قائدین جماعت اسلامی کی رحلت

2012 ءجاتے جاتے اور 2013ءنے آتے ہی وطن عزیز کی سب سے منظم دینی اور سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کو پے در پے تین بڑے صدمات سے دو چار کیا ہے۔ سابق ا میر جماعت اسلامی اورملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سربراہ قاضی حسین احمد کی رحلت سے چند دن پہلے نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر غفور احمد بھی مختصر علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ ان سے ایک ہفتہ قبل بہت ہی پیاری٬ علمی ٬ ادبی ٬ سماجی شخصیت اور روزنامہ جسارت کراچی کے بانی پبلشر سید ذاکر علی کا بھی کراچی میں انتقال ہو گیا تھا۔تینوں قائدین بھرپور اور مثالی زندگی گزار کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے ہیں۔تینوں ہی باکمال اور گوناگوں اعلی صفات کی حامل شخصیات تھیں۔وہ اپنے پیچھے جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان کے علاوہ مداحوں کا ایک بڑا حلقہ بھی سوگوار چھوڑ کر گئے ہیں۔بانی جماعت اسلامی حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی دعوت پر لبیک کہنے والی ان محترم شخصیات نے اپنی ساری زندگی اور اس کے ایک ایک لمحے کو اللہ کے دین کے غلبہ کی تحریک کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ حقیقت میں وہ پہاڑی کے چراغ تھے۔انہوں نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو بدل کے رکھ دیا ۔وہ علامہ اقبال ؒ کے شاہین کی صفات کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے۔راقم الحروف کو تینوں قائدین کو بہت قریب سے دیکھنے ٬ ان کو سننے اور ان سے بات چیت کا بھی موقع ملتا رہا ہے۔بہت سی یادیں اور واقعات ہیں کہ جو ذہن میں محفوظ ہیں۔(ان شاءاللہ جلد ہی ان سب کو حوالہ قرطاس کرنے کی کوشش کروں گا)۔

وہ ہر طرح کے حالات میں سینہ سپر رہے۔مشکل سے مشکل وقت بھی چٹان کی طرح اپنے مشن کے لیے ڈٹے رہے اور کبھی بھی ان کے قدم متزلزل نہ ہوئے۔ان بزرگوں کا دنیا سے اٹھ جانا صرف جماعت اسلامی کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک اور قوم کے لیے بھی ایک عظیم نقصان اور سانحہ ہے۔لوگ ان سے بے لوث پیار کرتے تھے ۔وہ بھی ہر ملنے والے کے لیے بازو کشادہ رکھتے تھے ۔ہم نے دیکھا کہ لوگ ان سے اپنے ذاتی مسائل اور معاملات کے سلسلے میں بھی رجوع کرتے تھے۔یقینا وہ ہم سب کے لیے اور ہمارے معاشرے کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔وہ سراپا خیر اور عوام کے مونس و غم خوار تھے۔عام آدمی اور گلی محلے کے معاملات سے لے کر ملک و قوم اور امت مسلمہ کو در پیش مسائل کے لیے تڑپتے تھے۔وہ جہدمسلسل کا عملی نمونہ تھے۔جس جس فرد کو ان اعلی صفات کی ہستیوں سے ملنے ٬ان سے بات چیت کرنے اور دوسروں کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ وہ ضرور گواہی دیں گے کہ مرحومین حقیقی عوام دوست راہنماتھے۔ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔وہ مایوسیوں اور اندھیروں میں امید کے چراغ جلانے والی شخصیات تھیں ۔وہ کبھی بھی حالات کی سنگینی کے شکوہ کناں نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔اسلام پر کامل ایمان اور اپنے نظریے پر پختہ یقین ان کااثاثہ تھا۔ فریضہ اقامت دین کی تحریک کے ایک سپاہی اور قائد کی حیثیت سے اپنے اعلی اخلاق اور صاف ستھرے کردار کے بل بوتے پر وقت کے جابرحکمرانوں کو للکارتے رہے۔اپنی دینی اور سیاسی جدوجہد کے دوران ہر قسم کی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیاہے۔بارہا قیدوبند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں۔سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنائے گئے۔مگر وہ کبھی بھی نفرت اور تعصب کی بات زبان پر نہیں لائے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے بھی کبھی بازاری اور گھٹیازبان استعمال نہیںکی۔ان کی زندگی کے شب وروز بھی ان کی زبان اور لباس کی طرح اجلے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کٹر سیاسی مخالفین بھی کبھی ان کی امانت و دیانت اور حب الوطنی پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمدقومی اسمبلی اور سینٹ کے بھی رکن رہے ہیں۔الحمد للہ صاف دامن گئے تھے اور صاف دامن ہی واپس بھی آ گئے۔ان کی زندگیاں کھلی کتاب کی طرح ہیں۔جو دل میں تھا وہی زبان پر بھی تھا۔ قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ اسلام اور ملک کے حوالے سے کبھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

جماعت اسلامی کے راہنماﺅںقاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد کی رحلت پر میڈیا نے مرحومین کو بہت اچھا خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تمام اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلوں نے ان کی وفات اور جنازے کی خبروں کونمایاں انداز میں جگہ دی ہے۔جبکہ بڑے بڑے قومی اخبارات نے خصوصی رنگین ایڈیشن بھی شائع کئے ہیں۔اخبارات ورسائل نے اداریے اور تعزیتی نوٹ لکھ کر مرحومین کی قومی اور سیاسی خدمات کو اچھے الفاظ میں سراہا اور ان کی وفات کو قومی نقصان قرار دیا ہے۔ بے شمار کالم نگاروں اور دیگر لکھاریوں نے بھی قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد کی کئی عشروں پر محیط قومی اور ملی خدمات کوشاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ٬ ذاتی روابط اور تعلقات کے بھی بہت خوبصورت انداز اور الفاظ میں تذکرے کیے ہیں۔باالخصوص قاضی حسین احمد کی رحلت پر تعزیت اور ریفرنسز کا سلسلہ ملک کے کونے کونے میں چلا ہے۔امریکا ٬ یورپ اور اسلامی ممالک میں بھی بہت سے مقامات پر تعزیتی پروگرام ہوئے ہیں۔ قاضی حسین احمد کی تو غائبانہ نماز جنازہ حرم پاک میں بھی ادا کی گئی ہے اور امام کعبہ نے خود اس کی امامت کی ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ

سید ذاکر علی (مرحوم) سے بارہا ملنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ وہ صاحب زبان تھے ٬ان سے بہتر اور شستہ اردو بولنے والا شخص میں نے کوئی اور نہ دیکھا اور نہ سنا۔جب وہ اپنے مخصوص انداز اور لہجے میں اردو بولتے تو سننے والا ایک دفعہ تو چونک کران کے چہرے کی طرف ضرور دیکھتاتھا۔ وہ مسکرا مسکرا کر اپنی بات کر رہے ہوتے۔علم وادب سے گہرا تعلق ہونے کی وجہ سے اپنے مخاطب اور سامع کو فورا اپنی طرف متوجہ کر لیتے۔وہ ایک نفیس اور شائستہ انسان تھے۔ان کے ساتھ بات چیت کرکے یا ان کی محفل میں بیٹھ کر آدمی کبھی بور نہیں ہوتا تھا۔کراچی سے لے کر خیبر تک اور مظفر آباد سے لے کر گلگت تک وسیع حلقہ تعارف اور سلسلہ احباب رکھتے تھے۔جس موضوع پر بھی ان سے بات کریں ٬ ایسا لگتا تھا کہ اس موضوع پر تو انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔معلومات کا خزینہ تھے۔اب جب بھی ان کی ےاد آتی ہے تو ان کا وہ مسکراتا ہوا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ذہانت ٬متانت٬ سنجیدگی اور بردباری ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ان کی خاموشی میں بھی ایک حسن تھااور جب وہ بولتے تو علم وحکمت کے دفتر کھل جاتے تھے۔اللہ تعالی نے ان کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ اعلی درجے کے منتظم اور اخلاص و مروت کے پیکر تھے۔اس سب کچھ کے باوجود سادگی اور عجز وانکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بہت سے ریٹائرڈسول اور فوجی افسران کے علاوہ بڑے بڑے سیاسی زعماءسے ذاتی تعلقات تھے اور اکثر ان سے ملنا ملانا بھی ہوتا تھا۔ہمیشہ سادہ لباس میں رہتے تھے۔ کروفر اور شاہانہ انداز میں کبھی ان کو نہیں دیکھا گیا۔جب بھی ملاقات ہوتی حال احوال اور دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ پوچھتے آپ کی ادبی تنظیم کا کیا حال ہے ٬اجلاس ہوتے ہیں۔علمی ٬ادبی اور سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے بہت سے واقعات ٬ مختلف دینی ٬ سماجی اور سیاسی راہنماﺅں سے ملاقاتوں کے احوال بڑے ذوق وشوق سے سنایا کرتے تھے۔کچھ عرصہ پہلے منصورہ میں ملاقات ہوئی (جو کہ آخری ثابت ہوئی) تو خاصے کمزور دکھائی دیئے۔میں نے صحت سے متعلق پوچھا تو کہنے لگے کہ دعا کریں۔صحت اب ٹھیک نہیں ہے۔پھر دسمبر 2012 ءکے آخری دنوں میںروزنامہ جسارت کراچی میں ان کے انتقال کی خبر نظر سے گزری تو فورا منہ سے انا للہ و انا الیہ راجعون کے الفاظ جاری ہوگئے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی قاضی حسین احمد ؒ ٬ پروفیسر غفور احمدؒ اور سید ذاکر علی ؒکی مغفرت فرمائے ۔ان کی نیکیوں کو قبول کرے ٬بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے مرحومین کوجنت الفردوس میںجگہ عطا فرمائے۔ جملہ پسماندگان اور عزیزواقارب کو اس صدمہ پر صبروحوصلہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Malik Azam
About the Author: Malik Azam Read More Articles by Malik Azam: 48 Articles with 52037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.