مذاق تو مت اُڑائیے

مانا کے دیش کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ میں بھی غریبوں کی جیبوں میں کچھ زیادہ پیسے آنے لگے ہیں۔اور دیش کی طرح ہی جھارکھنڈ میں بھی فی کس آمدنی میں اضافہ ہواہے۔لیکن اتنا بھی نہیں کہ یہ مان لیا جائے کہ جھارکھنڈ سے غریبی ختم ہوچکی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ 5.19لاکھ بی پی ایل خاندانوں کے علاوہ بھی تقریباً14 لاکھ خاندان ایسے ہیں جن کو ایک شام کھانے کے بعد دوسرے شام کے کھانے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔اسی لئے بار بار ریاست میں بی پی ایل کا سروے نئے سرے سے کرانے کی مانگ اٹھتی رہی ہے۔لیکن مرکزی حکومت نے غربت کا جو پیمانہ طے کررکھا ہے اس کے مطابق جھارکھنڈ میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد5.19لاکھ سے آگے بڑھ ہی نہیں رہی ہے۔جب ریاست میں شیبو سورین اور اس کے بعد ارجن منڈا کی حکومت چل رہی تھی تب کئی بار کوشش کی گئی کہ بی پی ایل خاندانوں کا نیا سروے کراکر انہیں لال کارڈ مہیا کرایا جائے تاکہ انہیں ہر مہینہ دو روپے کیلو کے حساب سے چاول اور گیہو ں مہیا کرایا جاسکے۔لیکن یہ کوشش کبھی بار اور ثابت نہیں ہوئی۔حد تو یہ کہ اے پی ایل خاندانوں کے لیے راشن کارڈ بنانے کی خاطر بھی خوب جد وجہد ہوئی۔لیکن برسوں بیت جانے کے باوجود کسی ایک جھارکھنڈی خاندان کو بھی سبز راشن کارڈ نہیں مل سکا۔ارجن منڈا کی سابقہ حکومت میںوزیر خوراک وسول سپلائی رہے،جے ایم ایم کے متھرا پرساد مہتو نے ہر دوسرے مہینے دعویٰ کیا کے اگلے مہینے اے پی ایل کارڈ تقسیم کرادئیے جائیںگے۔یہ اور بات ہے کہ راشن کارڈ تقسیم کرانے سے پہلے ہی ان کی حکومت چل بسی۔

یہ بیحد تلخ حقیقت ہے کہ جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے اب تک سبز راشن کارڈ رکھنے والوں کو سرکاری سستے غلے کی دکانوں سے چھٹانک بھراناج بھی دستیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔جبکہ 15نومبر2000سے قبل سبز راشن کارڈ رکھنے والے ہر خاندان کو بیحد سستی قیمت پر 20کیلو گیہوں15کیلو چاول،8کیلو چینی اور 5لیٹر کراسن تیل ہر مہینےملا کر تا تھا۔اس سے غریب گھروں میں لوگوں کو کم ازکم پیٹ بھرنے کےلیے فکر مند نہیں ہونا پڑتاتھا۔جھارکھنڈ بننے کے بعد صرف لال کارڈوالوں کو سستی شرح پر 35کلو اناج ہر مہینے مہیا کرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران انتو دے اور انپورنا یوجنا بھی چلایا گیا۔کہا گیا کہ ان منصوبوں کے تحت بیحد غریب خاندانوں کو مفت میں اناج مہیا کرایا جارہاہے۔لیکن اس جھوٹ کا پردہ اس وقت چاک ہوا جب 2005میں صدر راج کے دوران اس وقت کے گورنر سید سبط رضی نے خاص طور پر ہدایت جاری کی کہ انتو دے، انپو رنا منصوبوں کے ساتھ ساتھ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے بی پی ایل خاندانوں کو بھی دو روپے کلو کے حساب سے ہرمہینے 35کلو اناج مہیا کرایا جائے۔اس ہدایت کے بعد کئی مہینوں تک لگاتار غریبوں کو ٹھیک ٹھاک اناج ملتا رہا۔لیکن پھر گاڑی پٹری سے اتر گئی۔آئے دن اخباروں میں خبریں شائع ہوتی ہیں کہ غریبوں کا اناج کالابازار ی میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔اس صورت حال کو سدھارنے کے لیے حکومت کی جانب سے کبھی کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں ہوئی۔جب بی پی ایل والوں کی سدھ لینے والا ہی کوئی نہیں ہے تو اے پی ایل والوں کو کون پوچھتا ہے؟

دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست میں رائج سرکاری ضابطے کے مطابق آج بھی اے پی ایل خاندانوں یعنی سبز کارڈ رکھنے والوں کو 6روپے 18 پیسے فی کیلو کے حساب سے 15کلو گیہوں اور 8روپے 35پیسے فی کلو کے حساب سے 12کیلو چاول اور تقریباً10 روپے لیٹر کے حساب سے 2لیٹر کراسن تیل ہر ماہ دئے جانے کاقانون موجود ہے۔لیکن محکمہ فوڈ سپلائی کے سکریٹریوں کو بھی یہ پتہ نہیں کہ آخر اے پی ایل کارڈ والوں کو پچھلے 13برسوں سے ریاست میں ایک چھٹانک اناج بھی کیوں نہیں ملا؟پچھلے سال جب وزیر اعلیٰ وقت ارجن منڈا نے ریاست کے نظام کو چست درست بنانے کے لیے انٹر نیٹ خدمات کا سہارا لیتے ہوئے سی ایم ڈاٹ کام چالو کرتے ہوئے ریاست کے باشندوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ پینے کے پانی اور فوڈو سول سپلائی جیسے محکمے سے متعلق اپنی شکایت براہ راست سی ایم ڈاٹ کام پر کر سکتے ہیں اور شکایت کا جواب بھی انہیں ہر حال میں دیا جائیگا، تب ارجن منڈا کے اس سسٹم پر جب اے پی ایل کارڈ پر سرکار ی سستے غلے کی دکانوں سے اناج نہ دئے جانے کی وجہ پوچھی گئی تھی تو 8 دن بعد رانچی کے سول سپلائی آفیسر نے شکایت کنندہ کے موبائل فون پر اطلاع دی کہ اس بارے میں ان کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جواب سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے ذریعہ بنایا گیا سسٹم بھی فیل رہا۔

اب ریاست کے فوڈ و سول سپلائی اور امور صارف محکمہ کے موجودہ سکریٹری اجے کمار سنگھ نے کہاہے کہ سرکاری سستے غلے کی دکانوں کو راشن اٹھانے کی سہولت کےلیے این ای ایف ٹی (نیشنل الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر)نافذ کیا جارہاہے۔اس کا مطلب شائد یہ ہوا کہ اب سرکار ی سستے غلے کی دکانوں سے تمام راشن کارڈ یافتگان کو طے شدہ ضابطوں کے مطابق راشن ملنے لگے گا۔لیکن پچھلے 13 سال کے تجربات اس بات کو قابل بھروسہ ماننے سے روکتے ہیں۔فوڈ وسول سپلائی اور امور صارف محکمہ کے سکریٹری نے سسٹم سدھار نے کی بات تو کہی ہے لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی دینے کو وہ بھی تیار نہیں ہیں کہ اے پی ایل خاندانوں کو راشن ملے گا ہی،اس لئے اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ غر یبو ں کا مذاق تو مت اُڑا ئیے۔(مظفر حسن، را نچی۔جھا رکھنڈ، انڈیا )
muzaffar Hasan
About the Author: muzaffar Hasan Read More Articles by muzaffar Hasan: 4 Articles with 2415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.