پاک ایران سربراہان کا جرات مندانہ فیصلہ

پاکستانی اور ایرانی سربراہان نے امریکا کی تمام تر دھمکیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن کا افتتاح کر کے یقینا ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔تمام ممالک کو اپنے مفاد عزیز ہوتے ہیں اور یہ ہر ملک کا بنیادی حق ہے کہ تمام اقدامات اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کرے۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہاکستان کے لیے انتہائی مفید اور ضروری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں گیس کے بطور مرکزی ایندھن استعمال میں اضافہ ہوا۔پاکستان میں گیس کا استعمال تو بڑھالیکن اس کی پیداوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوا بلکہ پیداوار کم ہوتی گئی۔ بلوچستان کے علاقے سوئی میں واقع گیس کے مرکزی ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ابھی تک ہم اس پیمانے کے نئے دخائر دریافت نہیں کر سکے ہیں۔

پاکستان میں گیس کے ذخائر کی مقدار 31.03ٹر یلین مکعب فٹ ہے۔ ان میں سے روزانہ 4.2ارب مکعب فٹ روزانہ استعمال ہو رہی ہے۔ پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے مطابق 2025ءمیں یہ مقدار ایک ارب مکعب فٹ تک رہ جائے گی۔ آج ہماری کمی ایک ارب مکعب فٹ روزانہ سے کچھ زیادہ ہے، بارہ سال بعد یہ کمی آٹھ ارب مکعب فٹ روزانہ تک پہنچ جائے گی اور یہی پاکستان کی قدرتی گیس کے متبادل ذخائر کی تلاش میں جلدی کی بنیادی وجہ ہے۔جبکہ ہماری ضرورت پوری کرنے کے لیے اس منصوبے سے یومیہ 75کروڑ مکعب فیٹ گیس کی درآمد کے لیے ایرانی کمپنی پاک ایران بارڈر سے پاکستان میں پائپ لائن تعمیر کرے گی ۔بیالیس انچ قطر کی اس پائپ لائن کی کل لمبائی 2775 کلومیٹر ہے جس میں سے 785 کلومیٹر طویل پائپ لائن پاکستان میں بچھے گی۔دس دسمبر 2014ءتک پاکستان کو ایران سے گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔پاکستان کوایران کے جنوب میں واقع پارس گیس فیلڈ سے56 انچ قطرکی پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جائے گی، گیس پائپ لائن پرکل لاگت کا تخمینہ 7 ارب 50 کروڑ ڈالرز لگایا گیا ہے جبکہ پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو 55 ارب مکعب میٹرگیس سالانہ مل سکے گی جبکہ 2 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل ہوگی۔

پاک ایران گیس منصوبہ بلاشبہ پاکستان کے مفاد میںہے،جس کی شروعات 1994ءمیں ہوئیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہا۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کی خبروں کے بعد سے امریکا کے لیے پاکستان ایران گیس منصوبہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ وہ اس منصوبے کی ہر طرح سے مخالفت کر رہا ہے۔امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو روکنے کیلئے دھمکیوں پر اتر آیا ہے اور پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پابندیوں کی زد میں آنے والے امور سے دور رہا جائے۔ امریکی سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن پاکستان کودھمکی دے چکی ہیں کہ اگر پاکستان نے پائپ لائین کی تعمیر شروع کی تو اس سے امریکی قانون کی خلاف ورزی ہوگی جس کے اثرات پاکستان اور ایران دونوں پر پڑ سکتے ہیں۔امریکا کا اصرار ہے کہ پاکستان کے پاس توانائی بحران کم کرنے کے دیگر راستے بھی موجود ہیں جن میں ترکمانستان کے گیس فیلڈ سے افغانستان کے راستے گیس پائپ لائن بھی شامل ہے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن کے افتتاح کے بعد امریکا نے ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا اورپاک ایران گیس لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ’ ہم نے ماضی میں دس سے پندرہ بار سن رکھا ہے کہ اس منصوبے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس لیے ہمیں دیکھنا ہے کہ حقیقت میں کیا ہوتا ہے۔ پاکستان پر پابندیوں کے خدشات کو کم نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو ہمیں سخت تشویش ہے کہ پابندیوں کا اطلاق ہو سکتا ہے۔‘ ’انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب امریکا توانائی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور اگر گیس پائپ لائن منصوبہ حقیقتاً آگے بڑھتا تو یہ پاکستان کو غلط سمت میں لے جائے گا۔‘

ایک طرف امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ امریکا کی دھمکیاں صرف ڈرانے کے لیے ہیں حقیقت میں وہ ان دنوں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنی دھمکیوں پر عمل کرسکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اس وقت افغانستان میں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور وہ افغانستان سے انخلاءکا منصوبہ بنا رہا ہے، امریکا افغانستان کی جنگ سے تنگ آچکا ہے، اب وہ یہاں سے جاناچاہتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ بہت لمبی اور بے حد مہنگی افغان جنگ اب اپنے آخری باب میں داخل ہو گئی ہے۔ اسی لیے امریکا نے2014ءمیں افغانستان سے واپسی کا وقت بھی دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں افغان صدر حامد کرزئی کا دعویٰ تھا کہ افغانستان بہت جلد اپنے طور پر اپنے دفاع کے قابل ہو جائے گا۔ امریکا کو ان حالات میں پاکستان کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکا طالبان کے ہاتھوں افغانستان سے سلامتی کے ساتھ واپس نہیں جاسکتا، امریکا افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کا محتاج ہے، وہ پاکستان کو پابندیوں میں جکڑ کر اپنے لیے مزید مشکلات نہیںکھڑی کرنا چاہتا۔ اس کی دھمکیاں صرف خالی خولی ہیں۔”دی اسٹریلین“ کے مطابق امریکی حکام پاکستان پر شاید پابندیاں عائد کردیں،لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی حکام افغانستان سے امریکی فوج کے بحفاظت انخلاءکے لیے پاکستان کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھ رہا ہے۔ اگر امریکا نے پابندیاں عائد کیں تو وہ صرف علامتی ہوں گیں، اس کے اثرات پاکستان پر زیادہ دیر نہیں رہیں گے۔ چینی جریدے مارننگ پوسٹ کے مطابق ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پوزیشن اس وقت امریکا کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے کیوں کہ امریکا اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز اور انخلاءکی حکمت عملی کے حوالے سے پاکستان کے دباﺅ میں ہے، امریکا افغانستان سے بحفاظت انخلاءکے لیے پاکستان کی عملی مدد کا طالب ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی حکومت پاک ایران گیس پائپ لائن کے بارے میں خالی خولی دھمکیاں دے رہا ہے۔

یہ تو واضح ہوچکا کہ امریکا پاک ایران گیس منصوبے پر عمل کرنے کی راہ میںرکاوٹیں کھڑی کرنا نہیں چاہے گا، اب ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس منصوبے کو پورے اخلاص کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے، اس بحران کو اسی منصوبے کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایک اچھا اور انتہائی مفید قدم ہے۔ اگرچہ منصوبے کو شروع کرنے کا اعزاز موجودہ حکومت کو حاصل ہواہے لیکن اس کی تکمیل کا سارا کام اگلی حکومت کے عہد میں ہوگا، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ابھی سے یہ طے کرلیا جائے کہ حکومت چاہے کوئی بھی ہو، یہ منصوبہ بہرحال مکمل ہوگا اور اس سلسلے میں کوئی عالمی یا امریکی دباﺅ قبول نہیں کیا جائے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.