وطن عزیز میں آج کل انتخابات کا
موسم چل رہا اور سدا کی طرح سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر
لوگ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے اور سیاسی جماعتیں
ایک دوسری کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہیں ۔اب دیکھتے ہیں
کہ کون سی پارٹی اہل نمائندوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہے ۔لیکن افسوس کہ
سیاست دانوں نے کبھی بھی عوام کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں کیا جبکہ طاقت کا
سرچشمہ عوام ہیں ۔سیاست دانوں کی نظر میں عوام کی کوئی اوقات نہیں اس لیے
وہ سیاسی موسم بدلنیں کے ساتھ ہی چڑھتے سورج کو سلام کرنے اور اپنے ذاتی
مفادات باآسانی حاصل کرنے کے لیے ایک سے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار
کرتے ہیںاور بے وقوف عوام پھر بھی ذات برادری اور امیر آدمی کوووٹ دیتے ہیں
۔عوام ووٹ دینے سے پہلے نمائندے کی اہلیت نہیں بلکہ تعلق دیکھتے ہیں ۔اکثرلوگ
کہتے ہیں اُس اُمیدوار نے گاڑی روک کر مجھے سلام کیا تھایا وہ میرے کزن کا
واقف ہے اس لیے میں ووٹ دوں گا۔عوام کو اس بات کااندازہ ہی نہیں کہ ان کے
ووٹ سے منتخب ہوکرجو شخص حکومتی مشین کاپرزہ بننے جارہا ہے اُس میں ایسی
کوئی قابلیت نہیں جو اُسے ووٹ جیسی قیمتی دولت سے نوازا جائے اور ملک و قوم
کا حال و مستقبل اُس کے حوالے کر کے پانچ سال کے لیے پاک سرزمین اور اُس پہ
بسنے والے 18سے20کروڑمعصوم انسانوں کو ایسے نااہل لوگوں کے رحم وکرم پر
چھوڑ دیا جائے۔گزشتہ کچھ ہفتوں یا مہینوں سے پاکستان مسلم لیگ ن عوامی
حلقوں میں باقی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کافی زیادہ مقبول ہورہی لیکن
مجھے نہیں لگتا کہ اس میں مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کا کوئی کمال ہے ۔میری نظر
میں عوام کے پاس اور کوئی بہتر چوائس نہیں ہے ۔ میاں نوازشریف اس بار بھی
ماضی کی طرح عوام کی بجائے چھوٹی سیاسی جماعتوں ،سرمایہ داروں،وڈیروں اور
جاگیرداروں کو اپنے ساتھ ملا رہے ۔شاید اس لیے کہ انھیں عام انتخابات میں
اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اُمیداروں کی ضرورت ہے ۔ایسے
مضبوط اُمیدوارجو الیکشن جیتنے کے لیے کثیر رقم خرچ کرسکیں ۔ماضی میں ہونے
والے عام انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو پتا چلتا ہے کہ عوام نے اُسے ووٹ
دیا جس نے زیادہ خرچہ کیا یا سیدھے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس نے
اپنی الیکشن کمپین کے دوران اچھا کھانا کھلایا اور چائے پلائی ،دیہی علاقوں
میں اکثر لوگ ذکر کرتے ہیں کہ فلاں ایم این اے یا ایم پی اے نے چوبیس گھنٹے
اپنے انتخابی دفتروں میں کھانے پینے کی کمی نہیں ہونے دی اور فلاں نے تو
پانی بھی نہیں پلایا اسی لیے تو لوگوں نے اُسے ووٹ نہیں دیا اور وہ بری طرح
الیکشن ہار گیا تھا ۔ووٹر کو کون بتائے کہ جو تجھے کھلایا ،پلایا گیا وہ
تمہارا ہی تھا گھر سے کسی نے کچھ نہیں کھلایا۔یہ بات سمجھنا ذرہ بھی مشکل
نہیں تھورا ساغور کریں تو پتا چلتا ہے کہ الیکشن میں زیادہ خرچہ کرنے والے
اُمیدوار کا سارا خاندان قبضہ گروپ نکلے گااور جو لوگ کھانا کھا کر ووٹ
دیتے ہیں اُن میں سے اکثر کے گھر ،کھیت پر اُسی کے خاندان کے کسی فردکا
قبضہ بدستور جاری ہوگا ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عوام کو اس بات کا
شعور نہیں کہ کون ان کے قیمتی ووٹ کا اہل ہے کون نہیں اور اُس بھی زیادہ
افسوس کہ ہمارے قائدین باشعور ہونے کے باوجود اپنی جیت کو یقینی بنانے کے
لیے ایسے ہی لوگوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتے ہیں جوزیادہ سے زیادہ پارٹی فنڈ
میں حصہ ڈالیں ،الیکشن کمپین پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرسکیں اور اپنے لیڈر
کے ہر فیصلے کو بغیر سوچے سمجھے نہ صرف تسلیم کرے بلکہ اپنے حلقے کے عوام
کا تحفظ بھی فراہم کرے ۔سرمائے کے اس الیکشن کھیل میں ایسے لوگ منتخب ہوکر
اعلیٰ ایوانوں میںپہنچ جاتے ہیں جو چار لوگوں کے خاندان کو لے کرچلنے کی
اہلیت نہیں رکھتے اور پھر جو حال ملک و قوم کاہوتا ہے آپ کے سامنے ہے۔کاش
کہ میرے وطن کے عوام کو یہ علم ہوجاے کہ اُن کا ووٹ کس قدر قیمتی ہے اور وہ
اپنے مستقبل کو گندھے گٹر میں ڈالنے کی بجائے ایسے لوگوں کو دیں جو اُس کے
اہل ہیں۔اللہ کرے کہ ہمارے لیڈر ایسے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیں جو ملک قوم کے
ساتھ مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بھی ہوں۔میرا پاکستانی عوام اورسیاسی
قائدین سے سوال ہے کہ کیا ہم نے اپنے شرم ناک سیاسی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا
جو آج پھر اُنہیں سیاسی چوروں ،بھگوڑوں ،لوٹوں اور لفافوں کو منتخب کرنے
جارہے ہیں؟اور میاں نواز شریف جو نوجوانوں کوآگے لانے کی بات کر رہے
میرااُن سے سوال ہے کہ کیا اُن نوجوانوں کا تعلق پرانے سیاسی ،جاگیردار،وڈیرہ
یا سرمایہ دار خاندانوںسے تونہیں ہوگا؟اگرمیاں محمد نوازشریف ایسے نوجوانوں
کو آگے لانے کی بات کررہے ہیں جن کے خاندان کا ماضی میں کرپشن اور لوٹ مار
سے پاک ہے تو پھر میں سب سے پہلے میاں محمد نوازشریف اور پاکستانی قوم
کومبارک باد پیش کرتا ہوں۔ |