معاملات کو ٹالتے ٹالتے ڈیڈ لائن
یعنی آخری لمحات تک لے جانے کی روش یا فن جب پوری قوم پر ختم ہے تو پھر
حکومت اپنے آپ کو کیوں استثنٰی دے؟ طلبا و طالبات کی سی سوچ حکومتوں کی
نفسیاتی ساخت میں بھی در آئی ہے۔ یعنی وقت کو گزارتے، بلکہ قتل کرتے رہیے
اور جب امتحانات سر پر آ جائیں تو اچانک بیدار ہوکر ٹامک ٹوئیاں مارنا شروع
کیجیے!
منتخب حکومت کو پانچ برسوں میں اتحادیوں سمیت کچھ بھی آسان نہیں ملا۔ حالات
نے قدم قدم پر محاذ کھولے۔ عوام کی خدمت پر مامور حکومت کو ملک کی بقاءاور
سلامتی یقینی بنائے رکھنے کا مینڈیٹ ملا تھا۔ مگر جمہوریت کے نام پر یہ
تماشا بھی قوم نے دیکھا کہ حکومت کا بیشتر وقت اپنی بقاءکا اہتمام کرنے پر
صرف ہوا۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اِن پانچ برسوں میں سیکیورٹی کے ادارے
زیادہ لڑے ہیں یا حکومت نے ایوان ہائے اقتدار کے مختلف مورچوں پر زیادہ
”دادِ شجاعت“ دی ہے! جمہوریت کو بچانا ضروری، بلکہ لازم ہے۔ عوام کا کیا ہے،
وہ تو ہر دور میں رہے ہیں اور رہیں گے!
ویسے تو زمانے کا چلن یہ ہے کہ رات گزرتی ہے تو سُورج نکلنے پر آنکھ کھلتی
ہے۔ جمہوریت میں کائنات کے اُصول پلٹ جاتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے ملنے والے
مینڈیٹ کی شام ہونے کو آئی ہے تو حکومت ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھی ہے۔ معاملات کو
تیزی سے سمیٹ پر پوٹلے باندھے جارہے ہیں۔ تمام مسائل راتوں رات حل کرنے کی
کوشش کی جارہی ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جارہا ہے کہ کوئی شعبہ رہ نہ
جائے یعنی بچنے نہ پائے!
کراچی میں ایک زمانے سے قتل و غارت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں اِس
صورتِ حال پر کئی بار آواز بلند ہوئی مگر حکومت چوہدری شجاعت کی طرح کراچی
کی بدامنی پر ”مِٹّی پاؤ“ کے فارمولے پر عمل پیرا رہی۔ کراچی کے حالات درست
کرنے کا معاملہ چند نمائشی اقدامات تک محدود رہا۔ بظاہر یہی یقینی بنایا
جاتا رہا کہ کراچی کے شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے والوں کے خلاف
کوئی کارروائی نہ ہو۔ کراچی کے معاملات کو اِس قدر نظر انداز کیا گیا ہے کہ
شہر اب بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کوئی ایک آدھ غلط بیان کی دِیا
سلائی بھی پھینک دے تو شہر کے کئی علاقے بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں! شہر کئی
شہروں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ نو گو ایریاز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ شہریوں
کے ذہنوں پر چھائے ہوئے خوف کا یہ عالم ہے کہ کہیں واشنگ مشین کا ٹائمر بھی
پڑا ہو تو بم کا گمان گزرتا ہے!
میعاد ختم ہونے کو آئی ہے تو حکومت کو اچانک بہت کچھ یاد آگیا ہے۔ گویا
جمہوری فلم کے دی اینڈ میں ہیروئن کی یادداشت واپس آگئی ہے۔ زہے نصیب!
یادداشت کی واپسی کے بعد حکومت نے سب سے پہلے کراچی کو پہچانا ہے۔ لوٹ مار،
قتل و غارت، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائمز میں ملوث افراد کے خلاف
آپریشن کا عندیہ دیا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کی یادداشت کا لَوٹ آنا کِس کِس سے ہضم ہوسکے گا۔
کراچی میں معاملات کی دُرستی کے لیے سخت اقدامات کی دُہائی سَبھی دیتے ہیں
مگر اپنے مفادات پر ضرب پڑتی دیکھ کر یو ٹرن لینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔
جس کے مفادات متاثر ہوتے ہیں وہ اُنہی اقدامات کو بُرا گرداننا شروع کردیتا
ہے جن کا مطالبہ اُس نے برسوں کیا ہوتا ہے! کراچی کے حالات کا قبلہ دُرست
کرنے کا عندیہ تو دیا جارہا ہے مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ رکوع میں جانے کی
تیاری کرنے والی حکومت غش کھاکر گرے اور خود بخود واقع ہونے والے سَجدے میں
جان دے دے! عوام کو میڈیا نے تھوڑا بہت شعور بخش دیا ہے۔ ایسے کسی بھی
واقعے کو وہ ”شہادت“ کا درجہ دینے کے لیے کسی طور تیار نہ ہوں گے!
اگر اشعار خود بخود موزوں ہوں تو ”آمد“ کہلاتے ہیں۔ جب طبیعت شعر کہنے پر
مائل نہ ہو تو شُعراءکو زور لگانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں موزوں کئے جانے
والے اشعار ”آورد“ قرار پاتے ہیں۔ اگر زیادہ عام فہم زبان استعمال کی جائے
تو یہ بھرتی کے اشعار کہلائیں گے۔ حکومت کے پاس آمد کے شعر کہنے کی جو
تھوڑی بہت صلاحیت تھی اُس کا معقول حصہ اپنی بقاءکی خاطر اور اپنی ہی صفوں
میں موجود بدنظروں کی نوحہ گری پر نچھاور ہوا۔ رہی سہی کسر مفاہمت کے فلسفے
کی قصیدہ خوانی نے پوری کردی۔
اب حکومت جاتے جاتے مختلف اداروں، وزارتوں اور محکموں میں اندھا دھند بھرتی
کے ذریعے اپنا دیوان بھرتی کے اشعار سے مکمل کرنے پر تُلی ہوئی دِکھائی
دیتی ہے۔ ہنگامی، بلکہ جنگی بُنیاد پر سرکاری محکموں اور اداروں میں بھرتی
کئے جانے والوں یا متعلقہ اداروں کا مستقل کیا ہوگا، اِس کے بارے میں سوچنے
کی فُرصت کِسی کو نہیں۔ بے روزگاری ختم کرنا لاکھ مستحسن سہی، مگر اِس عمل
کے نام پر اداروں کے وجود ہی کو اُلٹ پلٹ دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟
مورچوں کی تعداد شاید کچھ کم تھی، اِس لیے سپریم کورٹ کے خلاف پھر سے مورچہ
لگانے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ نے یہ بیان داغا کہ پارلیمنٹ
کے خلاف بولنے والے ججوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ
پانچ برسوں می بہت کچھ برداشت کیا۔ اداروں کو حدود اور قانون کے دائرے میں
رہنا چاہیے۔ اور یہ کہ پارلیمنٹ کو آخری دن تک قانون سازی کا اختیار حاصل
ہے! قانون سازی کا اختیار تو ٹھیک مگر ججوں کو معاف نہ کرنے کا انتباہ؟ یہ
تو اعلیٰ ترین عدالت سے براہِ راست تصادم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے!
خورشید شاہ نے درست کہا کہ حکومت نے پانچ برسوں میں بہت کچھ برداشت کیا ہے۔
بے چاری کا آدھا وقت تو اتحادیوں کو منانے اور بہلانے پُھسلانے میں صرف
ہوا۔ تحفظات دور کرنے سے فُرصت ملتی تو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا سوچتی۔
تھوڑی سی فراغت نصیب ہوتی تھی تو وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا انتظام
کرنے پر خرچ ہو جاتی تھی! حکومت کو بُھولنے کی بیماری لاحق تھی مگر دو
معاملات میں اُس کا حافظہ خوب کام کرتا رہا.... نوٹ چھاپنا اور بینکوں سے
قرضے لینا۔ عوام پریشانی سے دوچار رہے۔ سیکیورٹی کا معاملہ بھلے ہی کھٹائی
میں پڑا رہا مگر سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو خوب کام پر لگایا جاتا رہا۔
پاسپورٹ چھاپنے والی مشینیں چھ چھ ماہ خراب رہیں اور قوم کے پڑھے لکھے اور
ہنر مند افراد کا مستقبل مِٹّی میں ملتا رہا مگر نوٹ چھاپنے کی مشینوں کا
سانس پُھولا نہ خراب ہوئیں! حکومتی مشینری میں لے دے کر بس یہی وہ مشینیں
ہیں جو ڈھنگ سے اپنا کام کرتی اور قوم کا کام اُتارتی آئی ہیں! یہ عمل کچھ
اِس تواتر سے جاری رہا ہے کہ State Bank بے چارا Estate Bank ہوکر رہ گیا
ہے! |