اسے کوئی زعم ہے.... اور زعم بھی
کیا؟ .... کہ وہ کہانی کار ہے۔ کہانی لکھتا ہے۔ کہانی کون اور کب لکھ پاتا
ہے؟ .... کہانی تو اپنی بنت خود بنتی ہے۔ کہانی تو اپنی جڑت خود تجویز کرتی
ہے۔ کہانی تو اپنے مفاہیم و مکاتیب خود تشکیل دیتی ہے۔ پھر خورشید حیات کا
زعم کیا؟ .... کیا وہ اونچے پیڑ کی ٹیسی پر بیٹھا ان کرداروں کی حرکات و
سکنات کو اپنے قرنیا پر نقش کر رہا ہے؟.... اگر کر رہا ہے تو اس میں زعم
کیا؟ .... یہی کہ اس نے ان متحرک کرداروں کو تخلیق کیا ہے۔ ہاں! یہی زعم
اسے اپنے کرداروں کی عکس بندی پر اکساتا ہے اور وہ اپنے تخلیق کردہ کرداروں
کی جولانیاں، موج مستیاں اور تہذیبی اڑانیں دیکھتا، محسوس کرتا اور نقش
کرتا چلا جاتا ہے۔
یا اسے کوئی اور زعم ہے .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ وہ ایک طویل عرصہ
اپنے ترتیب دیے گئے کرداروں کی دنیا میں گم رہتا ہے۔ ان کے احساسات اور
اظہاریوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے تخلیاتی واقعات کی کڑیوں کو جوڑتا ہوا کسی
غیر مبہم نتیجے پر پہنچتا ہے اور پھر اچانک زنجیر توڑ دیتا ہے۔ یہی کلائمکس
اسے پڑھنے والے کی سانسوں کا رشتہ ایک بار پھر اس کے جسم و جاں سے جوڑ دیتا
ہے۔ تو کیا میں یہ کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ وہ دو مختلف انداز
میں ترتیب پائے ہوئے ماحولوں میں رابطے کی سبیل بنا بیٹھا ہے۔ ایک طرف
انسان جو کچھ کر رہا ہے، دوسری طرف انسان جو کچھ کرنا چاہ رہا ہے.... یہ دو
عہد، دو زمانے، دو عصر اس کا خون نچوڑتے ہیں، اس سے دم بہ دم لفظ بہ طور
جزیہ طلب کرتے ہیں اور نہ دینے پر خون بہا مانگتے ہیں۔ اور وہ ہے کہ
چابکدستی سے اس ماحولیاتی تفریق کے تانے بانے تخلیاتی پرکاش کے سینے پر
مونگ کی طرح دلنے میں مگن ہے۔ تو کہا میں یہ کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ ایک ایسی دنیا کی
تشکیل کا خواہاں ہے جس میں طرب ہو، نشہ ہو، انسان کی طرف انسان کی اٹھی
ہوئی نگاہوں کا طلسم ہو جو جاگے تو جان تک پہنچے اور سو جائے تو تیرہ شبی
کی رات کو مدعو کرنے کے بجائے گلاب گوں خوابیدگی آمیز ہجر کی مترنم گھنٹیاں
بجا دے۔ وہ پتھر کے زمانے سے محض امن کشید کرے، مذہب کے زمانے سے اخلاقیات
کا باب چرائے، ایجادات کے عہد سے انسان کو آسودہ کرنے والے اوزار سمیٹے علم
کے اس عہد میں شان و شوکت سے یوں وارد ہوتا ہے کہ اس کی دل آویز نگاہیں آنے
والے احتسابی عہد کے پر عافیت لمحات پر گڑی ہیں۔ وہ بدگمانیوں کو آشکار
کرتا ہے اور عہد و پیمان کی سیڑھی پر چڑھ کر ایقان و عرفان کے آکاش کی طرف
اشارہ زن ہوتا ہے۔ تو کیا میں کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ اس نے دنیا کو نیا
آہنگ اور نیا راستہ سجھایا ہے۔ اس نے ایک مہین سے نکتے میں زندگی کے ثمرات
کو پرو کر والہانہ نظروں سے ادب کی بارہ دری میں قدم رکھا ہے۔ اس نے دستک
کے پسِ منظر میں سجے جذبات، صوت میں چھپی بے قراری اور باب و در پر چھائی
بے کیفی اور مایوسی کی مضطرب نبض پر انگلی کی پور رکھی ہے۔ ایسی ہی کیفیت
میں اس نے لکھا.... ”دستک ہوتی رہی اور لوگ سنتے رہے کیونکہ وہ ڈرے ہوئے
تھے۔ باہر کا دروازہ کھولنے پر کہیں کوئی طوفان نہ نازل ہو جائے مگر طوفان
کا راستہ کب روکا جا سکتا ہے....“ (افسانہ: طوفان میں دستک).... اسے انسانی
جبلتوں کا ادراک ہے تبھی تو وہ ان بے قراریوں اور اندیشوں کو اپنے کرداروں
کی جبینوں پر سجائے دھڑکنیں گن رہا ہے۔ دھڑکنوں سے پھوٹتا ہوا جاں کنی کا
ساز بھانپ رہا ہے۔ وہ ڈرتا ہے، مبادا کہ یہ اندیشے انسان کی رہتی سہتی
قدروں کو نگل نہ جائیں اور وہ سانس شماری کے عذاب میں مبتلا ہو کر نہ رہ
جائے۔ اپنا سفر کھوٹا نہ کر بیٹھے۔ تو کیا میں کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا
ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ اس نے دنیا کو اس
کے حقیقی انداز و اطوار کے ہمراہ اپنے ہی خون کے گھونٹ پیتے ہوئے جاگتی
آنکھوں اور بیدار احساس کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ اس نے یہ طے کر لیا ہے کہ
کہانی کا عمل وہیں نمو پاتا ہے جہاں انسانی سوچ انگڑائی لے کر اپنی نشست
بدلنے کو پر تولنے لگتی ہے۔ اس نے نہ صرف اپنے کرداروں، بلکہ ہم عصر کردار
سازوں پر بھی نظر رکھتے ہوئے دنیا کے چلن کو دیکھنے کی سعی کی ہے جس میں وہ
اس حد تک ضرور کامیاب رہا ہے کہ اس پر وہ عوامل منکشف ہوگئے جنہوں نے اس
دنیا کو پہلے جیسا نہیں رہنے دیا بلکہ نمو، ترقی اور تیز رفتاری نے گام گام
پر بدلاﺅ اور تغیر پذیری کو جنم دیا۔ شاید یہیں کہیں اسے کہنا پڑا ....
”بہت آسان ہوتا ہے کولتار کی سڑکوں کی چھاتیوں سے جدا کرتے ہوئے کہانی گاﺅں
کی پگڈنڈی بن جانا۔ روایت پر چلتے ہوئے بڑی خاموشی سے بغاوت کر جانااور
کبھی کہانی کی سنہری روایت سے یکسر بغاوت نہ کرتے ہوئے نئی روایت کا حصہ بن
جانا، آئینہ ادب میں سچائی کی تمثیل بن جانا۔“ (کہانی ”مشک سے پھوٹتی
خوشبو“ پر اظہارِ خیال).... وہ خود اعتمادی رکھتا ہے۔ وہ نرگسیت کی فضا میں
دم گھٹتی سانسوں سے متنفر ہے۔ تو کیا میں کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ اس نے گھسے پٹے
جملے، متروک الفاظ، پیچیدہ تراکیب، ذومعانی استعاروں اور ناکارہ تلمیحات کے
زور پر کہانی کو ترتیب نہیں دیا بلکہ سیدھے اور کھرے بیانیے کہانی کو عنایت
کیے۔ وہ اپنے قاری پر دنیا کھولنا چاہتا ہے ناں کہ اسے مزید الجھا کر اس پر
مایوسیت اور قنوطیت طاری کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہر کہانی کے کلائمکس کی
گود سے خوش نما نتیجہ دینے کا متمنی ہے۔ وہ کسی نئی دنیا کی تشکیل چاہتا
ہے۔ وہ انسان کا انسان کے ساتھ کمزور پڑ جانے والا رشتہ مضبوط کرنا چاہتا
ہے۔ وہ محبت کی اساس پر اس تاج محل کی تعمیر چاہتا ہے جس کا کردار دنیا میں
محض تماشہ گاہ کا نہ ہو۔ وہ اپنے قاری کو نہ تو کسی ناسٹلجیا میں مبتلا
کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کا ماں جیسا تعلق دھرٹی سے کٹتا ہوا دیکھنے کا
روادار ہے۔ وہ امن کا حصول گولی سے نہیں، اظہارِ امن و محبت سے چاہتا ہے۔
تبھی وہ کہتا ہے .... ”لوگوں کا ہجوم گاﺅں سے شہر کی طرف دوڑ رہا ہے۔ سکون
کی تلاش میں۔ مگر شہر نے انہیں کیا دیا؟ٹاٹ میں لپٹی زندہ لاشیں، کوڑے کے
ڈھیر میں اپنا مستقبل تلاش کرتے معصوم بچے، اور بھی بہت کچھ۔“(کہانی: خبر
ہونے تک) اور خورشید حیات اپنی ہر کہانی میں کاملیت اور یکتائی سمیت موجود
ہے اور یہی اس کا وطیرہ ہے۔ تو کیا میں کہہ دوں کہ اس کا زعم بجا ہے؟
یا اسے کوئی اور زعم ہے؟ .... اور زعم بھی کیا؟ .... کہ اس نے کہانی کو خوب
صورت منظر کشی، جدا لب و لہجہ اور غیر معمولی روانی سونپ دی ہے۔ اس کے ہاں
صنعتِ تضاد اگرچہ کم ہے مگر وہ مترادفات کے قلب سے منفرد آہنگ سمیٹ لاتا
ہے۔ وہ لکھتا ہے.... ”میری بیٹیاں میری بغل میں لیٹی ہیں۔ خوب صورت سی،
پیاری پیاری۔ نرم ہتھیلیاں، چھوٹی بڑی انگلیاں۔ بیٹیاں گھروں میں چڑیوں کی
طرح چہکتی ہیں۔“ (کہانی: پانچ انگلیاں) .... یہاں وہ بہت نرم خو، احساسات
سے لبریز اور صرف ”انسان“ دکھائی دیتا ہے۔ انسان، وہ جو محبت کرتا ہے۔
انسان، وہ جو محبت کی طلب میں مارا مارا پھرتا ہے۔ تو کیا میں کہہ دوں کہ
اس کا زعم بجا ہے؟
اور اگر اس کا زعم بجا کہنے میں میں قادر نہیں تو پھر کوئی مجھے بتائے کہ
میں خورشید حیات کی کہانیاں کیوں شوق سے پڑھتا ہوں؟ |