پاکستان پیپلز پارٹی جب اقتدار
میں آئی تو انھوں نے لوگوں سے بہت سے وعدے کیے جن میں روزگار کی فراہمی ملک
میں جاری بحرانوں کا خاتمہ اور دیگر کئی مسائل کوحل کرنے کے بارے میں
اعلانات کیے گئے اور حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے بارے میں جب
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ہم ان پہلے سو دنوں میں اپنی کارکردگی عوام کو دیکھا ئیں گے جس
سے آپ لوگ بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ ہماری کارکردگی اور سابق صدر مشرف
کی کارکردگی میں کتنا واضح فرق ہے ہم جمہوری لوگ ہیں اور وہ ایک آمر تھا
تمام پاکستانیوں کو محسوس ہوا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے لئے کچھ کرنے
جا رہی ہے شاید وہ اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تاریخ کو دھرانے
جا رہی ہے جنھوں نے پاکستان کی عوام کی تقدیر کو بدلنے کی اپنی کوشش کی تھی
جنھوں نے امت مسلمہ کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی تھی جنھوں نے پاکستان کو ایک
ایٹمی پاکستان بنانے کا عزم کیا تھا جنھوں نے پاکستان کو مسلم دنیا کا
ٹائیگر بنانے کی کوشش کی تھی مگر افسوس صد افسوس کے گیلانی صاحب کے پرائم
منسٹر بنتے ہی وہ عوا م سے کیے گئے وعدے بھول گے اور ان اپنے اقتدار کو
قائم رکھنے کے لئے وہ کچھ کر گئے جس کی وجہ سے اقتدار بھی نہ رہا اور وزات
اعظمیٰ بھی گئی ۔اب جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے وہ پانچ سال پورے کر لئے ہیں
جو کہ حکومت کے لئے خوشی کا باعث ہیں مگر پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کو
اپنے اوپر مشکل ترین پانچ سالہ دور حکومت کہتی ہے جس کا برملا اظہار ہر
مکتبہ فکر کے لوگ جن میں بوڑھے نوجوان مرد اور عورتیں شامل ہیں کرتے نظر
آتے ہیں اب جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی خود یہ بات محسوس کر رہی ہے کہ وہ
پاکستان کے عوام کو ان گزرے پانچ سالوں میں کچھ بھی نہیں دے سکی نہ روٹی
کپڑا مکان اور نہ ہی ان بے شماربحرانوں سے نجات دلا سکی جس کا آتے وقت
انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان بحرانوں سے عوام کو نجات دلوائیں گے تو
پاکستان پیپلز پارٹی نے سوچا کہ اب کی بار الیکشن میں جانے کے لئے اور
خصوصا پنجاب کو قابو کرنے کی کوشش کی جائے اور تو کوئی بھی ایشو ان کو نظر
نہ آیا البتہ جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا شوشہ چھو ڑ دیا جس
کی وجہ سے وہاں کے سیاسی ماحول میں کافی گرمی پائی جاتی ہے جنوبی پنجاب کے
بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور راقم نے اس سے پہلے کئی بار اس کو
اپنا موضع بنایا ہے جنوبی پنجاب کی اکثریتی آبادی اسے نیا صوبہ بنانے کی
بجائے پرانے صوبے بہاولپور کو دوبارہ بحال کرنے کی بات کرتی ہے جنو بی پنجا
ب اور بہا ولپور صو بے کے معا ملے نے فی الوقت سرا ئیکی بیلٹ کی سیا ست کو
گرما یا ہو اہے جس کی وجہ سے آئندہ انتخا بات میں اس علا قے کی سیا ست کا
محور مجوزہ صو بہ رہے گا مسلم لیگ (ن) دو نئے صو بو ں اور پیپلز پا رٹی
سرائکی کے نا م سے ایک صو بے کی حا می دکھا ئی دے رہی ہے یاد رہے کہ پچاس
کی دہا ئی میں بہا ولپور صو بہ اپنا وجود رکھتا تھا لیکن پھر اسے مغر بی پا
کستان میں ضم کر دیا گیاتھا تاہم اس وقت وہاں پر اس کی کے خلاف مزاحمت نہیں
کی گئی اب اگر وہاں پرانے صوبے کی حیثیت بحال کی جاتی ہے تو اس سے پاکستان
پیپلز پارٹی کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا وہ جس کریڈٹ کے چکر میں ہے
صوبہ بہاولپورکی بحال ہونے کی وجہ سے وہ کریڈٹ محمد علی درانی یاوہاں کی
مقامی جماعتوں کوچلا جائے گا جو کہ پرانے صوبے کی بحالی کی بات کر رہے ہیں
اور جن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لئے آئین میں کئی بڑی ترمیم نہیں کرنی
پڑے گی بلکہ ایک نوٹیفیکیشن سے ہی اس کی وہ پرانی صلاحیت بحال ہو جائے گی
لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے وہاں کے قائدین جن میں یوسف رضا گیلانی صاحب
جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں
اس سارے معاملے میں مسلم لیگ (ن) گو مگوں کی کیفیت کا شکار ہے کیونکہ پہلے
بھی صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے وقت وہ ہزارہ ڈویژن میں ہونے والے سیاسی
نقصان سے بخوبی آگاہ ہے اگر پرانے صوبے کی بحالی کے بجائے نیا سرائیکی صوبہ
بنا دیا گیا توخدانخواسطہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی جب صوبہ
خیبر پختون خواہ کا نام رکھا گیا تھا تو اس وقت ہزارہ کے لوگ سڑکوں پر نکل
آئے تھے اور کئی لوگ اس میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور جس کا سب
سے زیادہ سیاسی نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا تھا جس کے بعد وہ وہاں کی سیٹ
بھی ہار گئے تھے یہاں ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ یقینا یہ بات جنوبی
پنجاب کے عوام کے ذہنوں میں ہو گی کہ عوام کو اپنے دور حکومت میں کچھ بھی
نہ دینے والے لوگوں نے اپنی سیاست کی ڈھماں ڈھول کشتی کو بچانے کے لئے ایک
نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے جس کے سد باب کے لئے جنوبی پنجاب کے عوام کو خود
سوچنا ہو گا پیپلز پا رٹی جسے ما ضی میں ہو نے والے انتخابات میں جنو بی
پنجا ب سے نسبتاً زیا دہ نشستیں ملتی رہی ہیں اب کی باربھی میدان مارنے کے
چکرمیں ہے مسلم لیگ (ن)(ق) ،پیپلز پا رٹی اورایم کیو ایم اپنے طور پر اس کا
کر یڈٹ لینے کے کو شاں ہیں پا رلیمنٹ اپنے اختتا می اجلاسوں کے انعقاد کی
جا نب گا مزن ہے انتخا با ت سے پہلے صو بہ بنتا ہے یا نہیں اس سے قطع نظر
آنے والے انتخا با ت میں جنو بی پنجا ب کی سیا ست اسی کے گرد گھو متی دکھا
ئی دے رہی ہے اب جبکہ جنوبی پنجاب میں کچھ لوگ سرائکی صوبے کے حمایتی ہیں
تو پرانے صوبے بہاولپور کی بحالی کے بھی کچھ کم نہیں اور اگر کسی بھی سیاسی
مصلحت کی وجہ سے جلد بازی میں کوئی بھی صوبہ بنانے کا علان ہو جاتا ہے تو
وہاں فساد کا خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے امن و مان کا مسئلہ پیش آ سکتا ہے
اور یہ سب ان طاقتوں کی خواہش ہے جو پاکستان میں آنے والے الیکشن کو روکنا
چاہتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر سیاست نہ کی جائے اور اس
تمام معاملے کو آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ جلدبازی سے الیکشن
کے التوا کاامکان پیداہوسکتا ہے کو ن فصل کا ٹے گا اس کا فیصلہ تو الیکشن
کی بسا ط مکمل بچھنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ |