حامد کرزئی نے نیٹو افواج سے پاکستان پر حملے کا مطالبہ کردیا

افغانستان کے صدر حامد کرزئی پاکستان کے خلاف بیان بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، آئے روز مختلف بہانوں سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کوئی انوکھا ہی بیان داغ دیتے ہیں۔ اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے وہ گزشتہ روز ایک بار پھر پاکستان پر برس پڑے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کے ایک مذہبی رہنما نے افغانستان میں خودکش حملوں کی حمایت میں جو بیان دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے ہمسایہ ملک دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی کوششوں میں مخلص نہیں ہے اور درپردہ پاکستان اس جنگ کی حمایت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کے خلاف حقیقی جدوجہد چاہتا ہے، پاکستانی حکومت کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ دونوں ممالک ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں، اس آگ کو بجھانے میں حکومت پاکستان کا کردار بڑا اہم ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اس پر بھی بس نہ کی بلکہ نیٹو سے پاکستان پر حملے کا مطالبہ بھی کردیا ہے، انہوں نے نیٹو سے سوال کیا کہ پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ صدر حامد کرزئی نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف افغان گھروں اور گاؤں تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ افغانستان سے باہر بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جائے۔

واضح رہے کہ افغانی صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ایک بیان میںپاکستان علماءکونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے کہا تھا افغانستان میں خودکش حملے جائز ہیں کیونکہ وہاں نیٹو فورسز حملہ آور ہیں اور انہوں نے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے، وہ بے گناہ افغان عوام کا قتل عام کررہے ہیں۔ صدر کرزئی نے کہا کہ پاکستان علماءکونسل کے سربراہ طاہر اشرفی کو پاکستانی حکومت نے افغانستان میں دونوں ممالک کے مذہبی رہنماﺅں کے اجلاس میں شرکت کے لیے وفد کا سربراہ مقرر کیا تھا، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں ان کے نظریات کو پاکستانی حکومت کی تائید حاصل ہے۔ صدر کرزئی نے کہا ہم دیکھ رہے ہیں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تسلسل سے پتہ چلتا ہے ہمسایہ ملک افراتفری میں دھنستا جا رہا ہے، صورتحال اب ہر ایک کے لیے کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال افغانستان، پاکستان اور خطے کے ہر گز مفاد میں نہیں۔

اس موقع پر نیٹو سیکرٹری جنرل راسموسن نے بھی علامہ طاہر اشرفی کے بیان کی مذمت کی اور پاکستان پر زور دیا وہ پاکستان افغان سرحد کے ساتھ شدت پسندوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا دہشت گردانہ حملوں کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، ہم پاکستانی حکومت اور فوج پر بار بار زور دیتے رہے ہیں کہ وہ سرحدی علاقے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ تیز کرے کیونکہ دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے یہی ایک صورت ہو سکتی ہے۔انہوں نے اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرف سے خودکش حملوں کو جائز قرار دینا قابل مذمت ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائیں۔راسموسین نے کہا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت آچکا ہے جب پاکستانی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں اور سیاسی رہنماو ¿ں کو احساس ہونا چاہیے کہ افغانستان کا داخلی استحکام پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ افغان امن کونسل نے ایک بیان میں کہا ”طاہر اشرفی کی بات چیت جس میں انہوں نے کہا ہے افغانستان میں خودکش حملے جائز ہیں، اسلامی بھائی چارے کے خلاف ہے۔ امن کونسل نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا وہ اس طرح کی شر انگیزی کی کوششوں کو روکے اور امن کی کوششوں کی حمایت کرے۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسیٰ زئی نے اس بات کو سیاسی عمل قرار دیتے ہوئے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ بیان کسی بھی صورت میں قیام امن اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے مفاد میں نہیں۔

دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہےپاکستان علما ءکونسل کے سربراہ، علامہ طاہر اشرفی نے ان سے منسوب اِس بیان کی سختی سے تردید کی ہے جِس میں مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک افغان ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ چونکہ افغانستان پر حملے کرنے والی نیٹو افواج غاصب ہیں، لہٰذا ان کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیان سیاق و سبا ق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔قطر سے، جہاں وہ اِس وقت مقیم ہیں، مولانا طاہر اشرفی نے اِن الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ اس ساری خبر پر کہوں گا جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے مزید کہا یہ بیالیس منٹ کا انٹرویو طلوع ٹی وی نے کیا تھا۔ افغان علما کانفرنس کے حوالے سے اور اس میں خودکش حملوں کے حوالے سے کوئی ذکر ہی نہیں آیا۔ طاہر اشرفی نے کہا مجھے بڑا دکھ ہے کہ افغانستان کے میڈیا نے اس سے پہلے افغانستان علما کانفرنس کے حوالے سے بے بنیاد خبریں پھیلائیں اور اب یہ خبر پھیلا دی۔ترجمان نے کہا ویسے بھی کسی فرد کے خیالات حکومت پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ کسی بھی انفرا دی شخص کا بیان پاکستانی حکومت کے خیالات کا آئینہ دار نہیں ہے۔ خودکش حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا 2002ءمیں پاکستان علما کونسل نے فتویٰ دیا تھا کسی بھی بے گناہ انسان کا قتل خواہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے، وہ ناجائز اور غیر شرعی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ افغانستان میں بیرونی قابض قوتوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ان کے علاوہ متعدد علماءکرام کے خودکش حملوں کے جواز میں فتوے آچکے ہیں ۔انہی فتوﺅں کی وجہ سے مجاہدین خودکش حملے کرتے ہیں۔مولانا طاہر اشرفی نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک افغانستان کی وزارتِ خارجہ اور صدر کرزئی اِس پر معذرت نہیں کرتے ہم آئندہ افغانستان کے بارے میں کسی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ مولانا اشرفی اس پاکستانی وفد کا حصہ ہیں جسے عنقریب پاکستان اور افغانستان کے علمائے دین کے ایک مشترکہ اجلاس میں شریک ہونا ہے جو پروگرام کے مطابق کابل میں ہوگا۔پاکستان کے متعدد علماءکرام نے اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا تھا اور تمام دنیا کے علماءکرام سے اپیل کی تھی کہ وہ بھی اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں۔

یہ واضح رہے کہ پاکستان ان دنوں خود بری طرح دہشتگردی کا شکار ہے، یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی بیرونی قوتیں کروارہی ہیں۔گزشتہ دنوں امریکا کے نامزد وزیر دفاع چک ہیگل کی2011ءکی ایک تقریر کے مندرجات منظرعام پر آنے کے بعد بھی کچھ حقیقت سامنے آئی ہے جس میں انہوں کہا ہے کہ پاکستان میں بھارت اور امریکا کی ایجنسیاں ملوث ہیں اور افغانستان ان سب کی پشت پناہی کررہا ہے۔یہ واضحہو کہ صدر حامد کرزئی کی حکومت میں ایسے بھارت نواز عناصر موجود ہیں جو کابل میں بھارتی اثرو رسوخ کو بڑھا رہے ہیں اور مغربی سرحدوںپر پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں بالواسطہ طور پر ان عناصر کو صدر کرزئی کی حمایت حاصل ہے، چیک ہیگل نے کہاتھا کہ بھارت افغانستان میں پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہاہے اور افغان محاذ کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہاہے۔ بھارت نے افغانستان کے ذریعے جو کردار ادا کیا اس میں بالواسطہ اوربلاواسطہ طور پر اسے امریکا اور افغانستان دونوں کی اعانت حاصل تھی تاہم حکومت پاکستان کو اب یہ یقینی بنانا ہے کہ افغانستان آئندہ اپنی سرزمین کو پاکستان دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال کرے نہ کسی کواسے استعمال کرنے کی اجازت دے صدر کرزئی کے رویے میں اچانک جو اتار چڑھاﺅ پیدا ہوتا ہے، یہ پاکستان کے بارے میں کابل انتظامیہ کی مبہم پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے، وزارت خارجہ کو اس سلسلے میں کابل حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کرکے مستقبل کے لیے اس سے ٹھوس ضمانت حاصل کرنی چاہیے افغانستان کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت تمام معاملات کو اس امر سے مشروط کیا جانا چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین آئندہ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کی جائے ، حالانکہ افغان صدر حامد کرزئی پاکستان کے خلاف تو بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن افغانستان سے ہونے والی پاکستان کے خلاف دہشتگردی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

امن کے لیے قائم امریکا کے انسٹی ٹیوٹ برائے جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار معید یوسف کا کہنا تھا کہ ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کس حد تک حساس نوعیت کے ہیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کس قدر بے اعتمادی کی فضا قائم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مذہبی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کو اس لیے اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ا ن کے اثرورسوخ سے افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کی واپسی میں مدد مل سکتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.