کہتے ہیں مُقدّر خراب چل رہا ہو
تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کُتّا کاٹ لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل
پاکستان پر یہی اونٹ اور کُتّے والا زمانہ آیا ہوا ہے! کہیں سے کیسا ہی
اونٹ لے آئیے، قتل و غارت اور بد امنی کا کُتّا کاٹ ہی لیتا ہے!
کوئی اگر سمجھ سکے تو ہمیں بھی سمجھائے کہ ہم کیا ہیں اور اب کیا بننا
چاہتے ہیں۔ بنانے پر آئیں تو ایٹمی ہتھیار بنا ڈالیں اور اگر نہ بنانا
چاہیں تو چھوٹے سے نالے پر معمولی سی پُلیا بھی عشروں تک نہ بنائیں! توڑنے
پر آئیں تو آسمان پر ٹمٹماتے تارے توڑنے کی ضد کریں اور اگر طے کرلیں کہ
کسی بھی بُرائی اور خرابی کی گردن نہیں توڑنی ہے تو برسوں اُس کے ساتھ نباہ
کرتے چلے جائیں!
بات توڑنے کی چلی ہے تو خیال رہے کہ دہشت گردی کے جن کو بوتل سے نکالنے کے
بعد بوتل توڑ دی گئی ہے! جب بوتل ہی نہ رہی تو جن بھی بے فکری سے من چاہی
وارداتیں کرتا پھر رہا ہے۔ نئی بوتل کا اہتمام ہونے تک تو کوئی بھی اسے
روکنے ٹوکنے کی پوزیشن میں دِکھائی نہیں دیتا!
جن اداروں پر عوام اپنے تحفظ کے حوالے سے تکیہ کرتے ہیں اُنہیں چند شخصیات
کی حفاظت پر مامور کردیا گیا ہے۔ لیجیے، قصہ ختم ہوا۔ اب جسے اپنے جان و
دِل عزیز ہوں وہ اُس کی گلی میں جائے کیوں؟ یعنی اپنی گلی تک محدود رہے۔ ہر
قدم پُھونک کر اُٹھائے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ گھر سے نکلتے وقت کئی
دُعائیں پڑھ کر اپنے آپ پر دَم کرتے کہ حکومتی نا اہلی سے محفوظ رہیں!
مگر یہ کل کی بات ہے۔ کل تک لوگ سڑکوں پر سفر کے دوران اور گلیوں میں چلتے
ہوئے خوف زدہ رہا کرتے تھے، اب تو گھر میں محفوظ نہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے
لوگوں کو گولی نہیں ماری جاسکتی تو کیا ہوا؟ بم دھماکوں کی نذر کرنے میں
کون مانع ہوسکتا ہے؟
جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں نے شاید تہیہ کرلیا ہے کہ حالات کو
اُس نہج تک جانے دینا ہے کہ لوگ خود ہی کہیں کہ اُنہیں اُن کے ووٹوں سے
بننے والی کوئی حکومت نہیں چاہیے! ایک طرف دہشت گردی نقطہ عروج پر ہے اور
دوسری طرف ”مُنہ کی کھانے والے“ وفاقی وزیر داخلہ نے قوم کے زخموں پر بوری
بھر کر نمک چھڑکنے کی ایک اور کوشش فرمائی ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ دہشت
گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے! کوئی وضاحت چاہے تو کہتے ہیں کہ پے در پے
اقدامات (!) نے طالبان کو کونوں کُھدروں میں دُبکنے اور مُنہ چھپانے پر
مجبور کردیا ہے! اگر پوچھا جائے کہ طالبان کی کمر توڑی جاچکی ہے تو پھر یہ
سب کیا ہے جو ہو رہا ہے تو جواب ملتا ہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے کارکنان
حالات خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں!
آپ سوچیں گے یہ لشکر جھنگوی اچانک کہاں سے آگیا؟ ہماری دُور اندیش جمہوری
حکومتیں بعض پوٹلے سنبھال کر رکھتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کھول کر سیاسی
کے فٹ پاتھ پر نئے پتھارے لگائے جاسکیں! کالعدم لشکر جھنگوی کا پوٹلا سیاسی
اسٹور سے نکالا گیا ہے کہ جھاڑ پونچھ کر کھولا جائے اور جو کچھ کہیں اور نہ
ڈالا جاسکتا ہو اِس میں سے برآمد کرلیا جائے! لشکر جھنگوی کا گڑا مُردہ
اکھاڑ کر دو فائدے بٹورنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو پنجاب حکومت پر
دباؤ ڈالنا مقصود ہے کہ وہ نام نہاد فہرست مل جانے پر بھی دہشت گردوں کے
خلاف کچھ نہیں کر رہی۔ اور دوسری طرف شیعوں اور سُنّیوں کو ”قریب“ لانا ہے!
ملک بھر میں شیعہ، سُنّی دونوں مارے جارہے ہیں۔ چند عناصر فرقہ واریت کا
ڈھنڈورا پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شیعہ اور سُنّی دونوں جانتے ہیں کہ کِس
کے اشارے پر کیا ہو رہا ہے۔ مُلک بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں پر جو
قیامت ڈھائی جاتی رہی ہے اُس کے نتیجے میں یہ تصور عوام کے ذہنوں میں راسخ
ہوچکا ہے کہ حکومت خواہ کوئی اشارا دے، قتل و غارت فرقہ واریت کی بُنیاد پر
نہیں بلکہ بعض خفیہ مقاصد کے لیے ہے! اب بھی معاملہ یہی ہے۔ بلوچستان میں
ہزارہ کمیونٹی پر ڈیڑھ ماہ میں دو مرتبہ قیامت ڈھائی گئی۔ ملک بھر میں
احتجاج ہوا مگر احتجاج کرنے والوں نے عام سُنّیوں کو موردِ الزام ٹھہرانے
کے بجائے حکومتی نا اہلی پر لعن طعن کی۔ اب رحمٰن ملک بار بار کالعدم لشکر
جھنگوی کا نام لیکر معاملات کا رُخ کِس طرف موڑنا چاہتے ہیں؟ اگر حکومت
اپنے ”اقدامات“ سے طالبان جیسے طاقتور حریفوں کو زیر کرسکتی ہے تو لشکر
جھنگوی جیسے گروپ کو زیر و زبر کرنے میں کون سا امر مانع ہے!
اور اگر بہت سی وارداتیں کالعدم لشکر جھنگوی کے کھاتے میں ڈالنے سے بھی بات
نہ بن پائی تو کیا اگلے مرحلے میں کالعدم سپاہِ محمد کا کھاتہ دوبارہ کھول
کر کچھ وارداتیں اُس میں ڈپازٹ کرائی جائیں گی؟
جن کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ عوام اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ جس کام
کا مینڈیٹ ملا ہے وہ تھوڑا بہت تو انجام دیں۔ نیم دِلانہ ہی سہی، دہشت گردی
اور قتل و غارت روکنے کی کوشش تو کی جائے۔ یہ کہاں کی غیرت ہے کہ کہیں بم
دھماکہ ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں موقع پر پہنچنے کے لیے احکام کے
منتظر رہیں؟ کراچی کے عباس ٹاؤن میں بم دھماکے کے بعد بہت دیر تک امدادی
کارروائی شروع نہ کی جاسکی۔ کیا یہ بھی حکومتی پالیسی کا حصہ ہے کہ زخمیوں
کو بر وقت طبّی امداد نہ پہنچائی جائے یا نہ پہنچانے دی جائے؟
کراچی جیسے پھیلے ہوئے اور متنوع آبادی والے شہر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا
ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ بظاہر باندھ دیئے گئے ہیں تاکہ
کِسی خرابی کی صورت میں وہ کوئی مثبت کردار ادا نہ کرسکیں۔ ہر گام پر سیاسی
مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں۔
مُقدّر خراب ہونے اور مُقدّر کو خراب کرنے میں تو بہت فرق ہے۔ حالات جان
بوجھ کر خراب کئے جا رہے ہیں یا اُنہیں بد سے بدتر ہونے دیا جارہا ہے۔ اور
کِسی کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک رَمق بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ قوم کسی نہ
کسی طرح قتل و غارت، بد امنی اور دہشت گردی کے کُتّے سے بچنا چاہتی ہے مگر
دوسری طرف یاروں کی پوری کوشش ہے کہ مُقدّر خراب رہے اور اونٹ پر چڑھ
بیٹھنے والی قوم کو بُرے حالات کا کُتّا کاٹتا ہی رہے! یہ تماشا کب ختم
ہوگا؟ ختم ہوتا ہوا مینڈیٹ مزید کِتنے گُل کِھلائے گا؟ قوم کو انتخابات کے
فِلٹر سے گزرنے سے پہلے کِتنی خرابیوں کی پائپ لائن سے گزرنا ہے؟ قوم کا
نصیب کب جاگے گا یعنی جنہیں حالات درست کرنے کے لیے کچھ کرنا ہے اُن کی
نیند کب پوری ہوگی اور اُن کا ضمیر جب بیدار ہوگا؟ قوم دُعاؤں کی منزل سے
گزر کر بد دعاؤں کے مرحلے میں ہے۔ تو کوئی ہے جسے کچھ شرم آئے!
سیاسی اسٹیک ہولڈرز کیا غیر سیاسی اِسٹک ہولڈرز کے منتظر ہیں؟ |