جب بھی جمہوریت کی بات ہوتی ہے
یہی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ طرز حکمرانی ہے جو عوام سے ہے۔ عوام کا ہے اور
عوام کے لیے ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ کتابی باتوں اور مہذب ملکوں کے
تجربات کے مطابق یہ طرز حکمرانی عوام کے لیے بہترین بھی ہے اور آمریت کے
بالکل برعکس جس میں کسی فرد واحد کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی بلکہ طاقت کے
اعتبار سے معاشرہ پوری طرح حکمرانی میں شریک ہوتا ہے۔ یقینا ایسی باتیں کسی
کسی مہذب معاشرے میں ٹھیک ہوں گی۔ مگر ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت
ہر طرز حکومت کسی ایک شخص کے گرد گھومتا ہے۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہ صرف
اور صرف آمریت ہی ہے۔ کبھی فوجی اور کبھی عوامی۔
ہمارا معاشرہ پوری طرح دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے ۔ ایک وہ طبقہ ہے جس کا
مقدر ظلم سہنا ہے۔ مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے۔ بہت ساری ضروری چیزوں کے
حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی ذلت برداشت کرتا ہے۔ خود کو
زندہ رکھنے کے لیے کسی بااثر شخص کا آسرا ڈھونڈھتا ہے۔ اُس کے لیے سیاسی
نعرے بازی کرنی ہے۔ بغیر سوچے کہ وہ حقدار ہے یا نہیں۔ اُسے ووٹ دینا ہے اس
لیے کہ کسی مشکل میں تھانے کچہری اور پٹواری کے چنگل سے عام آدمی کو بچانے
کا وہ واحد ہتھیار ہے۔ یہ طبقہ انصاف کا بھی بھیک کی طرح طلبگار ہوتا ہے۔
برسوں عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ کا عذاب اور ذلت سہنے کے بعد اور اپنی
تمام پونجی لٹانے کے بعد بھی اگر اُسے انصاف مل جائے تو یہ ایک حادثہ ہی
ہوتا ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو ہر طرح سے مراعات یافتہ ہے۔ وسائل اُس کے گھر کی لونڈی
کی طرح ہیں۔ ہر چیز خود اُس کے گھر کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ پولیس ،
تھانہ ، کچہری ،پٹواری اُس کے شریک کار ہیں۔ وہ انصاف حاصل بھی کر سکتا ہے
اور اگر کوئی مشکل ہو تو خرید بھی سکتا ہے۔ وہ اس سارے عمل کو جمہوریت اور
جمہوریت کا حسن کہتا ہے۔ مگر عام عادمی کے لیے تو سچی بات یہ کہ کونسی
جمہوریت اور کیسی جمہوریت ؟
جمہوریت کی اساس تعلیم پر ہے۔ جب تک کسی معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہوتی
جمہوریت عملی طور پر نظر نہیں آسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے با اثر
لوگ سکول اور کالجوں کے اُن علاقوں میں کھولنے کے مخالف ہوتے ہیں۔ شرح
خواندگی کم ہونے کی وجہ سے جو جمہوریت پروان چڑھتی ہے وہ درحقیقت دو بااثر
مالدار گروپوں کے درمیان کشمکش ہوتی ہے اور وہ دونوں جمہوریت کے نام پر
اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ عوام کو فقط استعمال کرتے ہیں۔
اُنہیں اُن کے مسائل سے کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا۔ وہ لوگ سرمائے ،
بدمعاشی ، پولیس اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اقتدار تک پہنچنے کی جدوجہد
میں ہوتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کا حصول آسان بنا سکیں۔ الیکشن آتے ہیں تو
حریف گروپوں کے درمیان ووٹروں اور امیدواروں کی خرید و فروخت کا زبردست
مقابلہ ہوتا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال ہوتا ہے۔ اخلاقی
قدریں بالائے طاق رکھ کر جیت کے لیے سب کچھ کیا جاتا ہے۔ اقتدار کی اس جنگ
میں جو کامیاب ہوتا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو ماضی میں اس کا مخالف کرتا رہا
تھا۔ دلکش نعرے، پر فریب باتیں اور مخالفوں پر تنقید ایک دکھاوے کے سوا کچھ
نہیں ہوتا۔ عملی طور پر دونوں گروپوں کے افعال اور کردار میں کوئی فرق نہیں
ہوتا۔
مشہور فلسفی دل دیورانٹ نے کہا ہے ”جمہوریت سب سے مشکل نظام حکومت ہے
کیونکہ اس میں ذہانت بہت وسیع پیمانے پر درکار ہوتی ہے۔ لیکن حکمرانی اور
ذہانت کا آپس میں بیر ہے۔ اگرچہ تعلیم پھیل رہی ہے لیکن چونکہ احمق لوگوں
کی افزائشِ نسل اور بار آوری کی صلاحیت ذہین اور عقل مند افراد کی نسبت بہت
زیادہ ہے۔ اس لیے اجتماعی ذہانت اور عقلمندی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
کیونکہ عقلمندوں کی نسبت احمقوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا
ہے۔حقیقی اور منصفانہ جمہوریت کا قیام اُسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی مواقعوں
کی مساوات مکمل طو رپر قائم ہو جائے۔ کیونکہ پر کشش باتوں کے پیچھے پوشیدہ
بڑی سچائی یہی ہے کہ گرچہ تمام انسان برابر نہیں ہو سکتے لیکن اُن کے تعلیم
اور روز گار کے مواقع تک رسائی مساوی بنانا ممکن ہے۔ ہر عہدے اور اقتدار پر
سب انسانوں کا حق نہین ہے۔ البتہ انسانی حقوق کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کی
اُس راہ منزل تک رسائی ہو جہاں کسی بھی عہدہ یا کسی بھی اقتدار کے لیے اس
کی موزنیت کی جانچ ہو سکے او اُسے اس میدان میں مزید مواقع مل سکیں۔ یہ
ایسا استحقاق ِ مراعت ہے جو جس قدر فرد کو میسر ہو گا اتنا ہی گروہ /معاشرہ
کے لیے مفید ثابت ہو گا“۔
بہت سے لوگ ملک میں تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اُس کے لیے عملی جدو
جہد بھی کر رہے ہیں۔ مگر ہماری جمہوریت ایک چربہ جمہوریت ہے۔ پرویز مشرف
ایک آمر تھا مگر اُس کے دور میں بھی جمہوریت تھی۔ زرداری عوامی نمائندہ ہے
اس کے دور میں بھی جمہوریت ہے مگر دونوں جمہوریتوں میں کیا فرق ہے؟ ایک ہی
انداز، ایک ہی رفتار، عوام سے ایک جیسا سلوک، ایک فوجی آمریت تھی اور دوسری
عوامی آمریت یا کہہ لیں ایک فوجی جمہوریت تھی اور دوسری عوامی جمہوریت ۔
لوگوں سے دونوں کا سلوک مگر یکساں۔ تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کو پتہ
ہونا چاہیے کہ اس چربہ جمہوریت میں ووٹ تو اُنہی لوگوں نے دینے ہیں جو ایک
تو ناخواندہ ہیں اور دوسرا ایک فرسودہ نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ شہروں کے
باشعور عوام شاید کچھ بہتر نتائج دے دیں۔ مگر دیہی علاقوں میں صورتحال شاید
تبدیل نہ ہو سکے۔ ہاں مگر ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بار بار کے اکتائے
ہوئے لوگ یکایک الیکشن کے دوران اُٹھ کھڑے ہوں اور وہ کام جو بظام مشکل نظر
آتا ہے، ہو جائے۔ اور یہ کوئی ناممکن بھی نہیں۔ تاریخ میں ایسے واقعات عام
ہیں کہ لوگوں کی توقعات کے برعکس خاموش انقلاب آئے۔ جیسے سارے ملک میں
1970ءمیں ہوا تھا۔ تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی اچھائی کی اُمید رکھنی اور
اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ اس لیے کہ اُمید زندگی ہے اور زندگی جہد
مسلسل سے عبارت ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ زیادہ نہ سہی کچھ تبدیلی ضرورت
آئے گی وہ تبدیلی جتنی بھی ہو اہل درد کو اُسے غنیمت جان لینا ہو گا۔ |