وقت کی اس آواز کو سننا ہی ہوگا

2010کی مردم شماری رپورٹ کےمطابق جھارکھنڈ میں ا قلیت کہے جانے والے مسلمانوں کی آبادی پندرہ فیصدکے قریب ہے،حالانکہ مردم شماری محکمہ نے اب تک باضابطہ طور پر مذہبی ودھارمک بنیاد پر اعداد وشمارجاری نہیں کیے ہیں نہ ہی لسانی بنیاد پر اعداد وشمار جاری ہواہے۔2000کی مردم شماری رپورٹ بتاتی ہے کہ جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 5.14فیصد تھی۔ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ مردم شماری ہوتی ہی اس لیے ہے کہ ملک میں مختلف طبقات کی آبادی کے حساب سے ان کی ترقی کے لیے منصوبے تیار کیے جائیں۔لیکن ہمارے جھارکھنڈ میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے اب تک لگاتار اقلیتوں کے لیے بنائے جانیوالے ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کیا جاتار ہاہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اقلیتی ترقی کےلیے ریاست کو ملنے والے پیسے خرچ نہیں ہورہےہیں۔اور اقلیتوں کی حالت روز بروز بدتر ہوتی جارہی ہے۔ (ایم ایس ڈی پی)2009میں مرکزی حکومت نے ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت ملک کےان چنے ہوئے 96 ضلعوں میں اقلیتی ضلعوں کی ترتی کے لیے کام کیا جانا تھا۔ جہاں اقلیتوں کی غالب آبادی ہے۔ ان میں 6 ضلعے جھارکھنڈ کے بھی شامل ہیں۔ رانچی ،کھونٹی، گملا، سمڈیگا،پاکڑ، اور صاحب گنج ،یہاں ترقیاتی کاموں کےلیے پہلی قسط کے طور پر مرکز نے 186 کروڑ روپے کی رقم حکومت جھارکھنڈ کو دی۔ لیکن پاکڑ میں اس مد میں پندرہ کروڑ وروپے ہوئے خرچ کو چھوڑ کر اور کہیں بھی ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیاگیا۔ اقلیتی نمائندوں اور تنظیموں کے باربار کے مطالبات کے باوجود ریاستی حکومت نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ایم ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی کاموں کےلیے متعلقہ محکمہ کو متعلقہ ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر وں سے رپورٹ منگا کر مرکزکی اقلیتی امور وزارت کو بھیجا جانا تھا۔ لیکن کسی بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے محکمہ کی ہدایت کے باوجود کسی ترقیاتی منصوبے کےلیے کوئی رپورٹ نہیں بھیجی۔ اور 171کروڑ روپے کا یہ اقلیتی ترقیاتی فنڈ آج کس سرد خانے میں پڑا ہے، کسی کو نہیں معلوم،اسی طرح وزیر اعظم کےنئے 15نکاتی اقلیتی فلاح پر وگرام نفاذ منصوبہ کو مرکزی حکومت نے اکتوبر 2009سے ملک کی تمام ریاستوں میں اقلیتی فرقہ کی سماجی ،تعلیمی و اقتصادی ترقی کے لیے نافذ کر رکھا ہے۔ لیکن اس 15 نکاتی اقلیتی فلاح پروگرام نفاذ منصوبے کو جھارکھنڈ میں نافذ نہیں کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت ویسے پرائمری وہائی اسکولوں میں جہاں اردو پڑھنے والے طلباء وطالبات کی تعداد ایک چوتھائی ہو، وہاں اردو ٹیچر وں کی بحالی بھی کی جانی تھی۔ لیکن منصوبہ نافذ نہ ہونے کے سبب ایک بھی اردو ٹیچر کی بحالی نہیں ہوئی۔ اسی طرح مدرسوں میں تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کا منصوبہ بھی وزیر اعظم 15 نکاتی پروگرام میں شامل ہے۔ مگر کوئی کام نہیں ہوا۔ اقلیتی اسکولوں میں بھی اس پروگرام کے تحت بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی فراہمی کی بات کہی گئی ہے۔ سورن جیتنی شہری خود روزگار منصوبہ کے تحت ،شہری تعلیم یافتہ اقلیتی طلبا وطالبات کو خود روزگار کےلیے بینکوں سے قرض مہیا کرانے اور حکومت کے ذریعہ سبسیڈی دئے جانے کا بھی پروگرام ہے۔ لیکن جھارکھنڈ کی اقلیتیں ہنوز ان پروگرام کے فوائد سے محروم ہیں۔

مرکزی حکومت کی اقلیتی امور وزارت کی جانب سے ملک میں اقلیتی طبقہ کی خواتین کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی فلاح کےلیے 2009 میں مائنوریٹی ویمنس لیڈر شپ پر وگرام چالو کرایاگیا ہے۔ لیکن جھارکھنڈ میں اس پروگرام کا نفاذ آج تک نہیں ہو ااور یہاں کی اقلیتی خواتین کو اس پروگرام کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔ تعلیم یافتہ اقلیتی نوجوانوں کو یوپی ایس سی،جے پی ایس سی، بینک،ریلوے، اور دیگر بڑے مقابلہ جاتی امتحانوںمیں کامیابی کےلیے مفت کوچنگ کی اسکیم بھی مرکزی اقلیتی امور وزارت نے چلا رکھی ہے۔لیکن جھارکھنڈ میں یہ اسکیم بھی نافذ نہیں ہوسکا ۔ حالانکہ اس کےلیے مرکزی اقلیتی امور وزارت نے کئی بار بڑے بڑےاشتہارات شائع کراکر مقابلہ جاتی امتحانات کےلیے بڑے کوچنگ چلانے والوں سے آفر طلب کیے۔ لیکن چونکہ اس اسکیم میں شرائط وضوابط اس قدر پے چیدہ ہیں کہ کسی بھی کوچنگ نے اقلیتی امور وزارت کو اپنا آفر نہیں بھیجا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جھارکھنڈ میں ایک بھی اقلیتی امیدوار کو بڑی نوکریوں کےلیے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کی خاطر مفت کوچنگ کی سہولت آج تک نہیںمل سکی۔

ظاہر ہے تمام ترقیاتی ، فلاحی منصوبوں سے محروم جھارکھنڈ کی اقلیتیںحد درجہ مایوسی ومحرومی کا شکار ہیں۔ اور ان کے دلوں میں حکومتوں کے تئیں بداعتمادی کے جذبات لگاتار پنپ رہے ہیں۔ اور شائد اسی کا نتیجہ ہے کہ آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن (آمسا)کے ذریعہ 12مارچ کو رانچی میں راج بھون کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جارہاہے۔ آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن حالانکہ زیادہ پرانی تنظیم نہیں ہے، لیکن طلبا وطالبات اور اقلیتی آبادی کے مسائل پر نوجوانوں کا یہ ایسوسی ایشن لگاتار مضبوطی کے ساتھ آواز اٹھاتار ہاہے۔ اب اقلیتی ترقیاتی منصوبوں کا نفاذ نہ ہونے کے خلاف آج راج بھون کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کررہاہے۔ تو ہمیں امید رکھنی چاہیےکہ صد رراج کےمو جو دہ دورمیں راج دربار تک یہ آواز ضرور پہونچے گی اور مذہب وملت کی تشخیص کے بغیر ریاست کی پوری آبادی کی ترقی وفلاح کے کاموں میں یکساں دلچسپی رکھنے والے ہمارے گورنر ڈاکٹر سید احمد ریاست کی اقلیتوں کے ساتھ لگاتار ہورہی نا انصافیوں کے ازالہ کے لیےفوری قدم اٹھائیں گے۔
Muzaffar Hasn Ranchi (Jharkhand) India
About the Author: Muzaffar Hasn Ranchi (Jharkhand) India Read More Articles by Muzaffar Hasn Ranchi (Jharkhand) India: 2 Articles with 1060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.