شہر متحدہ کے ہاتھوں سے نکلتا
جارہا ہے۔ اور متحدہ کے رہنما اب اس شہر پر قبضہ برقرار رکھنے کی ناکام
کوششوں میں مصروف ہیں۔ بہت پہلے ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اب متحدہ آئندہ
انتخابات ایک بار پھر مہاجر کے نام پر لے گی اور اب یہ بات سچ ثابت ہوتی
دکھائی دے رہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ جو کہ جنرل پریز مشرف کے دور سے لے کر
پی پی پی کی موجودہ حکومت کے ساتھ چار سال اور گیارہ ماہ تک شامل رہی ہے،
اب حکومت کی مدت ختم ہونے سے صرف ایک ماہ قبل متحدہ کے رہنماؤں پر یہ
انکشاف ہوا کہ چار سال گیارہ ماہ اور چند دن تک ان کو کچھ ملا ہی نہیں ہے
اور وہ تو بس پی پی پی حکومت کا شاملِ باجا تھے۔یہ انکشاف ہونے کے بعد
انہوں نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ دراصل یہ اعلان اہلیان پاکستان
اور بالخصوص کراچی، حیدرآباد اور سکھر وغیرہ کے عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کے لیے کیا گیا تھا کہ اس طرح ایک ماہ حکومت سے باہر رہ کر ایک طرف
تو مظلومیت کا ڈرامہ رچایا جائے گا دوسری جانب سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں
اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ کر اور وہاں اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کرکے نگران
حکومت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے۔
حکومت سے علیحدگی کے لیے پیپلز امن کمیٹی کے رہنماؤں پر قائم مقدمات کی
واپسی کو جواز بنایا گیا ہے ، متحدہ نے تو الگ ہونا ہی تھا اگر اس معاملے
پر نہ ہوتی تو کسی اور معاملے کو جواز بنادیا جاتا۔ حکومت سے الگ ہونے کے
بعد سے متحدہ نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے گذشتہ
پانچ سالوں میں ہونے والی ہر تخریب کاری، عوام دشمن پالیسی، ناکام خارجہ
پالیسی وغیر ہ کو پی پی پی کے کھاتے میں ڈالنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس
کے ساتھ ساتھ متحدہ نے شہر بد امنی پھیلانے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں۔
کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کے بعد جب شیعہ برادری نے احتجاجی دھرنوں کا
پروگرام بنایا تو متحدہ نے پوری کوشش کی کہ ہزارہ برادری اور حکومت کے
درمیان مذاکرات ناکام ہوجائیں، لیکن شو مئی قسمت کہ ایسا نہیں ہوا اور
ہزارہ برادری نے اپنے مطالبات کی منظوری کے بعد دھرنوں کو ختم کرنے کا
اعلان کردیا۔ یہ اعلان متحدہ کے پروگرام کے خلاف تھا اس لیے متحدہ نے دھرنے
ختم کرنے کے واضح اعلان کے باجود کوشش کی کہ کراچی اور حیدر آباد میں دھرنے
جاری رہیں لیکن مجلس وحدت المسلمین اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ
متحدہ کو شیعہ یا سنی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ صرف اور صرف اپنے
مفادات کے لیے شیعہ برادری کو استعمال کررہی ہے اس لیے انھوں نے دھرنے ختم
کرنے کے حوالے سے الطاف حسین کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس کے
ساتھ ساتھ ابھی تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق مجلس وحدت المسلمین نے
انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
دراصل یہ اعلان متحدہ کے لیے بہت پریشان کن ہے کیوں کہ متحدہ کے ووٹرز میں
اکثریت شیعہ برادری کی ہے اور جب سیاست اور مسلک میں سے کسی ایک کو ووٹ
دینے کا معاملہ ہوگا تو لامحالہ شیعہ برادری کا ووٹ مجلس وحد ت المسلمین کے
حق میں ہوگا ۔ایک جانب متحدہ قیادت ان کے اعلان سے خائف ہے دوسری جانب
متحدہ ماضی میں پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی سے جھگرا مول چکی ہے، ہر قومیت
سے لڑائی کر چکی ہے اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آئندہ انتخابات
میں وہ کسی بڑی پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد قائم کرسکے
البتہ عمران خان کی تحریک انصاف پی پی پی اور نواز لیگ کے مقابلے میں متحدہ
کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اس لئے تحریک انصاف کے متعلق فی الوقت کوئی پیش
گوئی نہیں کی جاسکتی کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس طرف جائے گی ۔ اس کے ساتھ
ساتھ گذشتہ دنوں متحدہ اور اے این پی میں رابطہ ہوا ہے عین ممکن ہے کہ یہ
دونوں پارٹیاں کراچی میں ایک دو مقامات پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیں۔(یہ بھی
ممکن ہے کہ پی پی پی اور متحدہ ایک بار پھر آپس میں اتحاد کرلیں)۔دوسری
جانب جماعت اسلامی نے اس بار کسی اتحاد کا حصہ بننے کے بجائے اپنے نام اور
انتخابی نشان (میزان ) سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔جماعت
اسلامی نے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط کرتے ہوئے اپنی
انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے، جماعت اسلامی کسی بھی صورت متحدہ سے اتحاد
نہیں کرسکتی ، ہاں جماعت اسلامی اور ن لیگ اور جماعت اسلامی اور تحریک
انصاف کا آپس میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا امکان موجود ہے۔
اس کے علاوہ ن لیگ کے میاں نواز شریف نے بھی اپنی انتخابی مہم کا آغاز
کردیا ہے اور انھوں نے سندھ کو ہدف بنا کر کئی مقامات میں جلسے اور
اجتماعات سے خطاب کیا ہے۔ ن لیگ کو موجودہ حکومت کی ناکام کارکردگی کے باعث
ووٹ ملے گا اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پی پی پی یا متحدہ سے کہیں سیٹ
ایڈ جسٹمنٹ کرسکے۔مولانا فضل الرحمان صاحب نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے
انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا صاحب کی بڑی کوششوں کے
باجود اس دفعہ جماعت اسلامی بغیر کسی تحریری معاہدے اور واضح اصولوں کے
بغیر اس اتحاد کا حصہ نہیں بنی ہے۔ جماعت اسلامی کی غیر موجودگی میں ایم
ایم اے کو ماضی میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جب کہ گذشتہ انتخابات میں
جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا لیکن اس دفعہ جماعت اسلامی اپنے نام کے
ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہے تو یہ بات مولانا صاحب کے لیے پریشانی
کا باعث ہے۔ ممکن ہے کہ اگلے چند دنوں میں جماعت اسلامی اور ایم ایم اے میں
سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا کوئی معاہدہ ہوجائے کیوں کہ کہ سندھ اور پنجاب میں
مولانا صاحب جماعت اسلامی کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کرسکتے بصورتِ
دیگر اگر جماعت اسلامی اور ایم ایم اے مد مقابل ہوتی ہیں تو دونوں کو نقصان
پہنچے گا۔
یہ ساری صورتحال ایک طرف ہے اور نئی حلقہ بندیوں کا شور، ووٹر لسٹوں کی
درستگی وغیرہ کا معاملہ اپنی جگہ ہے جب کہ شنید ہے کہ آئندہ انتخابات فوج
کی نگرانی میں کرائے جانے کا امکان ہے ۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ چیز متحدہ
کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ اب اگر ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ
نظر آتا ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اسے توقع
سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔اور اگر وہ انتخابی عمل کا بائیکاٹ
کرتی ہے تو پھر اس کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہ جائے گا کیوں کہ
متحدہ ایک بلیک میلر پارٹی ہے جو کہ ہر صورت میں اقتدار میں رہنا چاہتی ہے
اور اقتدار میں رہنے کے لیے الیکشن میں حصہ لینا ضروری ہے۔
اب متحدہ کی یہ کوشش ہوگی کہ جب تک کہیں سے کوئی واضح اشارہ اور یقین دہانی
نہ ہو جائے اس وقت تک انتخابی عمل کو موخر کردیا جائے ، انتخابی عمل کو
موخر کرنے کے لیے متحدہ کراچی اور سندھ بھر میں دہشت گردی اور بد امنی
پھیلانے کی پوری کوشش کرے گی اور اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ سندہ بالخصوص کراچی
اور حیدر آباد کے بد امنی کی نئی لہر کے لیے تیار ہوجائیں۔ |