سانحہ در سانحہ، آخر اس کا حل کیا ہے؟

کیا پاکستانیوں کی قسمت میں صرف اپنوں کی لاشیں اٹھانا اور ان کے نوحے کرنا اور لکھنا ہی رہ گیا ہے ویسے تو جب سے امریکہ نے افغانستان میں war on terrorکے نام پر اپنے مفادات کی جنگ شروع کی ہے اس وقت سے ہی پاکستان سے امن کی فاختہ اڑ گئی ہے اوراس کی تمام تر ذمہ داری ملکی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سر پر ڈالی جاتی رہی ہے جو کہ درست بھی ہے کہ جس طرح یہ بزدل کمانڈو امریکہ کے ایک اشارے پر اپنے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے خلاف امریکی صفوں میں جاکھڑا ہوا اس فیصلے نے پاکستان کی بنیادیں ہلادیں لیکن افسوس تو اس پر ہے کہ وہ تو ایک ڈکٹیٹر تھا اور ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ ہی ملک کو نقصان پہنچایا ہے سوال تو یہ ہے کہ پرویزمشرف کے جانے کے بعد برسراقتدار آنیوالی جمہوری حکومت کیوں امریکہ کی دم چھلا بنی رہی اور اس نے پرویزی دور کی پالیسیوں کو ہی جاری کیوں رکھا ؟ بقول شاعر
ع دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

آج صورت حال یہ ہے کہ ابھی ایک سانحے کا غم ہی قوم نہیں بھلا پاتی کہ کوئی نیا زخم قوم کے سینے پر مونگ دلنے لگ جاتا ہے پچھلے پانچ سال میں جو کشت و خون بہا اس کو تو رکھیے ایک طرف صرف 2013ءکے بعد کے ہی حالات کا جائزہ لیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے جب 10جنوری اور18فروری کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر مسلسل دوبار انتہائی بھیانک حملے کئے گئے اور اس کے جواب میں ان کی جانب سے ہونیوالے لاشوں کے ساتھ احتجاج ہونے والے منفرد احتجاج نے پوری دنیا میں ہمیں رسوا کیا اور اب تین مارچ کو کراچی کے عباس ٹاؤن میں ایک بارپھر اسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا جس میں 50سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اس درندگی اور سفاکی پر تمام سیاسی جماعتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سرجوڑ کر بیٹھتیں اور ان عناصر کی نشاندہی کرتیں جو اس مکروہ وارداتوں میں ملوث ہیں جبکہ افسوس ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار بچانے اور اپنے لئے مراعات و سہولیات حاصل کرنے کیلئے قانون سازی کے سوا کبھی بھی ایک میز پر اکٹھی نہیں ہوتیں سو اس بار بھی یہی ہورہا ہے اور وفاق و پنجاب ایک دوسرے کے خلاف الزام بازی اور پوائنٹ سکورنگ کرنے میں مصروف ہیں ان الزامات کا محور و مرکز کالعدم لشکر جھنگوی ہے اور وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک جن کی حیثیت اب وزیرداخلہ سے زیادہ ایک مسخرے اور مخبر کی زیادہ معلوم ہوتی ہے کو ہر وقت بونگیاں مارنے اور یہ اطلاع دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں کہ کب کہاں کیا ہونیوالا ہے ؟ کبھی انہیں ان وارداتوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ صاف نظرآرہاہوتا ہے تو کبھی طالبان و لشکر کو موردالزام ٹھہراتے ہیں لیکن ان کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ وہ ہر واردات سے پہلے اس کی اطلاع اور بعد میں اس کی تحقیقات کا حکم تو دے دیتے ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی کسی بھی سانحے میں ملوث مجرم کو میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا ۔اور اب بھی جب پوری قوم ان سانحات پر نڈھال ہے موصوف اپنی ناکامی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے پنجاب حکومت کو رگیدتے ہوئے انہیں دہشتگردوں کا سرپرست ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں جس کو غیرجانبدار سیاسی ماہرین پیپلزپارٹی کی سیاسی چال قراردے رہے ہیں حالاں کہ جس کالعدم تنظیم سے تعلقات کا طعنہ وزیرداخلہ پنجاب گورنمنٹ کو دے رہے ہیں خود اسی تنظیم سے رحمان ملک صاحب کے رابطوں کی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں ۔ماہرین کے مطابق اب جبکہ الیکشن سر پر ہیں تو پنجاب کو اس تنظیم کے خلاف کاروائی پر مجبور کرکے اس کے ووٹ بنک کو متاثر کرنا ہے جو کہ ہمیشہ ہی پیپلزپارٹی کے خلاف جاتا رہا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پنجاب حکومت دہشتگردوں کی سرپرست ہے اور نہ ہی یہ الزام وفاق پرلگایا جانا چاہئے البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان وارداتوں کے پردوں میں چھپی اس گھناؤنی سازش کو بے نقاب کیا جائے جو ملک میںایک بار پھر شیعہ سنی فسادات کروانے کی راہ ہموار کررہی ہے ۔اس خونریزی کا ایک مقصد حالیہ دنوں میں ایران کیساتھ طے پانے والا گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہوسکتا ہے جس پر پاکستان دشمن قوتیں بہت سیخ پا ہیں اور امریکہ نے تو اس پر پاکستان کو باقاعدہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ خو کو اس منصوبے سے الگ کرلے ورنہ اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں لیکن پاکستان نے اس پر دوٹوک اور ٹھوس موقف اختیارکیا ہے جو ظاہر ہے امریکہ کو گوارا نہیں کہ اس کا غلام اس سے اس لہجہ میں بات کرے ۔اس طرح عین ممکن ہے پاکستان میں دندناتے بلیک واٹر ،را اور موساد کے ایجنٹوں سے یہ کام لیا جارہا ہو تاکہ پاکستان کو اس ''گستاخی''کی سزادی جا سکے لیکن اگر اس بات کو درست نہ بھی سمجھا جائے اور بقول عبدالرحمان ملک کے لشکر جھنگوی اور طالبان کو ہی ان تمام واقعات کا ذمہ دار سمجھ لیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان اب تمام تر قوت رکھنے کے باوجود ان گروپوں سے نہیں نمٹ سکا ؟اورایک ایسے وقت میں جب امریکہ جیسا ملک اپنے مسائل کے حل کیلئے طاقت کے استعمال کی بجائے مزاکرات پرزور دے رہاہے اور خود پاکستان اپنے ازلی دشمن بھارت کیساتھ کئی معاملات پر مزاکرات کررہا ہے تو ان گروپوں کیساتھ مزاکرات کرکے اس دہشتگردی کے دیو کو قابو کیوں نہیں کیا جاتا جو آئے روز ہمارے بیشمار بھائیوں کو نگل جاتا ہے ۔لہٰذا ضرورت اس چیز کی ہے کہ وفاقی حکومت وسیع تر ملکی مفاد میںان کالعدم تنظیموں سے فوراََ پابندی ہٹا کر ان سے مزاکرات کا دروازہ کھولے ورنہ امریکہ افغانستان سے جاتے ہوئے ان گروپوں کے نام پر پاکستان میں دہشتگردی کو مزید ہوادے گا جس سے مسلکی بنیادوں پر پیدا ہونیوالے فسادات ہماری قومی سلامتی کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 90852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.