ڈینگی اور ڈینگیں

الیکشن کی آمد آمد ہے۔ اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں کارکردگی کی بنیاد پر میدان میں اتر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی میں دو چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ ایک ڈینگی کا مارنا اور دوسرا مسلسل ڈینگیں مارنا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں مسلم لیگ (ن) کی پہچان بن گئی ہیں۔ جس سال ڈینگی آیا۔ اُس سال میاں شہباز شریف اپنی ٹیم کے ہمراہ میدان میں اترے۔ مردانہ وار مقابلہ کیا۔ مگر مقابلہ برابر رہا۔ بہت سے ڈینگی مچھر بھی مارے گئے مگر انسانی ہلاکتیں بھی کافی ہوئیں۔ البتہ دوسرے سال شہباز شریف نے ناک آؤٹ کی بنیاد پر ہی مقابلہ جیت لیا۔ انہوں نے مچھروں سے مقابلے کی منصوبہ بندی اس خوبصورتی سے کی کہ مچھر اپنی کمین گاہوں سے باہر ہی نہ نکل پائے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے لڑکپن ہی میں مارے گئے۔ اور انسان اُن سے محفوظ رہے۔ اُس سال میاں صاحب کی پیش قدمی اس قدر خوبصورت تھی کہ پورا معاشرہ ڈینگی کے حوالے سے متحرک تھا۔ کسی بھی محلے میں کسی شخص کے گھر کے آس پاس کھلا پانی نظر آتا تو پورا محلہ متفکر ہو جاتا اور اُس گھر کے مکین کو دھمکی بھی مل جاتی کہ پانی اگر فوری خشک کرنے کا انتظام نہ کیا گیا تو میاں شہباز شریف کو اطلاع دے دی جائے گی جو کھڑے پانی سے ڈینگی ڈھونڈنے کے فن میں بہت طاق ہیں۔ اور اگر ڈینگی نکل آیا تو پھر تم ہو گے اور میاں شہباز شریف ۔ میاں صاحب ایسے موقعوں پر تو کمال دکھا ہی دیتے ہیں۔

خادم اعلٰی کی خادمیت کا آخری سال ہے۔ بلکہ چند آخری دن ہیں۔ چنانچہ یہ سال پوائنٹ سکورنگ کا رہا۔ اس سال پوری مسلم لیگ (ن) ڈینگی مارنے سے ہٹ کر ڈینگیں مارنے میں لگی ہوئی ہے۔ بہت سے اچھے کام بھی ہوئے۔ دانش سکولوں کا منصوبہ ہے جس کا میاں صاحب کے بعد کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ کیونکہ یہاں آنے والے لوگ منصوبے کے اچھے یا برے ہونے بارے نہیں سوچتے۔ ذاتی پسند اور ناپسند پر ہر فیصلہ کرتے ہیں۔ طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم ہوئے،روشنی کے لیے سولر سسٹم دیے گئے اور سب سے بڑھ کر لاہور میں میٹرو بس کا بہت بڑا منصوبہ مکمل ہوا۔ جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی ڈینگیں اب میٹرو بس پر سوار ہیں اور انتہائی تیز رفتاری سے لوگوں تک مسلم لیگ (ن) کا پیغام پہنچا رہی ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب تھی۔ کوئی وزیر صاحب تشریف لائے، کچھ شعبہ جات کے طلبا کو لیپ ٹاپ دیا اور مصروفیت کا کہہ کر چلے گئے۔ بقیہ شعبہ جات کو لیپ ٹاپ ویسے ہی بھیج دیئے گئے کہ بچوں کو بانٹ دیں۔ چنانچہ شعبہ جات نے حکم کے مطابق وہ لیپ ٹاپ بچوں میں بانٹ دیئے۔ انسانی فطرت بڑی عجیب ہے۔ تقریب میں کسی چیز کے ملنے کی اپنی ایک چاشنی ہے۔ ایک بچہ تقریب میں لیپ ٹاپ وصول کرتا ہے۔ اُس کے کئی دوست اُن لمحات کی تصویریں اتارتے ہیں۔ وہ لمحہ بچے کے لیے بہت یاد گار ہوتا ہے۔ اُس کی زندگی کی ذاتی تاریخ کا ایک شاندار حوالہ۔ وہ تصویریں بچے کے لیے لیپ ٹاپ سے بھی قیمتی ہوتی ہیں۔ بچوں کو لیپ ٹاپ تو مل گئے مگر تقریب نہ ہونے کے سبب وہ ان لمحوں کو یاد گار بنانے میں ناکام رہے۔ وہ اداس اداس گراﺅنڈ میں بیٹھے تھے۔ میں گھر جانے کے لیے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا کہ اُن سے ملاقات ہو گئی۔ گلا کرنے لگے کہ لیپ ٹاپ تقریب کے بغیر ہی دے دیئے گئے ہیں۔ مزا نہیں آیا۔ میں اُن کا مسئلہ سمجھتا تھا مگر کیا کہہ سکتا تھا۔ بس اُنہیں حوصلہ دیا کہ بیٹا رب العزت کا شکر کرو۔ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے آپ میں سے بہت سے لوگ اس کو خریدنے کی اسطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔ بڑی اچھی بات ہے کہ مفت مل گیا ہے۔ یقینا آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں تمہاری پڑھائی میں مدد گار ہو گا۔ تقریب کی کوئی بات نہیں ۔

بچوں سے بات چیت کرنے کے بعد میں چند قدم ہی چلا تھا کہ بچوں کو جانے کیا سوجھی ، بھاگم بھاگ میرے پاس آئے اور تھوڑی دیر ٹھہرنے کا کہا۔ میں رک گیا۔ وہ مجھے واپس ایک کلاس روم میں لے گئے۔ لیپ ٹاپ سمیت ہر ایک باری باری میرے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرے بچوں نے اُس کی تصویریں اتاریں۔ چند تصویریں گروپ کی بھی اتاری گئیں۔ اور یوں بچوں نے خود ہی ایک تقریب کا اہتمام کر لیا۔ لیپ ٹاپ کی ادھوری خوشی مکمل ہونے پر بچوں کے چہروں کی چمک دیدنی تھی۔

اگلے دن میرے ساتھ اتاری ہوئی وہ تمام تصویریں فیس بک پر لگی تھیں۔ ہر طالب علم نے اپنے نام کے حوالے سے تصویر کے نیچے لکھا تھا ”لیپ ٹاپ وصول کرتے ہوئے “۔ ارباب اختیار کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیو کے متلاشی ہوتے ہیں اور کسی خوشی میں معمولی سی کمی اُسے ادھورا کر دیتی ہے۔ وزیر نہ سہی کسی درویش کو بھیج دیں۔ تقریب ضروری نہیں کہ سب شاندار ہو۔ سادہ اور پر وقار تقریب جس میں پیسے کا ضیاع بھی نہ ہو وہی اثر رکھتی ہے۔

پنجاب میں جتنے بھی کام ہوئے۔ سبھی میا شہباز شریف کے فہم ، محنت اور کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ایک فرد واحد کی محنت کا ثمر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے وزیر ، عہدیدار اور ورکر ڈینگیں مارنے کے سوا کچھ نہیں کرتے اور شاید کر بھی نہیں سکتے۔ میاں صاحب ہر کام خود کرنے کی بجائے اگر ان تمام لوگوں کو حرکت میں لاتے۔ یہ ڈینگیں مارنے والا گروپ جو ”کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا “ کی طرح ہے ، بھی اگر کچھ کام کر جاتا تو پنجاب کی صورتحال اور بھی بہتر ہوتی۔ ڈینگیں مار مار کر لوگوں کو کاموں کے بارے میں بتانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اس لیے کہ اچھے کام کی لوگوں میں تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کام خود بولتے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500355 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More