کراچی انتظامی بے عملی کی بدترین تصویر

سابق اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور دہشت گردی کےخلاف ریاستی ناکامیوں نے عوام میں ریاستی رٹ اورحاکمیت کا تصور ختم کردیا ہے۔ کراچی کے علاقے عباس ٹاﺅن میں ڈیڑھ سو کلو بارودی مواد سے بم دہماکے کے نتیجے سینکڑوں عوام بے گھر ، 45سے زائدافراد جاں بحق اور145 سے زائد زخمی ہوئے اس المناک موقع پر کراچی میں وزیر اعظم پاکستان ،پیپلز پارٹی کی رہنما ءشرمیلا فاروقی کی منگنی کے سلسلے میں موجود تھے ،شہر کی انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری ،مہاتا پیلس،کراچی میں ہونے والی تقریب کی حفاظت کےلئے موجود تھی اور حکومتی بے حسی کی شرمناک مثال یہ تھی کہ سانحہ ہونے کے باوجود کئی گھنٹوں تک ،عوام کو مزید کسی بڑے سانحے سے بچانے اور امدادی کاروائیوں کےلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بم ڈسپوزل اسکوڈ کیجانب سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور کئی گھنٹے تک جائے حادثے پرکسی بھی اعلی حکومتی عہدےداروں نے ، متاثرین کی اشک شوئی کیلئے موجود ہونے کے بجائے ،مہاتا پیلس کی رنگین محفل میںبراجمان رہنے کو فوقیت دی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تقریب ملتوی کرتے ہوئے ، حکومتی عہدےداران کو جائے وقوع اور ہسپتال میں موجود رہتے ، تاکہ قوم کی ذہنی اذیت میں کمی ہوسکتی، لیکن ایم کیو ایم اراکان اسمبلی و ذمے داران کے علاوہ کوئی بھی وزیر یا رکن اسمبلی یا دوسری سیاسی جماعت کا عہدےدار بروقت موقع پر نہیں پہنچے ، حالاں کہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کے قریبی عزیز وں میں بہنوئی ، کزن اور ان کے دو بچے بھی دہشت گردی میں جاں بحق ہوئے ۔لیکن حکومتی عہدےداروں کیجانب سے یہاں بھی وقت، ذاتی مفادات اورسیاست چمکانے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے اور عوام کے تکالیف کا کوئی پُرسان حال نہیں۔جب تک سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے ، مربوط پالیسی اختیار نہیں کی جاتی ، عسکریت پسندوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے عوام کےخلاف ہونے والی سازشوں کو روکنا ممکن نظر نہیں آتا۔متحدہ علما ءکونسل اور مختلف مکاتب فکر کے علما ءکی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں کو حرام اور ناجائز قرار دیا جاچکا ہے ، تمام مسالک و مکاتب فکر کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف ہمیشہ حوصلہ افزا رہا ہے ۔ لیکن جب حکومت کیجانب سے بے حسی پائی جاتی ہو تو صرف بیانات دینے سے ملک میں جاری دہشتگردی کی لہر کو روکنا خام خیالی ہے۔توقع تو یہی کی جاتی رہی ہے کہ علما ءکی جانب سے خودکش حملوں کو حرام قرار دینے کے بعد ، واقعات میں کمی ہوجائے گی ، لیکن بادی النظر یہی نظر آیا کہ عسکریت پسندوں کو کسی فتوﺅں سے کوئی سروکار ،اُسی طرح نہیں ہے جس طرح حکومت الوقت کو ، عوام کو پہنچنے والی تکالیف کا احساس نہیںہے، ان کے نزدیک انسانی جانوں سے زیادہ ،اپنی فروعی خوائشات اور خوشیاں عزیز ہیں۔عمومی طور پر سہ جہتی حکمت عملی اختیار کی جاتی تھی کہ ، غیر مسلح ہونے والے شدت پسندوں سے بات چیت کی جائے گی ، ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف کاروائی ہوگی ۔ کوئی بھی ریاست کسی بھی فرد یا گروہ و اپنے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔گویا اگر کوئی طبقہ مسلح ہوکر اپنے مطالبات تسلیم کرانا چاہتا تو اس کو کس طرح اجازت دی جاسکتی ۔ یعنی دوسرے معنوں میں تشدد کی راہ کو درست قرار دیتے ہوئے ، کسی بھی متشدد گروپ کی تمام خطاﺅں کو معاف کرکے ، انھیں مزید طاقت ور ہونے کےلئے سرکاری سرپرستی یا چھتری فراہم کی جائے۔یہ حکمت عملی صائب ہے کہ اگرمذاکرات کےلئے شدت پسند ، جنگ بندی کے ساتھ ، تشدد کی راہ اختیار نہ کریں تو پھر مذاکرات کےلئے سیکورٹی فورسز کی جانب سے مثبت ردعمل کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ جو علاقے شدت پسندی سے متاثر ہیں ، وہاں بھی ترقیاتی منصوبے اُسی صورت میں تکمیل کئے جاسکتے ، جب امن قائم ہو ،اور شدت پسندی سے خطے میں حکومتی اہلکاروں کی آمد رفت میں کسی قسم کا خوف نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ جب تک علاقوں میں امن و امان کی صورتحال قائم نہیں ہوتی ،اُن علاقوں میں صرف منصوبوں کے اعلانات ، حکومت کی جانب سے بے فائدہ کہلائے جائیں گے۔کراچی میں ، گذشتہ چند مہینوں سے بم دہماکوں کا سلسلہ تشویش ناک حد تک بڑھتا جارہا ہے ، کراچی پہلے ہی ٹارگٹ کلنگ ،فرقہ وارنہ ہلاکتیں ،بھتہ خوری اور دیگر سماجی مسائل میں دھنستا جارہا ہے ، اوپر سے عسکریت پسندوں کیجانب سے فرقہ وارنہ اور لسانی فسادات کی سازش کے طور پر مختلف مسالک اور قومتیوں کو نشانہ بنانے کےلئے بم دہماکوں کا استعمال ، ایک بہت بڑا خطرناک رجحان ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اب بھی بعض سیاسی و مذہبی جماعتوںکو شدت پسندی کے حوالے ، عسکرےت پسندوں کے حتمی کردار کو طے کرنے میں تحفظات ہیں، جسکااظہار دوسیاسی جماعتوں کی جانب سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں برملاکیا جاچکا ہے۔یقینی طور پر پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو شدت پسندی کےخلاف آپس میں تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ جس طرح ، جے یو آئی ف کی آل پارٹیز کانفرنس میں آخری وقت میں دہشت گردی کا لفظ تبدیل کرکے بے امنی ہاتھ سے لکھا گیا اور عسکریت پسندوں کو، ایک حکومت مخالف فریق کے طور پر لیا گیا ، اس سے عوام میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے کہ ، بعض جماعتیں عوام کو پہنچنے والے نقصان کو محض اپنے ذاتی فائدے اور الیکشن میں حصہ لینے کے دوران ،عسکریت پسندوں سے اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔یقینی طور پر ملک کی موجودہ صورتحال میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال میں ، یہ طاقتیں اپنا مذموم کردار وطن فروشوں کے ہاتھوں بڑی تندہی سے کر رہی ہیں۔حکومت کیجانب سے عبدالرحمن ملک کے غیر سنجیدہ بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے ، جس سے عوام میں حکومت کی غیر ذمے داری کا احساس دوچند ہوگیا ہے۔ عباس ٹاﺅن کراچی سانحے میں حکومتی بے حسی کی مثال ،بڑی افسوس ناک ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے ، لواحقین کےلئے امدادی رقوم کا اعلان اس طرح کیا گیا، جیسے اس سے قیمتی جانوں کا ازالہ ممکن ہوجائے گا۔وزیرا علی سندھ نے اپنی مشیر کی منگنی باسعادت میں بیٹھے بیٹھے ، غریب متاثرین کےلئے امدادی رقوم کا اعلان اس طرح کیا ، جیسے موصوف اپنی ذاتی جیب سے امداد دینے کاا علان کر رہے ہوں حکومت ،اور تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے کےلئے تمام عوامل کو مدنظر نہیں رکھیں گی ، تو کسی صورت بھی ملک کو دہشت گردی سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔کراچی اس وقت بد انتظامی کی بدترین تصویر بن چکا ہے ۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت پہلے ہی کراچی کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاچکا ہے، ۔ عام طبقے سے لیکر کاروبای طبقے تک خاص وعام ایک شخص بھی محفوظ نہیں ہے ، کراچی کے شہریوں کو محفوظ رکھنے کےلئے بھتہ ، جزیہ کے طرح دینا پڑتا ہے۔سندھ حکومت سے تو اس بات کی توقع رکھنا عبث ہے کہ ، وہ شرمندگی کے اظہار کے طور ، اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہوئے ،چلو بھر پانی میں ڈوب مرے گی، لیکن کم ازکم ، عوام کو تو شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، ان مفاد پرستوں کے خلاف ایک سوچ اپنا لینی چاہیے کہ آئندہ مسند اقتدار کے بجائے یہ اوطاقوں میں نظر آئیں۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.