اپنے ا پنے ملک سے محبت کرنے
والے ساری دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ جب پاکستان کے دشمن اس کو توڑنے کی
کوشش کر رہے تھے تو محب وطن پارٹیوں خصوصاً تو جماعت اسلامی نے اس کو بچانے
کی پھر پو ر کوشش کی تھی۔پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والے البدر اور
الشمس کے کارکنوں کے لیے اس وقت کے فوجی افسران نے ان کی تعریف کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ان نوجوانوں کی طرح ہم نے کوئی نہیں دیکھا یہ ہم سے آگے مورچوں
پر لڑ کر اپنے ملک کا دفاع کرتے تھے یہ اسلام اور اس کے نام پر بننے والے
پاکستان سے محبت کرنے والے اپنی جانیں قربان کرنے والے نوجوان تھے انہیں
تاریخ یاد رکھے گی ۔
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر مکتی باہنی بنائی تھی
جس نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کے کھلے
عام مقتل بنائے تھے ۔ اب نام نہاد مظالم کا بہانہ بنا کر حسینہ واجد نے
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل بنا کر جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر
مقدمات بنانے اوربین الاقوامی طور پر رد شدہ اور جانبدار ٹربیونل کے ذریعے
موت اور عمر قید کی سزائیں سنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس نام نہاد
مظالم کی سچائی کیا ہے ان کا ذکرحال میں ہی چھپنے والی کتاب جو کہ ہندوستان
کی جنگ آزادی کے ایک ہیرو سبھاش چندر بوس کی پوتی نے لکھی ہے جوبھارتی اور
بنگالی نژاد خاتون ہے جس کا مذہب ہندو ہے جو یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبہ
سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی سنیئر ریسرچ ایسوسی ایٹ ہے۔اپنی کتاب میں
بنگالی قوم پرستوں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ پاکستانی فوج کو
ان قوم پرستوں کے مظالم نے ایکشن لینے پر مجبور کیا تھا۔بنگالی عورتوں کے
گینگ ریب کے واقعات غلط ہیں انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے ۔ تیس لاکھ
بنگالیوں کا قتل بھی جھوٹ کا افسانہ ہے۔ اردو بولنے سب کو عرف عام میں
بہاری کہا گیا اور ان کا قتل عام کیا گیا۔جب پاکستانی فوج نے ایکشن شروع
کیا تواس وقت بنگلہ دیش کی سرزمین ان لوگوں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھی ایک
مقام پر تو ان لاشوں کے ڈھیر کی وجہ سے دریا کا پانی بھی روک گیا تھا۔ آخری
دنوں میں اپنے ہی بنگالیوں کو علیحدگی پسندوں نے عبرت ناک ظلم ود ہشت گردی
کا نشانہ بنایا تھا۔ اس انصاف پسند مصنفہ کو پاکستانی ایجنٹ ہونے کے طعنے
سننے پڑھ رہے ہیں (ان مظلوموں کا تعلق جماعت اسلامی کی البدر اور الشمس سے
تھا جس کا ذکر محقق، مصنف، مولف سلیم منصور خالد نے اپنی کتاب البدر میں
کیا ہے) ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام اور نظریہ پاکستان سے سر شار
لوگوں نے پاکستانی فوج کی مدد کی تھی۔ اپنے ملک پاکستان کو بھارت اور اس کی
بنائی ہوئی مکتی باہنی کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے جد وجہد کی تھی۔
اب اس واقعے کو۴۲ برس گذر چکے ہیں دو آزاد اور خودمختیار مسلمانوں کی
ریاستیں وجود میں آ چکی ہیں۔پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ ریاست کے
طور پر تسلیم کر لیا ہے۔دونوں اپنے اپنے عوام کی بھلائی کے لیے کام کر رہے
ہیں۔دونوں ملکوں کے حکومتی لوگ ایک دوسرے ملکوں کے دورے بھی کرتے رہتے
ہیں۔جن لوگوں نے پاکستان سالمیت اور اس کو بچانے کی حمایت کی تھی ان کو عام
بنگلہ دیش کی عوام نے دو بھائیوں کے اختلاف کا درجہ دے کر بھلا بھی دیا ۔
جماعت اسلامی کے جن رہنماؤں کو پھانسی اور عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے وہ
متعددباربنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں وہ عوام کی رائے سے منتخب ہو کر گئے اور
اپنے عوام کی خدمت بھی کرتے رہے ہیں اب وہ ایک مضبوط حزب اختلاف کا کردار
ادا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو حسینہ واجد نے بھارت کی گود میں بیٹھا دیا ہے
جس کی وجہ سے بنگلہ دیش اب ترقی کی بجائے ایک غیر مستحکم ملک بن گیا ہے ۔لاقانونیت،تشدد،خانہ
جنگی،گولیاں لاٹھیاں، گرفتاریاں، سیاحوں کی خوف زدگی، عوام کی بے چینی اور
غیر یقینی عام ہے۔ بھارت کو خوش کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے
خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے ہیں جس کی جتنی بھی مزاہمت کی جائے کم ہے۔
ان زیادتیوں پر تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش اب عرب بہار کی طرز پر
بڑھ رہا ہے جتنا ظلم بڑھے گا لوگ اسلامی نظام کی طرف دیکھیں گے جس سے جماعت
اسلامی کو پروگرام آگے بڑھانے میں مدد ملے گی یہی کچھ عرب ملکوں میں ظلم کی
داستانیں قائم کر کے کیا گیا تھا جس پر بنگلہ دیش چل پڑا ہے جماعت اسلامی
بنگلہ دیش کی ایک مضبوط جماعت ہے اس وقت تک اس کے ۱۰۰ سے زائد کارکنوں کو
شہید کیا جا چکا ہے لاتعداد جیلوں میں بند ہیں ان پر قوم پرست پولیس کے
ساتھ مل کر تشدد کر رہے ہیں پورے ملک میں جماعت کی اپیل پر ہڑتالیں ہو چکی
ہیں عوام کی لاکھوں کی تعداد سڑکوں پر نکل چکی ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں
مسلم غیر مسلم حکومتیں بنگلہ دیش کی حکومت کو اس ظلم سے رکھنے کا کہہ چکے
ہیں۔ہمیں تو پاکستان کی حکومت اور اس کے لوگوں پر حیرت ہے وزیر اطلاعات
صاحب فرماتے ہیں یہ بنگلہ دیش کی حکومت کا اندرونی معاملہ ہے اسی طرح جس
فوج کے شانہ بشانہ البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے بھارت کی فوج کے خلاف
پاکستان کی حمایت میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا تھا ان کے لیے کیوں نہ
پاکستان کی حکومت کو کہا گیا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں
کے خلاف ظلم کرنے والی حکومت کو پیغام دیا گیا کہ یہ سرا سر زیادتی ہے اس
کوروکا جائے۔کراچی میں پاکستان کی مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے تمام جماعتوں
نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایک ریلی کا انتطام
کیا جس میں منور حسن امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا یہ سب بھارتکی ایما
پر ہو رہا ہے ہم نے تمام دنیا میں ان مظالم کے لیے رابطہ کیا ہے۔ترکی کی
حکومت نے بنگلہ دیش کے سفیر کو طلب کیا ترکی کے صدر اور وزیر اعظم نے بنگلہ
دیش کی حسینہ واجد سے بات کی ہے وہ خلیجی ممالک کا اجلاس بلانے کا بھی کہہ
رہے ہیں۔سعادت پارٹی نے وکیلوں کا ایک وفد بھی بنگلہ دیش بیھجا ہے جس نے
جائزہ لے کر ان سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے مصر،سوڈان اور
تیونس کی حکومتوں نے بھی ان مظالم کا نوٹس لیا ہے۔فوج کو بھی اس معاملہ کو
نظر انداز نہیں کر نا چاہیے۔حکومت نے ابھی تک بنگلہ دیش کے سفیر کو بلا کر
اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ کزشتہ ۴۲ سالوں میں عوامی لیگ دو مرتبہ
حکومت میں آ چکی ہے اس وقت اس کو مقدمے چلانے کا خیال نہیں آیا ۔ڈاکٹر
معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ اگر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند نہ
کیا گیا تو پوری دنیا میں بنگلہ دیشی سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کئے جاہیں
گے۔سلیم ضیا نے کہا سالمیت پاکستان کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ ظلم ہو رہا
ہے او آئی سی عالمی برادری ان کا نوٹس لے۔حکومت بنگلہ دیش سے اپنا سفیر
واپس بلائے ناانصافی پر مبنی جوعدالتیں بنائی گئی ہیں ہم ان کو نہیں مانتے
حکومت کو اس بے انصافی پر آواز بلند کرنے چاہے ۔
قارئین ! جن لوگوں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کئے اور پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر ایک تاریخ رقم کی ۴۲ سال سے قوم
پرستوں کے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ آج اگر ان کو موت کی سزا اور عمر قید
کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں تو حکومت پاکستان اور فوج کا سپہ سالار ان کو
کیا پیغام دے رہے ہیں کہ آئندہ ہ خدا نخاستہ پاکستان پر برا قوت آیا تو
کیاوہ پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے البدر و الشمس بنائیں ؟اس لیے قوم کا فوج
حکومت سے مطالبہ ہے کہ فوراً بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور
اپنے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلایا جائے تاوقت کہ جماعت اسلامی کے
رہنماؤں کی موت اور عمر قید سزا ختم اور نام نہاد ٹریبنل کو ختم نہ کیا
جائے۔ |