مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے
انتخابات کے موقع پر مختلف حوالوں سے کبھی تفصیلی اور کبھی رسمی منشور کا
اعلان کیا جاتا ہے لیکن یہ منشور اکثر صرف انتخابی منشور ہوتا ہے جس کو بہت
پُرکشش بنا دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ پاکستان
دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں صرف تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ کمیٹیاں
بھی بنائی گئیں اور سفارشات پر مبنی رپورٹیں بھی تیار کی گئیں مگر کسی ایک
رپورٹ پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ یہی حال سیاسی پارٹیوں کے منشور کا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے منشور کے محض اعلانات نہیں عملی
اقدامات کیے جائیں جو کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں زمینی حقائق بن کر
سامنے آئیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو لاہور میں
ایک پریس کانفرنس کے دوران آئندہ الیکشن کے لئے اپنی پارٹی کا نیا انتخابی
منشور پیش کر دیا ہے جس میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خوراک کو ہر آدمی کا
بنیادی حق قرار دینے، اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے، اخراجات کو کم
کرنے، ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے، برآمدات کو بڑھانے، بجٹ خسارے کو بتدریج
کنٹرول کرنے اور افراط زر کو ایک ہندسے تک لانے ایسے عمومی طور پر 32 ٹھوس
اہداف متعین کئے گئے ہیں۔ توانائی کے بحران کو دو سال کے اندر ختم کرنے اور
قومی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے پاکستان کو خوشحال قوموں کی
صف میں شامل کرنے کو اس کا بنیادی نقطہ نظر قرار دیا گیاہے۔ انتخابات سے
پیشتر ہر سیاسی پا رٹی اپنا انتخابی منشور پیش کرتی ہے جو دراصل ووٹروں سے
کیا جانے والا ایسا میثاق ہے جس سے انحراف کا کسی حقیقی جمہوری ملک میں
تصور تک نہیں کیا جاسکتا مگر وطن عزیز میں انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کے
حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ قابل رشک نہیں ہے۔جب پانچ پانچ سال تک اقتدار
میں رہنے کے باوجود منشور کے اہداف تو کیا ان کا عشر عشیر بھی پورا نہیں
ہوتا تو اس سے عوام میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ
سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور کو انتہائی محنت اور ہر شعبہ زندگی میں
دسترس رکھنے والے ماہرین کی مدد سے زمینی حقائق کو پوری طرح سامنے رکھتے
ہوئے مرتب کیا جائے کیونکہ اب پاکستان میں نہ صرف جمہوریت اپنی میچورٹی کی
طرف بڑھ رہی ہے بلکہ عوام بھی اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ کسی بھی پارٹی
یا اس کے امیدوار کو محض نعروں اور دعووں کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ
اس کی کارکردگی کو دیکھ کر اور اسے اچھی طرح چھان پھٹک کر ہی اپنے اعتماد
کا مستحق سمجھیں گے اس لئے اب سیاسی پارٹیوں کو اپنے منشور وعدوں اور عمل
سب کا پوری طرح خیال رکھنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو وعدے بھی کئے
جائیں انہیں یقینی طور پر روبہ عمل لانے کی منصوبہ بندی بھی پہلے سے کرلی
جائے تاکہ عنان حکومت سنبھالنے کی صورت میں نہ تو وقت ضائع ہو اور نہ عوام
کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔
پاکستان کے متعلق بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہاں انتخابات کے لئے
حالات سازگار نہیں کیونکہ یہاں آئے دن خود کش بم دھماکے ہو رہے ہیں، ٹارگٹ
کلنگ کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ دہشت گردی، فرقہ واریت محاذ آرائی یہاں
کہ تک سویلین افراد اور اداروں کے علاوہ قانون نافذ کرنے اور ملک کی سرحدوں
کا دفاع کرنے والے ادارے بھی اس کا ہدف بن رہے ہیں۔ اس صورتحال پر اضطراب
ایک ناگزیر امر ہے اور یہ تاثر بعض حلقوں میں تقویت پکڑ رہا ہے کہ کیا
الیکشن سے زیادہ قانون سازی اور جمہوریت سے ملک کی سکیورٹی زیادہ اہم نہیں
ان تمام سوالات کے اندر بلاشبہ خلوص کا عنصر موجود ہو سکتا ہے لیکن اس سے
یہ شکوک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں کہ کیا الیکشن کے التواءکے نتیجے میں ملک
جمہوریت کی پٹڑی پر سے نہیں اترے گا۔ جمہوریت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ عوام
خود اپنے نظام کو چلائیں اور اس کی کامیاب پیش رفت کو یقینی بنائیں۔ بلاشبہ
بعض اوقات انتخابات کے ذریعے اچھے اور مخلص لوگ منتخب ہو کر سامنے نہیں آتے
لیکن 5 سال کی آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کے بعد عوام کو تبدیلی لانے کا
موقع بہر حال ملتا ہے جبکہ آمریت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں نہ آئین اسے
تحفظ فراہم کرتا ہے پاکستان میں غیر جمہوری ادوار میں بلاشبہ بعض حلقوں میں
معاشی ترقی تو ہوئی لیکن معاشرے کی تقسیم در تقسیم کی سیاست، دہشت گردی،
لسانی، نسلی، سیاسی اور گروہی بنیادوں پر نااہل اور غیر مستحق افراد کو
نوازنے اور عوام کو درپیش روزمرہ مسائل میں اضافے کے علاوہ سیاست، جمہوریت
اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد متزلزل ہونے کے باعث ہر انتخاب میں ٹرن
اوور میں کمی آتی گئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بعض غلط فیصلوں کے وجہ سے
ملک کو کئی عشروں تک اس کی سزا بھگتنی پڑی اگر ان ادوار میں جمہوریت قائم
رہتی تو نہ حکمرانوں کو من مانے فیصلے کرنے کی ہمت ہوتی، نہ اپوزیشن اور
عوام کا دباﺅ انہیں ملکی مفادات پس پشت ڈالنے کا موقع دیتا۔ بنیادی بات یہ
ہے کہ انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ کیونکہ انتخابات نام ہی تبدیلی اور حرکت
کا ہیں۔ انتخابات قوم کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لے جانے اور ایک
حکومت کی جگہ دوسری حکومت کو لانے کا ذریعہ ہیں۔ انہیں ملتوی کرنے یا پس
پشت ڈالنے کا مطلب قوم کو جمود کی حالت میں رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔
انتخابات کے بروقت انعقاد سے ہی قوم متحرک ، فعال اور سرگرم رہے گی اور قوم
کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا انتخابات کے مقررہ وقفوں کے بعد انعقاد کے عمل
سے ایک بہتر معاشرہ، بہتر پارلیمنٹ، بہتر حکومت کے قیام کی سمت سفر جاری
رہے گا۔ |