پرائم منسٹر بمقابلہ ایکس پرائم منسٹر

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان ؒ کہتے ہیں (میرے والد ) حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں جاکر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے جوئیں بہت پڑجاتی ہیں اس لیے کیا آپ مجھے ریشم کا کرتہ پہننے کی اجازت دیتے ہیں ؟ حضور نے انہیں اجازت دے دی جب حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا انتقال ہوگیا اور حضرت عمرؓ ؓخلیفہ بن گئے تو حضرت عبدالرحمنؓ اپنے بیٹے ابوسلمہؒ کو لے کر سامنے آئے ان کے بیٹے نے ریشم کا کرتہ پہنا ہواتھا حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ کیا ہے اور اپنا ہاتھ کرتے کے گریبان میں ڈال کر اسے نیچے پھاڑ دیا حضرت عبدالرحمن ؓ نے اُن سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے ریشم کی اجازت دے دی تھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا حضو ر ﷺ تمہیں اس لیے اجازت دی تھی کہ تم نے حضور ﷺ سے جووں کی شکایت کی تھی اب یہ اجازت صرف تمہارے لیے ہے تمہارے علاوہ اورکسی کیلئے نہیں ہے ۔

قارئین آج کے کالم کے عنوان سے یقینا آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہم آج کون ساکام کرنے والے ہیں ہم اس تمام کہانی کا ایک خلاصہ آپ کے سامنے رکھنے والے ہیں جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے ساتھ ہے ان ڈیڑھ کروڑ انسانوں میں سے بہت سے انسان ایسے بھی ہیں کہ جو دنیا کی نام نہاد سیکولر جمہوری قوت اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی چھٹی مستقل نشست کے ممکنہ دعویدار اورجلد ہی ڈکلیر کیے جانے والے ملک کی فوجی قوت کا گزشتہ 65سالوں سے مقابلہ کررہے ہیں جی ہاں مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بہادر کشمیری بہن بھائی ایک ایسی قوت کا مقابلہ کررہے ہیں جو جلد ہی انکل سام کی گریٹ گیم کی تحت سیکیورٹی کونسل کاچھٹا مستقل رکن بننے جارہی ہے بھارت نے گزشتہ 65سالوں سے مختلف اوقات میں پانچ لاکھ سے آٹھ لاکھ فوجی صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی تعینات کررکھے ہیں جبکہ دوسری جانب کشمیریوں کا وکیل پاکستان اپنی استعداد کے مطابق آج بھی ٹوٹل 8لاکھ سے دس لاکھ کی تعداد میں فوجی جوانوں پر مشتمل فوجی قوت کامالک ملک ہے طاقت کا یہ تقابل اور جائزہ کچھ بھی نہیں ہے پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کشمیریوں کو اخلاقی سیاسی اور سفارتی مدد کی ہے اور پاکستان نے اسی کشمیرکی خاطر تین بڑی جنگوں سمیت بھارت سے لاتعداد معرکے لڑے ہیں جن میں ہزاروں پاکستانی فوجیوں نے شہادت کا اعزاز بھی حاصل کیا اور آج بھی پاکستان کا سواد اعظم کشمیر کے نام پر لڑنے مرنے کیلئے تیار ہوجاتاہے ۔

جی قارئین آج ہم جس موضوع پر بات کرنے والے ہیں اس کا تعلق انہی کشمیریوں کے ساتھ ہے آزادکشمیر میں ان دنوں سابق وزیر اعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی جانب سے موجودہ وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے خلاف ایک انتہائی جارحانہ قسم کی مہم دیکھنے میں آئی ہے اگر چہ 26جون 2011ءکے انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے بعض حلقوں کے مطابق تین اور بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پانچ بڑوں کے اندر وزرات عظمیٰ کی کرسی کی دوڑ جاری رہی اس کشمکش میں جب فیصلہ ایک ایسی شخصیت کے نام ہوا کہ جو موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید اور سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری دونوں کو قبول نہ تھیں تو اس موقعہ پر ان دونوں نے ”قوم کے اجتماعی مفاد “کی خاطر مل بیٹھنے کافیصلہ کرلیا اور ”مفاہمت “کے درخت پر جو پھل لگا اس پھل سے پہلے موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید مستفید ہوئے اس وقت کچھ تجزیہ کاروں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ چوہدری عبدالمجید کو مخصوص مدت کیلئے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں دی گئیں ہیں اور جو بھی عرصہ طے ہواہے اسے گزارنے کے بعد ”مفاہمت کے پھل یعنی وزارت عظمیٰ “کابقیہ وقت سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو دیاجائے گا ان تجزیہ کاروں کی اس پیشگوئی کو یار لوگوں نے اتنا سنجیدہ نہ لیا اور ”آگئے چھا گئے “کے نعروں کی گونج میں خوشی کے شادیانے اورڈونگرے بجاتے ہوئے چوہدری عبدالمجید کے ”نظریاتی کارکنوں “نے بھی اس بات کو فراموش کردیا اور دیگر سٹیک ہولڈر ز بھی اس انتہائی سنجیدہ بات کو وہ وزن نہ دے سکے جو اس سیاسی پیشگوئی کی نزاکت کا تقاضہ تھا ہم وقتاً فوقتاً اپنے مختلف کالموں میں ”مشتری ہوشیار باش “کی صدا لگاتے رہے اور آج سے پانچ ماہ قبل ہم نے ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں اپنے اُستا دگرامی اور آزادکشمیر کی صحافت کے سرکے تاج راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ متعدد پروگراموں میں اشارتاً اشارتاً اس بات پر بحث کرنے کی کوشش کی کہ آزادکشمیر میں کون سی نئی سیاسی کچھڑی پکنے جارہی ہے اس سلسلہ میں وزیرحکومت عبدالماجد خان ،وزیر اعظم آزادکشمیر کے فرزند چوہدری قاسم مجید ،محترمہ فریال تالپور اور آصف علی زرداری صدر پاکستان کی انتہائی قریبی شخصیت شیخ منصور ،وزیر ہاﺅسنگ وپلاننگ چوہدری پرویز اشرف، ڈپٹی اپوزیشن لیڈرچوہدری طارق فاروق ،اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان ،سابق سپیکر شاہ غلام قادر ،سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان ،سینئر وزیر چوہدری یٰسین سے لیکر متعدد حکومتی اور حزب اختلاف میں بیٹھنے والی معتبر شخصیات کو ہم نے اپنے ٹاک شو میں مدعو کرکے بہانے بہانے سے بیل آﺅٹ پیکج کی راہ میں حائل رکاوٹوں ،مستقبل کے سیاسی منظرنامے ،آزادکشمیر میں جاری منصوبہ جات اور دیگر موضوعات کے پس منظر میں اپنے اُستاد گرامی راجہ حبیب اللہ خان کی رہنمائی میں درحقیقت جو بات جاننے کی کوشش کی اس کا تعلق سیاسی تجزیہ کاروں کی اُسی پیش گوئی کے ساتھ تھا جوانہوںنے چوہدری عبدالمجید کے وزیر اعظم بننے کے وقت کی تھی کہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے پارٹی کی بقاءکیلئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پہلے آزادکشمیر پیپلزپارٹی کے سب سے بڑے اور بزرگ سیاسی کارکن صدر جماعت چوہدری عبدالمجید کو وزارت عظمیٰ کا موقعہ دیاجائے تاکہ ان کی ان تمام قربانیوں کا عملی اعتراف کیاجاسکے جو انہوںنے بھٹو خاندان اورپیپلزپارٹی کی خاطر دیں اور جب مخصوص عرصہ گزر جائے تو اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی دنیا کی مقبول ترین شخصیت بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے سر پر وزارت عظمی کا تاج پہنادیاجائے تاکہ دونوں جانب ”ون ون سچوئیشن “پیدا ہوسکے ۔

قارئین ان تمام انٹرویوز میں انتہائی دلچسپ قسم کے انکشافات سامنے آئے اقتدار بڑی ہی بے رحم اور ظالم چیز ہے ہم نے برصغیر کی تاریخ میں ایسے بادشاہ بھی دیکھے ہیں کہ جنہوںنے اقتدار کی خاطر اپنے بیٹے سے بھی جنگ لڑی ایسے بھائی کو بھی دیکھا کہ جس نے اپنے سگے بھائیوں کو قتل کروادیا اور ایسے بیٹوں کو بھی دیکھا کہ جنہوںنے اپنے سگے باپ کے خلاف تلوار نیام سے باہر نکال لی واقعی اقتدار انسان کو کچھ کا کچھ بنا دیتاہے ان انٹرویوز میں ہمیں پتہ چلا کہ اب موجودہ سچوئیشن میں تمام کی تمام پارلیمانی پارٹی موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے ساتھ کھڑ اہونے کے باوجود ایک ہی طرح کا ”معنی خیز موقف “اپنائے ہوئے ہے اور وہ موقف یہ ہے کہ ”پوری پارلیمانی پارٹی اور تمام اراکین اسمبلی جن کا تعلق پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے وہ مرکزی قیادت کے فیصلوں کے مطابق موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں اور مرکزی قیادت ”جو بھی فیصلہ “کرے گی ہم اس پر لبیک کہیں گے “یہ موقف صرف حکومتی وزراءاور پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی ہی کا نہ تھا بلکہ حیرانی کی بات ہے کہ ان تمام لوگوں کا تھا کہ جو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ”نظریاتی کارکنوں کی جنگ “لڑنے کی بات کررہے تھے اور اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا موقف وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگانے والے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کاتھا جس کا اظہار انہوںنے مظفرآباد کے جلسے کے بعد میٹ دی پریس نیوز کانفرنس کے دوران مظفرآباد میں کیا اور قارئین یقینا آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ وہ موقف کیاتھا بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے تمام میڈیا کے سامنے یہ اعلان کیا کہ میری چوہدری عبدالمجید سے کسی بھی قسم کی ذاتی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف ہے میں صرف نظریاتی کارکنوں کے حقوق اور عزت نفس کی بحالی کیلئے جہاد پر نکلا ہوں اور مرکزی قیادت ”جو بھی فیصلہ “کرے گی وہ میرے لیے قابل قبول ہوگا اس کے ساتھ ساتھ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ایک اور انتہائی چونکا دینے والی معنی خیز بات کردی کہ ”صدر پاکستان آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور نے پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں کشمیری مہاجرین کے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے کی مکمل ذمہ داری مجھے دے دی ہے اور میں اس کیلئے بھرپور جدوجہد کروں گا “

قارئین مندرجہ بالا تمام بحث سے کچھ نتائج سامنے آتے ہیں اور وہ کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ شائد ماضی میں سیاسی تجزیہ کاروں نے وزارت عظمی کے ٹائم پریڈ کی تقسیم کی جوبات کی تھی وہ درست تھی اور منصوبے کے مطابق تمام عمل جاری تھا لیکن شائد گھر آیا اقتدار کسی کو بھی برانہیں لگتا یہی سے لابنگ شروع ہوگئی اور اس وقت سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری لابی اور موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید لابی آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسی طرح کھڑے ہیں جس طرح ہم نے برصغیر کے مختلف بادشاہوں میں سگے خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے ۔

قارئین اس تمام بحث میں ہم آخری بات اُن نظریاتی کارکنوں کے متعلق کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی عزت نفس اور وقار کی بحالی کی بات سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کررہے ہیں اور جن نظریاتی کارکنوں کو اُن کی خدمات کا صلہ دیتے دیتے موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے بننے والے لبریشن سیل کو پی آئی اے بنا ڈالا کہ ڈیڑھ سو سے زائد مشیر اس وقت تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں لبریشن سیل کے پے رول پر اپنی نظریاتی قربانیوں کی تنخواہ شائد شہداءکشمیر کے نام پروصول کررہے ہیں اس بات کی اہمیت وہی لوگ جانتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والے سات لاکھ کشمیریوں کادرد رکھتے ہیں اقتدار آنی جانی شے ہے ہم سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اُن کشمیری شہداءکے قیمتی لہو اور انمول قربانیوں کو پامال ہونے سے بچا لیجئے لبریشن سیل کو درست معنوں میں لبریشن سیل بنائیں اور اسے ”نظریاتی کارکنوں کو نوازنے “والا ادارہ بناکر کشمیریوں کے مقدس لہو کی توہین نہ کیجئے بقول چچا غالب
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بَھوں پاس آنکھ قبلہ ءحاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رُخوں کیلئے ہم مُصورّی
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس رُو سیاہ کو ؟
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
ہے رنگ ِ لالہ وگل ونسریں جُدا جُدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

قارئین موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے آزادکشمیر میں جو ترقیاتی کام کروائے ہیں ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اس کی نظیر گزشتہ 65سالوں میں کہیں نہیں ملتی ،میڈیکل کالجز ،یونیورسٹیز اور میگا پروجیکٹس کی بھرمار ان کی بہترین کارکردگی کے عکاس ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ تمام میگا پروجیکٹس وفاقی حکومت اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بھرپور سرپرستی کی بدولت ممکن ہوئے اور ان کی سہرابھی بلاشبہ چوہدری عبدالمجید کے سر اس طرح جاتاہے کہ انہوںنے شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو کا کھل کاساتھ بھی دیا اور سیاسی جلاوطنی کے نو سالہ دور میں برطانیہ میں اپنی شہید قائد کی انتہائی خلوص دل سے خدمت کی اور آخری جلسہ منعقد ہ برطانیہ بریڈفورڈ میں شہید رانی سے میڈیکل کالج اور انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا وعدہ لے لیا صدر پاکستان نے اپنی شہید اہلیہ کے وعدوں کو وصیت سمجھا اور ان پر عمل کردیا اب آگے کا منظر نامہ کیا ہوتاہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا ہم صرف ایک سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر نظریاتی کارکن ہی سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں تو آخر کیوں صرف ارشد برکی کو طویل انتظار کے بعد بلاول بھٹو زرداری ہی نے اپنا مشیر مقرر کیا اور 27سال سے جیلیں کاٹنے اور قربانیاں دینے والے ہمایوں زمان مرزا جیسے بے لوث کارکن اب بھی سڑکوں پر جوتے چٹخاتے پھر رہے ہیں یہ سوال ایسا ہے کہ جس کاجواب شائد کوئی بھی نہ دے سکے اللہ کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائے آمین ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سیاست دان جلسے میں تقریر کررہے تھے تقریر کے دوران ہر دس منٹ بعد اُن کا ایک جانثار مشیر اور نظریاتی کارکن ٹین کاایک ڈبہ زور زور سے پیٹنے لگتا غصے میں آکر سیاست دان نے تقریر روک کر جانثار کارکن کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ”بدتمیز یہ کیاکررہے ہو “
نظریاتی کارکن نے جواب دیا
”قائد محترم زرا غور کیجئے سارامجمع آپ کی تقریر کے دوران سوجاتاہے میں انہیں جگانے کی کوشش کرتاہوں “

قارئین اقتدار کی جنگ میں نظریاتی کارکن اپنا کام کررہے ہیں اور ہم جیسے بے مایہ قلمکار آواز اور تحریر کا اسلحہ لیکر قوم کی جگانے کی ایک بے معنی کوشش کررہے ہیں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374302 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More