بزرگوں سے سنتے چلے آئے ہیں کہ
بات سے بات پیدا ہوتی ہے ، اور بات سے ہی بات بڑھتی ہے۔ آج کل قوم کا حال
تو جوتیوں میں دال بٹنے جیسا ہو چکا ہے۔ ” جوتیوں میں دال بٹنے “ کا محاورہ
تو آپ سب نے سن رکھا ہوگا لیکن مطلب سمجھنے میں دیر لگی کہ آخر اس کے معنی
کیا ہوتے ہیں لیکن جب شعور کی سرحدوں میں قدم رنجا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس
کے معنی یہ ہیں۔ یہ مثال رقم کرنے کی ضرورت یوں درپیش ہوئی کہ آج کل قوم کے
جو حالات ہم سب دیکھ رہے ہیں مذکورہ مثال دیگر امثال کی بنسبت صد فیصد صادق
آتی ہے۔ آج ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے بری الذمہ ہونے کی مکمل کوشش
کر رہے ہیں جبکہ اس وقت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلا کر قومیں دنیا بھر میں
اپنی یک جہتی اور بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے
کے لئے سڑکوں پر نکل کر حکومت کو مجبور کر رہی ہیں اور ہم ہیں کہ سڑکوں پر
نکلتے بھی ہیں تو کئی کئی حصوں میں بٹ کر حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیتے
ہیں کہ ہم متحد نہیں ہیں ۔ یوں صاحبانِ اقتدار ہماری کمزوری کو اچھی طرح
سمجھ لیتے ہیں جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹھیک ہے اختلافات کہاں نہیں ہوتے
ہیں ، گھر گھر میں اختلاف ہوتا ہے ، بھائی بھائی میں نظریاتی اختلا ف ہوتا
ہے مگر ہم نے ہمیشہ اختلاف کو اختلاف کی نظر سے ہی دیکھا ہے۔ لیکن جب عزت،
امن و امان داﺅ پر لگنے کا وقت آتا ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اب وہ
حالات نہیں رہے ، اب انسان آسمان پر اپنی کمند ڈال چکا ہے۔ اب پرانے قصے
اور نفرت کی دیوار منہدم کرکے دل کے آنگن کو کشادہ کرنے کا وقت ہے ۔
اب ان پرانی عمارتوں کے قصیدے لکھنے سے کیا فائدہ
نئے چراغوں کو حوصلہ دو کہ وقت کروٹ بدل رہا ہے
ابھی کل ہی دیکھیں کہ کراچی میں کس قدر تباہی اور کس قدر انسانی جانوں کا
خونِ ناحق بہا دیا گیا۔ ہر طرف تباہی کی داستان ہے ، جیتے جاگتے لوگ موت کے
منہ میں چلے گئے ، آج بھی ملبے تلے دبے لوگوں کے لاشے نکالے جا رہے ہیں۔ جب
ہمارا دین ایک ہے، مذہب ایک ہے ، اسلام کے ناطے ہم سب بھائی بھائی ہیں تو
پھر کیوں ہم ایک نہیں ہوتے۔ فرقے میں کیوں بٹے ہوئے ہیں، ہم سب یہ کیوں
نہیں سوچتے کہ پانچ انگلیاں جب الگ الگ ہوں تو ان میں طاقت نہیں رہتی مگر
جب یہی پانچ انگلیاں مل کر مکّا بن جائیں تو اس میں طاقت آ جاتی ہے۔ ہر
ترقی یافتہ ملک آسودہ ہے اور ہم ترقی پذیر ہوکر بھی بجائے ترقی کی جانب
جانے کے بجائے پستی کی طرف ڈھکیلے جا رہے ہیں۔ دینِ محمدی کے چراغ کو روشن
رکھنے میں اسلامی تاریخ پاکستان کا ایک اہم باب تصور کیا جاتا ہے مگر ہم نے
کبھی اس باب کو کھول کر پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کہ شاید!
ایک زمانے میں بہت مقبول سیاسی نعرہ تھا، مانگ رہا ہے پاکستان، روٹی، کپڑا
اور مکان۔ دیکھنا یہ ہے کہ شہرِ اقتدار کے ارباب نے اس کا جواب کس طرح دیا۔
عالمی بینک اور دوسرے مخالف ملکوں سے قرض لیکر معیشت کا بٹھا بیٹھا دیا
گیا، اور عوام روٹی کو آج بھی ترس رہی ہے۔ ترقی کے نام پر بے شمار پروپوزل
پر کام ہوا اور اس پر بھی امداد و قرض لیا گیا کہ مگر ترقی آج بھی یہاں
ناپید ہے۔ ملک کے کاروبار ی حلقوں کو تہس نہس کرنے میں بھی کوئی نہ کوئی
ہاتھ کارفرما ہے جس کی وجہ سے بیروزگاری کی انتہا ہو چکی ہے۔ خود کشی اسلام
میں حرام ہے مگر پھر بھی ہمارے یہاں خودکشیاں کی جاتی ہیں اور اس کی اصل
وجہ بھی بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ شریف النفس لوگ اپنی عزت خود کشیاں
کرکے بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ بگڑے ہوئے لوگ اسلحہ اٹھانے پر مجبور
ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے امن و امان خطرے میں پڑتی ہے۔
تاریخ پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ جب بھی کوئی انقلاب
لانا ہویاکوئی تحریک چلانی ہو تو اس کی ذمہ داری کسی نہ کسی ایک کے سر پر
تو ڈالی ہی جاتی ہے تبھی تو تحریک کامیابی کے زینے تک قدم رنجا کرتی ہے اور
اس میں مذہب ذات فرقہ مسلک کی کوئی قید نہیں ہوتی اگر ہم اسی نقطہ کو
دیکھیں کہ یہ تو فلاں مسلک یا فلاں گروپ سے تعلق رکھتا ہے تو نہ کوئی تحریک
کامیاب ہوگی اور نہ کوئی انقلاب آئے گاکیوں کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مذہب
یا مسلک ضرور ہوتاہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں
ہوتا بالکل غلط کہتے ہیں میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ جو دہشت گردی کے
الزام میں پکڑے جاتے ہیں وہ چاہے کراچی دھماکہ ہو یا کوئٹہ دھماکہ یا پھر
ملک بھر میں کہیں بھی دھماکے میں ملوث ہوںیا پھر نشانہ وار قتل کے ذمہ دار
ہوں ان کا تعلق کسی نہ کسی تنظیم یا مسلک سے ضرور ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ناک
امر یہ ہے کہ آج پڑھے لکھے لوگ دانشور، مفکر، فاضل سبھی کا یہی کہنا ہے کہ
دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ۔سوال یہ ہے کہ قیادت آسمان سے تو نہیں اُترے
گی کیوں کہ یہ سلسلہ تو چودہ سو برس پہلے قدرت نے بند کر دیا اب تو قیادت
زمین سے ہی اُگے گی وہ بھی ہم اور آپ میں سے کوئی نہ کوئی آگے آئے گا تبھی
زندگی کا کارواں آگے بڑھے گا۔ ہمارے ملک میں بھی ایسی پارٹیاں اور تنظیم
موجود ہیں جن میں قیادت کا فقدان نہیں ہے تقاضہ وقت یہ ہے کہ ہم سب کو گہری
نظر کی ضرورت ہے ، بقول شاعر :
تم آﺅ بزمِ ادب میں تو اس طرح آﺅ
کہ تم سے سارے چراغوں میں روشنی ہو جائے
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کہ گذشتہ کئی مہینے سے کتنے احتجاجی مظاہرے ہوئے،
نہیں! اتنے ہوئے کہ انگلیوں میں شمار کرنا ممکن نہیں، آخر حکومت کے ایوان
سے ہماری آواز کیوں نہیں ٹکرائی؟ حکومت کے کانوں میں جوں کیوں نہیں رینگی
کیوں ہماری آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ گئی؟ کسی صاحب کا فرمان ہے کہ آخر ہم
کب تک ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے اپنے کو بری الذمہ سمجھتے رہیں گے۔
کب تک خاموشی کو مصلحت پسندی میں تولتے رہیں گے۔ کب تک بیان بازی کی سیاست
کرتے رہیں گے، کب تک ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے ، آخر ہم کب ہوش کے
ناخن لیں گے۔ کب تک ملک کے تمام لوگ ٹولیوں میں بٹے رہیں گے؟ کب تک ہر شخص
ڈیڑھ انچ کی مسجد بناتا رہے گا؟ کب تک ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ایوانوں کو
خط لکھتے رہیں گے۔ کب تک قوم کے نام پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہیں گے؟
حالات کی درستگی اور امن و امان کے لئے اب اے سی روم کو خیر باد کہنا ہی
پڑے گا اور گردشِ زمانہ کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ وقت کی ضرورت
یہ ہے کہ آپسی نظریات کو فراموش کرکے چند روزہ زندگی کو دوسرے کے لئے وقف
کر دیں۔ کیوں کہ یہی زندگی کا مقصد بھی ہے ۔
بحر حال آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپس میں متحد ہوں اور قوم کی خدمت
کرنے کے لئے کمربستہ ہوں ، منصوبہ بندی کے تحت لائحہ عمل تیار کرکے کام
کریں کیوں کہ جو اس دنیا کا مالک ہے وہی دوسری دنیا کا بھی مالک ہے ۔ اس
لئے اتحاد قت کی اہم ضرورت ہے ۔ کلامِ آخر بس اتنا ہی کہ:
” زیادہ دیر تک مُردے کبھی رکھے نہیں جاتے۔“ |