قادری فیکٹر

جناب طاہرالقادری کے اسلام آباد مارچ اوردھرنے کے بعد اوردوران بہت کچھ کہا اورلکھا گیا، جس میں لکھنے اوربولنے والوں نے اپنے علم ،عقل، فہم وتدبیر کی حدوں سے نکل کراسکا واویلا کیاجسے بیان کرنا مشکل ہے۔ اس شوروغل میں ٹیلویژن اینکروں اوردانشوروں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا اوربعض نے بدزبانی اوربدکلامی کابھی مظاہرہ کیا ۔میں نہ تو منہاج القرآن تنظیم کا ممبرہوں اورنہ ہی جناب طاہرالقادری سے ملاقات ہے مگرحقیقت شناس ضرور ہوں۔وہ دانشور،اینکر،صحافی اوراہل قلم وعلم جن کا ذکر کرچکاہوں ان کا تعلق قادری مخالف فرقوں،مسلکوں اورسیاسی جماعتوں سے ہو سکتا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ یہ سارے اصحاب الرائے جناب طاہرالقادری کی جن جن خامیاں کو اُجاگرکرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے وہ سب خامیاں ان اصحاب میں صرف موجود نہیں بلکہ وہ ہرروز اسکا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔اگران لوگوں کی ٹی وی فوٹیج نکلوائی جائیں تو ہرایک کے سر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بداعمالیوں،بدیانیتوں اوربداخلاقیوں کابو جھ نکلے گا۔ یہ معاملہ اوروں کونصیحت خود میاں فصیت والا ہے جس کے زورپرایک طبقے کی صحافت اورتجارت چلتی ہے۔

قادری صاحب کے مارچ سے پہلے راقم نے اپنے مضمونـــ’’گوجرخان پلان‘‘ میں لکھا تھا کہ چند روز میں ایک ڈیل متوقع ہے اور ملک ریاض ایک بڑی آفر لیکر جناب طاہرالقادری کے پاس جائے گا۔اگر ڈیل ہوگئی تواس کے نتیجے میں ایک سکینڈل سامنے آئے گا اورقادری صاحب اسلام آباد کے بجائے واپس کینیڈا روانہ ہوجائینگے۔میرے الفاظ کے عین مطابق چوھدری برادران ملک ریاض کے ہمراہ پہنچے توجناب طاہرالقادری نے ملاقات سے انکار کردیا۔اس انکار نے ملک ریاض کے ہمنوا صحافیوں کوآگ بگولا کردیا چونکہ یہ سب حضرات نئے سکینڈل پرجشن منانے کی مکمل تیاری کرچکے تھے اوراس سکینڈل میں بہت سارے لوگوں کوملوث کرنے کاسکرپٹ تیارہوچکاتھا۔

قادری صاحب اسلام آباد ڈی چوک پہنچے اوراپنے فدائین کے ہمراہ کامیاب دھرنا دیکر حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کت تحت واپس چلے گئے۔ قادری صاحب کے ڈی چوک تک پہنچنے پر امن رہنے اور پھر ڈیل کے تحت واپس جانے پر بھی بہت سے حلقوں کو مایوسی ہوئی۔ وہ سیاسی رہنما، حکومتی اہلکاراور سیاسی دانشور جو ٹی وی چینلوں پر دعوے کرتے تھے کہ قادری صاحب مہینہ بھر بیٹھے رہیں ہم ان سے بات نہیں کریں گے۔ چونکہ قادری سٹیک ہولڈر نہیں۔ قادری صاحب کی آخری وارننگ پر نان سٹیک ہولڈر کی گردان پڑھنے والوں کاایک ٹولہ اپنے اتحادیوں سمیت قادری صاحب کے کیبن میں جاپہنچا اورایک معاہدے کے تحت قادری صاحب کودھرنا ختم کرنے پرقائل کرلیا۔یہ معاہد ہ اوردھرنے کا پُرامن اختتام بھی کچھ لوگوں کیلئے مایوسی کاباعث بنا۔یہ لوگ چاہتے تھے کہ لال مسجد کی طرح کاکوئی ہنگامہ ہو،فوج کومداخلت کاموقع ملے،پیپلز پارٹی کی حکومت کوآخری دنوں میں شہادت نصیب ہو،حکومتی کرپشن اوردیگرمالیاتی،اخلاقی اورسیاسی بداعمالیوں پرمظلومیت کاٹھپہ لگے اور ملک ایک اورفتنے اورفساد کی بھینٹ چڑھ جائے۔مگریہ نہ ہوسکا اورفتنہ وشر کی اُمید رکھنے والوں کومایوسی ہوئی۔

اس دھرنے نے جہاں بہت سے اینکروں اوران کے مداحوں اوراہم مسلکوں کومایوس کیا وہی بہت سے لوگوں کی ذاتی قابلیت،نفسیاتی اُلجھاؤ اورمسلکی مفادات بھی کھل کر سامنے آگئے۔جناب طاہرالقادری کوئی ایسی مخلوق نہیں جن سے توقع کی جائے کہ وہ دنیا کی مادی آلائیشوں سے پاک ایک آیےڈیل انسان ہیں۔جناب طاہرالقادری سیاستدان ہیں اوران کاوطیرہ بھی دیگرسیاستدانوں جیسا ہی ہونا چاہیے تھا۔وہ پاکستانی علماء میں شمار ہوتے ہیں اورجمعیت علمائے اسلام ،جماعت اسلامی اوردیگرسیاسی مذہبی جماعتوں کاکردار ہمارے سامنے ہے۔جناب طاہرالقادری وکیل رہے ہیں اوروکلاء حضرات کاکردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔وہ ٹی وی اینکر اوردانشور جو جناب طاہرالقادری کاموازنہ آسمانی مخلوق سے کرتے ہیں اگر زمین پرآجائیں اوراپنے اردگرد بیٹھے دانشوروں،صحافیوں،علماء ،سیاستدانوں،وکیلوں اوردیگر طبقاء پرنظر دوڑائیں تو جناب قادری ان سے قدرے بہتر درجے پر ہی نظر آئینگے۔

جناب طاہرالقادری کا مسلک روحانیت،تصوف اورفقروالائیت کی تبلیغ کرتاہے اوراسکا پیروکار ہے۔جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام،جمیعت اہل حدیث،تبلیغی جماعت اوردیگر دینی سیاسی جماعتیں روحانیت اورتصوف کی قائل نہیں اوراس نہ ہی وہ طاہرالقادری ،فقہ جعفریہ ،اہل سنت وجماعت اوربریلوی حضرات سے متفق ہیں۔رائے ونڈ میں جناب نواز شریف نے طاہر القادری کے مقابلے میں جو سیاسی دعوت کی وہ خالصتاََ دیو بند مسلک کے ماننے والوں کی تھی۔ اہل سنت (برہلوی) فقر و ولائت کے سبھی سلسلوں کا منبع حضرت علی ؓ کی ذات مبارکہ کو مانتے ہیں۔ چونکہ حضور ؐ سرور کائنات کی حدیث ہے کہ میں علم کا گھر ہو اور علی ؓ اسکا دروازہ۔ اہل فکر و فقر اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ نے جس علم کی طرف اشارہ کیا ہے وہ قرآنی اورروحانی علم ہے۔حضرت داتا گنج بخشؒ نے کشف المعجوب میں روحانی علوم اوراس کے منبع پرجو کچھ لکھا اس کی تشریح یوں توبیشمار علمائے حق نے کی مگر انتہائی سادہ اورعالی فہم زبان میں جناب قبلہ نورالدین اولسی کشمیریؒ نے اپنی تصانیف روح البیان،منازل فقر،حقیقت تصوف،علم الفرقان اورسیرت النبیﷺ میں تصوف وروحانی کے تمام پہلوؤں کی قرآنی اورسائنسی علوم کی روشنی میں بیان کرکے کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔مشاہدات قلبی اورواردات قلبی علم الفرقان کا ایک موضوع ہے جسکا بیان اس تحریر میں ممکن ہیں۔جناب طاہرالقادری کی نوعمری کی ایک ویڈیو مختلف چینلوں پرتمسخر کے طورپردکھلائی جاتی رہی اوراہل سیاست اورصحافت نے جی بھرکراس ویڈیو پرتنقید کی،تمسخر اُڑایا اورکچھ اہم جید علماء نے بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔حیرت کی بات یہ کہ ان تمسخراُڑانے والوں میں سیدذادے بھی تھے اورشہزادے بھی۔ اس سے بڑھ کرحیرت کی بات یہ ہے کہ فقراء کی گدیوں پربیٹھے صاحبزادگان،مخدوم اورپیر بھی اس پر خاموش رہے اورکسی قسم کی وضاحت سے گریز کیا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہرجماعت کا ایک علماء ومشائخ کاونگ بھی ہے جس میں ملک بھرکے گدی نشین اورصاحبزادگان شامل ہیں۔اگر یہ لوگ مشاہدات قلبی کی تھوڑی سے وضاحت کسی ٹیلی ویژن چینل پر یا پھر پریس کانفرنس میں کردیتے توتمسخر اُڑانے والوں کوکچھ سوچنے یاپھرسرعام اسے رد کرنے کے ساتھ اپنانقط نظر بیان کرنے کاموقع ملتا۔

فقروولائیت کا علم رکھنے والوں کا بیان ہے کہ مراقبات ومشاہدات میں ناپختگی اورتوجہ میں کمی کے باعث خیالات کادخل ہوسکتا ہے۔اگر خیالات مادی اورسفلی ہوں تومشاہدات کاسلسلہ منقطہ ہوجاتا ہے اور طالب کومرشد کامل کی رہنمائی میں ازسرنوتزکیہ،مجاہدہ کی منازل سے گزرتا پڑتا ہے۔اس سلسلہ میں حضرت مولانا رومیؒ، شمس تبریزؒ سے ملنا اورپھرتزکیہ ومجاہدہ کی منازل طے کرنا بھی ایک واقع ہے۔ اسی طرح جومولانا الیاس سیالکوٹیؒ کاواقعہ بھی ہے جسے ردکرنا آسان نہیں۔حضرت شیخ عبدﷲ بن شیخ محمد بن عبدالوہابؒ جووہابی مسلک کے بانی جناب شیخ عبدالوہابؒ کے پوتے ہیں نے حضورؐ کی مختصر سیرت پاک تصنیف فرمائی جسکا اردو ترجمعہ جامعہ العلوم الاثر یہ جہلم نے شائع کیا۔ سیرت پاک کی اس کتاب میں بھی مختصر دلائل کے ساتھ بہت سے روحانی مسائل کی طرف اشارہ ہے جنکا تعلق مشاہدات اور معجزات سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی علم میں کاملیت کا مرتبہ نہ رکھتا ہو اسے اسپر راے دینے کا حق نہیں۔ چہ جائیکہ ایک مخالف مکتبہ فکر اور مسلک کے لوگ میڈیا کواستعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے مسلک اورمکتبہ فکر کا نہ صرف تمسخر اُڑائیں بلکہ اُسے مداری کاتماشہ کہیں۔جناب طاہرالقادری نے اپنے جن مشاہدات کاذکرکیا ہے اسکا تعلق اُن کی اپنی ذات سے ہے۔جناب طاہرالقادری کے مشاہدات روحانی تھے یاعقلی وناسوتی اُسکا ذمہ اُن کی ذات تک محدود ہے۔جہاں تک روحانی علوم کا تعلق ہے اس سے کسی بھی شخص کاانکار نہیں چہ جائیکہ ایک مسلمان ہونے کا دعویدار عالم، سیاستدان، صحافی، دانشور اوراینکراُسے مداری کاتماشہ، سیاسی ڈرامہ کہ کراُسکا تمسخر اُڑائے۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ روحانی علوم کاتعلق قادری کے علم سے ہے اورجو کچھ قرآن اورشریعت سے باہرہے وہ نہ تو دین اور اورنہ ہی روحانیت،تصوف اورفقرہے۔قرآن کریم میں حضرت سلما نؑ کے قصے میں واضح لکھا ہے کہ ــ’’پھر وہ آدمی جس کے پاس کتاب کا علم تھانے کہا اے سلمان ؑ میں پلک جپکنے سے پہلے ملکہ بلقیس کوتمہارے روبرو پیش کردونگا‘‘ جبکہ اس سے پہلے جن یا دیو جوبھی ناری مخلوق تھی نے کہا کہ اس سے پہلے کہ تیرا دربار برخاست ہو ملکہ سبا تیرے سامنے لے آؤنگا۔

میں نہیں کہتا کہ جناب طاہرالقادری صاحب ایک مکمل روحانی شخصیت ہیں مگر اس بات سے بھی انکا رنہیں کہ وہ روحانی علوم کے طالب ضرور ہیں اوراس سلسلہ میں اُنکا مطالع بھی وسیع ہے۔ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دورمیں جب یہ ویڈیو بنی تھی توآپ کاتزکیہ اس لیول پرتھا کہ آپ کومشاہدات کی جھلکیاں بھی دکھلائی دیں اورہو سکتا ہے کہ آپ کے مشاہدات میں خیالات کا دخل زیادہ ہونے کی بنا پرخیالات ہی سے جوابات ملتے رہے ہوں۔جناب طاہرالقادری کے خیالات،مراقبات ومشاہدات کے حقیقت یا خیالی ہونے سے نہ تومفادعامہ کاکوئی مسئلہ پیدا ہوا اورنہ ہی حکومت اورریاست کے معاملات ڈسٹرب ہوئے۔نہ تو تبصرہ نگاروں،سیاستدانوں اورا ینکروں کا اس فیلڈکاکوئی تجربہ ہے اورنہ ہی وہ روحانی علوم کے ماہرہیں۔ محض دوکانداروں اورسیاسی جماعتوں کے مسالک سے ہم خیالی کی بنا پرروحانی علوم کاتمسخر اُڑانا مسخرہ پن تو ہو سکتا ہے مگرصحاف اورفراست نہیں ہوسکتی۔

میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایبٹ آباد سے جماعت اسلامی سے وابستہ ایک مولانا صاحب لاہور تشریف لے گئے اور جناب مولانا مودودی ؒسے شکائت کی کہ ان کے علاقہ میں ایک برہلوی مولانا رہتے ہیں اور اہل جماعت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ وہ آپ کو یعنی مولانا مودودی ؒ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مولانا مودودیؒنے فرمایا کہ آپ ان کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں بھی سخت جواب دیتا ہوں۔ اس پر امیر جماعت نے حکم دیا کہ آئیندہ آپ ان کی کسی تقریر کا جواب نہیں دینگے اور اجتماع کے بعد مجھ سے ملکر جا یئنگے ۔

اجتماع ختم ہوا تومولانا نے جناب ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی توآپ نے کچھ کتابیں،تفسیر قرآن،کپڑوں کاایک نفیس جوڑا اوردستار بطور تحفہ ایبٹ آباد کے بریلوی مولانا صاحب کیلئے دیے۔فرمایا آپ بذات خود میری طرف سے نذرانہ پیش کریں،مولانا صاحب کومیرا سلام عرض کریں اوردرخواست کریں کہ وہ مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔

اگلے برس جب مولانا صاحب اجتماع میں تشریف لائے توبریلوی مسلک کے مولانا کا خط بھی ساتھ لائے۔مولانا نے لکھا تھا کہ مجھے آپ کا تحفہ ملا ہے جسکا مشکور ہوں۔میں نے آپ کے متعلق جو سنا تھا میرے خیالات اُسی کے مطابق تھے۔اب آپ کوپڑھا ہے تو خیالات بدل گئے ہیں لہذا ماضی کی غلطیوں پرافسوس ہے۔

حیرت ہے کہ حضرت مولانا مودودیؒ کے پیروکار اینکروں اورصحافیوں کوبھی ا پنے رہبر کا خیال نہیں رہا اوروہ محض نمبرون کی دوڑ میں یک طرفہ جنو نی جنگ کا حصہ بن گئے۔حدیث پاک ہے کہ ــــ’’تم اُن کے جھوٹے نبیوں کو بُرا بلا مت کہو ورنہ وہ تمہارے سچے نبی کے کیخلاف بھی ایسی ہی باتیں کرینگے‘‘۔میں اس حدیث مبارکہ کا تعلق طاہرالقادری سے نہیں جوڑرہا مگر آپؑ کا ہرقول امت کی رہنمائی اوراخلاقی پاکیزگی کیلئے مشعل راہ ہے۔چند روز پہلے جس مسلک اورمکتبہ فکر کے علماء اورسیاسی زعماء نے رائے ونڈ جاگیر میں اکٹھ کیا اورجس بات کی تردید کی تھی اس کے دوہفتوں بعدہی ان کی اپنی ڈیمانڈ بھی وہی ہو گئی۔ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر انھوں نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کیساتھ ساتھ صدرمملکت اورگورنروں کی برخواستگی کا بھی مطالبہ کردیا ۔ طاہرالقادری کے ایجنڈے پربھی یہی کچھ تھا اور اس میں صدر کے بجائے وزیراعظم اورکابینہ پرعدم اعتماد کا ذکر تھا۔دیکھنا یہ ہے کہ محض مسلکی تعصب کی بنا پرسیاسی مطالبات میں یکسوئی کیوں پیدانہیں ہوئی۔حکومت وقت پرجواعتراضات طاہرالقادری کے ہیں وہی رائے ونڈ اکٹھ والوں کے بھی تھے اورویسا ہی مطالبہ عمران خان کابھی تھا مگرحیرت کی بات ہے کہ سب ملکر ان مطالبات کو پیش کرنے پرمتفق نہیں۔سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے جناب وزیر اعظم نے فرمایا کہ آج ہم یعنی سیاستدانوں نے قوم کو فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ شکر ہے انھوں نے یہ بات سچ کہہ دی ورنہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہر بات کو ہر تفریق اور برائی کو فوج کے متھے لگا کر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔ بنا یہ سوچے سمجھے کہ اس سے ہمارے ملک اور افواج کی بیرن دنیا میں بدنامی ہوتی ہے۔ نہ صرف ہمارے قائدین بلکہ ہمارے اینکر اور صحافی دانشور بھی اس میں پیچھے نہیں اور فوج پر تنقید کر کے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ جبکہ دیگر ممالک اپنے قومی اداروں کی عزت اورمقام کو کبھی بھی یوں بازاروں میں نیلام نہیں کرتے۔ جمہوریت کا حسن تنقید میں ہے مگر یہ تنقید ذاتی اور جماعتی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہونی چاہیے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100638 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.