پتھر کا دور

9/11کے بعد پتھر کے دور سے بچنے کے لیے اتنے جتن کرنے کے باوجود بھی ہم پتھر کے دور میں پہنچ ہی گئے بلکہ شاید اس سے بھی آگے نکل گئے،حکومتوں کی نا اہلی اور ناقص پا لیسیوں کی پاداش میں پوری قوم قربانی کا بکرا بنی ہوئی ہے،اغیار کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر بغیر سوچے سمجھے اس میں کود پڑنے کے بسبب آج ہم سب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں،حکمرانوں کا کیا ہے، وہ توخود بھی اور اپنی نسلوں کے لیے بھی اس جنگ کے عوض محفوظ پناہ گاہیں لے چکے ہیں،غربت،مہنگائی ،بے روز گاری،دہشت گردی یہ عوام کا حصہ ہے،دہشت گردی ا ور فرقہ واریت کے عفریت نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے،قاتل کون ہے کسی کو نہیں پتہ،خود کش حملہ آورصرف اپنا سر چھو ڑتا ہے اور بعد میں وہ سر بھی غائب ہوجاتا ہے، ایک ہی وقت میں سو، سو لاشیں گرنے کے باجود بڑے اطمینان سے ارباب ِاقتدار ارشاد فرماتے ہیں کہ جتنا کام ہمارے پانچ سالہ دور میں ہوا آج تک کسی نے نہیں کیا،دشمن ایک تیر سے دو شکار کر رہا ہے ایک طرف ہزارہ کمیونٹی پر حملہ ہوتا ہے تودوسری طرف حکومت اپنی نااہلی اورناکامیوں کو چھپانے کے لیے اہل سنت کے کارکنوں اندھا دھند گرفتار کر لیتی ہے ،پتہ نہیں حکومت یہ ادراک کرنے سے کیوں قاصر ہے کہ بلاجواز گرفتاریوں سے امن امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جا رہا ہے ، پر امن افراد کو ناجائز راستے پر ڈال دیا جاتا ہے،کوئی ذی شعور انسان بےگناہ انسانوں کے قتل عام کی حمایت نہیں کرتا ،اختلافات کا سلسلہ اپنی جگہ درست ہے اور یہ سلسلہ تو چلتا رہے گا مگر اختلافات کی آڑ میں کبھی حد سے زیادہ نہیں گزرنا چاہیے،اہل سنت واہل تشیع کی قیادت اس قتل وغارت سے برات کا اظہار کر رہی ہے،تیسری قوت کاکوئی نام لینے کو تیار نہیں ،جس مسلک کے لوگوں پر حملہ ہوتا ہے بغیر سوچے سمجھے مخالف فریق پر شامت آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مزید بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، الیکشن جتنے قریب آ رہے ہیں فرقہ واریت کو اتنا زیادہ ہوا دی جا رہی ہے، شیعہ سنی اختلافات کی آڑ میں غیر ملکی ایجنسیاں پوری قوت سے دخل اندازی کر رہی ہیں۔ان تمام صوتحال میں ہماری سیاسی جماعتوں میں موجود باشعور افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ان سازشوں پر نگاہ رکھنا ہوگی،دینی ومذہبی جماعتوں کو بھی اپنا لائحہ عمل واضح کرنا ہو گا،میڈیا کو غیر جانب داری دیکھانا ہو گی ،ورنہ دشمن ہماری صفوں کے بیچ تو پہنچ ہی چکا ہے پھر وہ جب چاہے گا ہما را تماشہ بآسانی دیکھ سکے گا۔پہلے ہی عالم ِاسلام ایک تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہا ہے اورامت مسلمہ گردش ایام کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے،سیاسی دھوکوں اور مکروفریب کا سامنا ہے ،اہل علم ،مذہبی طبقہ اور عوام کو بلاتفریق مارا جا رہا ہے، آئے روز ہونے والے واقعات انتہائی بھیانک اور خوفناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جال بچھایا جا رہا ہے۔علماءکو بیدردی سے شہید کیا جا رہا ہے،کوئی پرسان حال نہیں۔

ابھی حال ہی میں امن و امان کی بہتری کے لیے طالبان کی طرف سے امن مذاکرت کی دعوت ایک خوش آئیندہ عمل ہے، ا س حوالے سے مولانا فضل الرحمان صاحب نے جس جدوجہد کے ساتھ اے پی سی کا اجلاس بلایا ہے یقیناَََ وہ قابل تحسین ہے،مولانا ایک زیرک اور درد دل رکھنے والے سیاست دانوں میں سر فہرست ہیں امن وامان کے حوالے سے یقینا ان کی یہ کوشش رنگ لائے گی ،ہر محب وطن انسان نے اس جدوجہد کو سراہا ہے،اور یہ طالبان سے مذاکرات کی دعوت اس وقت سامنے ٓائی ہے جب امریکہ اپنی شکست سے دوچارہو کر افغان طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا ہے،اورہمیں اس مذاکرات سے روکا جا رہا ہے،جب کہ اس مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہی ہیں،طاقت کا استعمال پچھلے دس برسوں سے سب نے دیکھ لیا ہے، کتنی جانوں کا ضیاع ہوا،ہزاروں کی تعداد میں لوگ دربدر ہوئے ،دونوں اطراف سے جو جانی ومالی نقصان ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،جبکہ اس کا سرا سر فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کے باوجود بھی پوری دنیا میں ہم پر دہشت گردی کا لیبل اور مضبو ط ہوا ہے ، امریکہ کے کہنے پر ہم اپنے مسلمانوں کے ساتھ جو کرسکتے تھے کیا ،چن چن کر ان کے حوالے کیا ،لاشوں کے ڈھیر لگا دیے ،پورے ملک کوداؤ پر لگا دیا ، اسکے باوجو اور زےادہ مشکوک ہوتے جا رہے ہیں، پتہ نہیں دشمن اورکروانا کیا چاہتے ہیں ،قرآن کریم نے کیا ہی جامع مانع انداز میں بہت پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ولن ترضیٰ عنک الیہودولاالنصاریٰ حتیٰ تتبع ملّتَھم ”کہ یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی بھی راضی نہیں ہونگے یہاں تک کہ آپ ان کے دین کو اختیار نہ کر لیں،ایک اور جگہ فرمایا کہ یہود ونصاریٰ آپ کے دوست بن ہی نہیں سکتے۔

اب بقول سلیم صافی صاحب کے کہ مذاکرات کی دعوت اِتمام حجت اور آخری موقع ہے جس کے ذریعے ہم امن وامان کی صورتحال یقینا بہتر بنا سکتے ہیں۔اس سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھانا ہو گا۔ اسوقت مزید دہشت گردی کے متحمل نہیں ہو سکتے ،اب جب کہ تقریبا تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے مذاکرات کی تائید کر دی ہے تو حکومت کو بلا تاخیر اس میں کردار ادا کرنا چاہیے،اس معاہدے کورکوانے کے لیے ابھی سے وہ قوتیں سر گرم ہو چکی ہیں جنہوں نے سوات امن معاہدہ کو سپوز تاژ کر کے حالات کا رخ بد امنی کی طرف موڑ دیا تھا،کوئی ڈرپوک ہونے کے طعنے دے رہا ،کوئی اسے بزدلی سے تعبیر کر رہا ہے،تو کوئی پرانے مردے اکھاڑنے پر مصر ہے ،نقصان تو دونوں طرف سے ہوا ہے ،اگر انھوں نے حکومتی رٹ چیلنج کی ہے تو کمی یہا ں سے بھی نہیں ہوئی ہم نے تو خود بھی مارا اور اغیار سے بھی ڈرون کروائے۔اب ہمیں یہ امن مذاکرات کامیاب بنانے ہونگے،یہی اب اس مسئلے کا واحد حل ہے۔
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 65468 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.