کر دیتا ہے۔مایوسی کفر ہے اسی لیے خودکشی کرنے والے کے بارے میں اﷲ رب العزت نے جہنم کی وعید سنائی ،۔ خواہشات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جائز اور ناجائز، جائز خواہشوں کی تکمیل جائز طریقے سے ممکن بنائی جائے تو زندگی پُر سکون ہوتی ہے۔ ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے غلط راستے کا چناؤ کیا جاتا ہے جو وقتی طور پر انسان کو راحت بخشتا ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھاسکی زندگی عذاب بن جاتی ہے ۔کہاوت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ خواہشات میں انفرادی اور اجتماعی کا تعلق بھی ہے ، آپ اچھا کھانا، بہترین تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں ،آپ اچھا کھائیں بچوں کی تعلیم کے لیے بہترین اسکول کا انتخاب کریں اس کا تعلق آپ کی ذات سے وابستہ ہے جو کہ انفردی فعل ہے ۔اجتماعی خواہشات کا تعلق قوم اور معاشرے سے وابستہ ہے،جہاں آپ کی رہائش ہووہاں سڑکیں کشادہ اور پختہ ہوں نکاسی کا نظام بہتر ہو، ٹرانسپورٹ بھی ہونی چاہیے، اِن خواہشات کی تکمیل کے لیے بہتر آدمی کا چناؤ بذریعہ ووٹ کرنا پڑتا ہے۔ پانچ سال بعد آپ کے حلقے میں کہیں امیدوار نمودار ہوتے ہیں جو آپ کے تمام مسائل کو حل کرنے ،آپ کی خواہشات کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر آپ ووٹ ہمیں دیں گے تو روٹی، کپڑا، مکان کی پریشانی سے آزاد ہو جائیں گے، آپ کی سڑکیں پختہ کروائے گے، تعلیم، صحت کے لیے کام کرے گے۔ انصاف آپ کی دہلیز پرہو گا، آپ کو ہر پریشانی سے چھٹکارا دالو ئے گے ۔ بھولے بھالے عوام ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں، جوں ہی آپ کے ووٹ سے کامیاب ہونے والاامیدواراقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے ،تو ووٹر اس کو کیڑے مکوڑوں کی مانند نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی کُرسی میں بیٹھے مسلسل اُن کو مسلتا ہے ،آپ کے مسائل جائے بھاڑ میں وہ اقتدار کے نشے میں ایسا مست ہوتا ہے کہ عوام کے مسائل سے بے نیاز خرگوش کی نیند کے مزے لوٹتا ہے۔ عوام احساس ندامت لیے اپنے ضمیر سے وعدہ کرتے ہیں، آئندہ ایسے شخص کوووٹ نہیں دیں گے، مومن کے بارے میں ہے کہ وہ ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا، لیکن ہم ہیں کہ بار بارڈسے جارہے ہیں۔ڈسنے والے کا ڈنگ بھی ایسا جس کی وجہ سے پانچ سال تک ہمارے جسم میں مسلسل درد ہوتا ہے لیکن جوں ہی وہ ڈسنے کے لیے دوبارہ ہمارے سامنے آئے توہم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن پانچ سال بعد جب موصوف وہی پرانی تقریروں کا پلندہ لیے عوام کے روبرو ہو کر ایک کپ چائے اور کیک سے تواضح کرتے ہیں، پھر ضمیر چائے کے نشے میں مست ہو کرلمبی تان کر سو جاتا ہے۔ ہم برادری ازم ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ووٹ کو ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ یہاں توووٹ چائے کے کپ پر بکتا ہے، پھر ہم پانچ سال تک اپنے مسائل اور پریشانی کا رونا روتے ہیں۔ یورپین ممالک کی ترقی دیکھ کر ہر لمحے کڑھتے ہیں، وہاں ووٹ کو مقدس فرض سمجھا جاتا ہے۔ اِس لیے وہ قومیں ترقی کے راستوں پر گامزن ہیں۔ چند دنوں میں عوام ایک بار پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ووٹ کا استعمال میرٹ اور برداری ازم جیسے لغویات سے نکل کر کریں۔ پھر ایسا ہوا کہ ووٹ سرِے بازار بکا۔تو خون کے آنسو روتی ہوئی میری دھرتی ماں مزید دکھ سہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی،وہ پھٹ پڑے گی،خدانخواستہ ایسا ہوا تو آپ کی خواہشات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے خواب بھی ٹوٹ جائیں گے،آج ان کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔پاکستان کو بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذارانہ دینے والے بزرگوں کی روحیں مزید تڑپیں گی ۔آپ کا ایک ووٹ اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔اگر آپ نے اس کا استعمال صیح کیا توپھر کسی میں اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ دہشت گردی کا لیبل لگا کر ہماری بیٹوں کو یہاں سے اٹھا کراپنے ملک لے جائیگا،پھرنوجوانوں کواسلام کے نام پر بنے والے ملک میں اسلام کا نام لینے پر قید کی صوبتیں کو برداشت نہیں کرنا پڑے گی۔آپ کاایمان داری اور خوف خدا پر دئیے جانے والا ووٹ دھرتی ماں کو ایک صالح اور نڈر لیڈر دے سکتا ہے ۔آپ کے خوابوں کی تکمیل ملک پاکستان اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بہتر دیکھنا چاہتے ووٹ کے حق کو لازمی اورایمان داری سے استعمال کیجئے۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 50946 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More