گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کا
صنعتی دارالحکومت کراچی شدید بدامنی کا شکار رہا۔ایک طرف عباس ٹاﺅن میں
دھماکوں سے 50 کے قریب اموات سے فضا سوگوار تھی، تو دوسری جانب ٹارگٹ کلنگ
کے بڑھتے واقعات نے شہریوں کا جینا محال کردیا۔ 6 مارچ بدھ کے روز چیف جسٹس
اور آرمی چیف کی کراچی میں موجودگی کے باوجود ’نامعلوم افراد‘ سرگرم ہوئے
اور انہوں نے آدھے گھنٹے میں پورا شہر بند کرادیا، قانون نافذ کرنے والے
ادارے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اور انتظامیہ، پولیس، رینجرز اورسیکورٹی اداروں
میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے کاروبار زندگی بحال کرنے کے لیے ہاتھ پاﺅں
مارنا شروع کیے، ایم کیو ایم کو غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی کال واپس لینا
پڑی۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے لوگوں کا سکھ،
چین اور امن چھین لیا ہے۔ کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں۔ روزانہ قتل و
غارت گری کی درجنوں وارداتیں اور ان کے بعد دھرنے اور ہڑتالیں معمول بن گئی
ہیں۔ بے روزگاری کے علاوہ آئے دن کاروبار بند ہونے سے ہزاروں نہیں، لاکھوں
گھروں میں بنیادی اشیائے صرف کی قلت کے باعث فاقوں کی نوبت آگئی ہے، لیکن
کوئی بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اس صورت حال کا اثر حکومت
نہیں، عام آدمی پر پڑے گا۔ جو لوگ دہاڑی پر کام کرکے اپنے بال بچوں کے لیے
رزق کماتے ہیں، ان کی کسمپرسی کا خیال کسی کو نہیں آتا۔
انتخابات کے اعلان سے قبل ہی کراچی کے حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔
آرمی چیف کی کراچی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش اور پھر کور کمانڈروں کے
اجلاس کے بعد سامنے آنے والی خبروں نے ریاست کے طاقت ور اداروں کی بے چینی
ظاہر کردی ہے، یہ ایک واضح پیغام ہے کہ کراچی کے معاملے میں اب مزید تساہل
سے کام نہیں لیا جائے گا.... یہ اہلِ کراچی والوں کے لیے ایک حوصلہ افزا
پیش رفت ہے۔ اگر سیکورٹی ادارے امن کے لیے آپریشن کا آغاز کریں گے تو
رکاوٹیں بھی بہت آئیں گی، مگر ان کے پیش نظر سیاسی جماعتوں سے زیادہ شہریوں
کا تحفظ اور مفادات زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ ایک جانب ملٹری انٹیلی جنس کو
کراچی کے حالات پر تشویش ہے تو دوسری جانب ریاست کے ایک اور طاقت ور ستون
عدلیہ کی جانب سے بھی حکومت اور ریاستی اداروں پر دباﺅ ہے کہ وہ کراچی میں
قیام امن کو ممکن بنائے اور کسی کو شہریوں کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہ
دیں۔
سپریم کورٹ نے سانحہ عباس ٹاﺅن پر عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ
سندھ حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ قبل ازیں عدالت
نے ریمارکس دیے تھے کہ کراچی میں آپریشن کلین اپ ناگزیر ہے۔ جہاں تک
انتظامی سربراہ یعنی وزیر اعلیٰ کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں سپریم کورٹ
صاف لفظوں میں کہہ چکی ہے کہ انہیں تو کچھ پتا ہی نہیں۔
سپریم کورٹ نے قائم مقام آئی جی سندھ غلام شبیر اور ڈی جی رینجرز کو حکم
دیا کہ جائیں شہریوں کو تحفظ دیں، عدالت آپ کی پشت پر کھڑی ہے۔ اس سے بخوبی
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کراچی میں قیام امن کے لیے سنجیدہ
اور کوشاں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کا ہر کام تو عدالت نہیں کرسکتی....
کیوں کہ ہمارے حکمران تو گزشتہ پانچ برسوں سے مفاہمتی پالیسی پر عمل پیرا
ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے کہ حکومت نے جیسے تیسے اپنی آئینی
مدت پوری کرلی، لیکن اس کی قیمت ہمیں امن و امان کے ناپید ہونے کی صورت میں
ادا کرنا پڑی اور کوئی نہیں جانتا کہ پانچ سال سے جاری یہ صورت حال آیندہ
کب تک قائم رہے۔
یوں تو مفاہمت کا کھیل پورے ملک میں کھیلا گیا لیکن اس کے سب سے زیادہ مضر
اثرات اہل کراچی کو بھگتنا پڑے۔ اس تباہی و بربادی میں حکومت ہی نہیں، اس
کی اتحادی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ چیف جسٹس کے بقول کراچی میں کوئی
فرقہ وارانہ لڑائی نہیں بلکہ سیاسی رسہ کشی ہورہی ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے۔
اس کی مثال عباس ٹاﺅن میں ہونے والے بم دھماکے ہیں۔ جس میں اہل سنت اور اہل
تشیع دونوں فرقوں کے افراد نشانہ بنے۔ لیکن ہمارے میڈیا اور بعض سیاسی
جماعتوں نے اسے بھی فرقہ واریت کا رنگ دے دیا۔ اور یہ تاثر دینے لگے جیسے
اس دھماکے میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ فرقہ وارانہ
لڑائی نہیں بلکہ دہشت گردی کی ایک کھلی واردات تھی۔ افسوس تو اس بات پر ہے
کہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردوں کی سازشوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اگر
یہ کراچی میں قیام امن کے لیے مثبت پیش رفت کرتیں تو اس کے بہتر نتائج نکل
سکتے تھے۔ شاید آج ہم اس بدترین صورت حال سے دو چارنہ ہوتے۔ ہر جماعت
انتخابات میں ووٹ کے حصول کے لیے تو پرکشش نعرے لگاتی ہے، لیکن بعدازاں
عوام اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا بھول جاتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کا اعلان
کردیا ہے جس میں انہوں نے کراچی کو مافیا سے آزادی کرانے کے عزم کا اظہار
کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی ملک کا اقتصادی دارالحکومت ہے۔ اسے دہشت گردوں
اور مافیا کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔
اگرچہ مسلم لیگ ن اس وقت سندھ میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں
ہے، لیکن اس نے سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی (ف) جماعت اسلامی اور
دیگر قوم پرست جماعتوں کے اشتراک سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے،
پنجاب میں اس کی حکومت کو تمام آزاد اور غیر جانبدار ذرائع نے پیپلزپارٹی
کی وفاقی اور تین دیگر صوبائی حکومتوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ جس کے باعث
آیندہ انتخابات میں ن لیگ کے کامیاب ہونے کے امکانات ہیں۔ پنجاب اور سندھ
ملک کے دو بڑے صوبے ہیں۔ یہاں کامیابی کی صورت میں ن لیگ اپنی اتحادی
جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ اپنے
منشور میں ن لیگ نے کراچی کے حوالے سے جو دعوے کیے ہیں، اس کی بدولت اسے
یہاں پذیرائی مل سکتی ہے۔ کیوںکہ ن لیگ نے اپنے منشور کو عوام کے لیے قابل
قبول بنانے اورکراچی کے مسائل پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ یہاں کے باسی
پہلے ہی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے تنگ ہیں اور وہ کسی متبادل قیادت کی
تلاش میں ہیں جو ان کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوسکے۔
صدر زرداری نے ایک بار پھر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے رینجرز اور
پولیس کو فری ہینڈ دے دیا ہے، اس دفعہ صدر مملکت نے تنبیہ کی ہے کہ جو
پولیس افسر نتائج نہیں دے سکتے وہ گھر چلے جائیں.... کراچی میں جب بھی
حالات دگرگوں ہوتے ہیں تب صدر مملکت اسی طرح نوٹس لینے کے احکام جاری کرکے
بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ ان احکام پر نمائشی حد تک عمل درآمد ہوتا ہے لیکن
کراچی میں مستقل قیام امن کا مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔ اس دفعہ صدر مملکت کے
احکام کیا رنگ لاتے ہیں، یہ آیندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا۔
کراچی میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ شہری ووٹ کے ذریعے ایمان دار اور
مخلص قیادت کو آگے لائیں۔ کیوں کہ کرپٹ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کے بعد
نوٹس کا مطالبہ سپریم کورٹ سے کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ تو اپنا کام کررہی
ہے۔ لیکن اہل کراچی کو بھی قیامِ امن کے لیے اب اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
انتخابات سر پر ہیں، لہٰذا کراچی کی بدامنی کی ذمہ داری جماعتوں کو
انتخابات میں مسترد کرکے ہی ان سے اس کا انتقام لیا جاسکتا ہے۔ |