جرات کا نشان فلسطینی بچے

میرے سامنے معصوم فلسطینی بچوں کی جرات، بہادری اور استقامت سے لبریز چند تصویریں ہیں، جن کو دیکھ کر کوئی بھی شخص مظلوم وبہادر فلسطینی بچوں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پہلی تصویر میں اسلحہ سے لیس تین اسرائیلی فوجی ایک سات، آٹھ سالہ فلسطینی بچے کو پکڑ کر ایک گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بچہ ان کے اسلحے سے خوفزدہ ہونے کے بجائے شدید نفرت کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ میں اٹھایا ہوا جوتا اسرائیلی فوجیوں کو مارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری تصویر جس میں ایک فلسطینی بچہ جس کی عمر چھ سال سے زیادہ نہیں ہوگی، اس کے سامنے ایک اسرائیلی فوجی بندوق تھامے کھڑا ہے، بچے نے جینز کی پینٹ اور شرٹ پہنی ہوئی ہے،وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی شرٹ کے تمام بٹن کھولے اپنا برہنہ سینہ فوجی کے سامنے کیے کھڑا ہے اور شدید غصے میں فوجی سے کچھ کہہ رہا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچہ کہہ رہا ہے:” او ظالمو! اگر تم میں ہمت ہے تو مسجد اقصیٰ کے اس ننھے محافظ کے سینے پہ گولی چلادو۔“ تیسری تصویر جس میں تقریباً ایک سات سالہ فلسطینی بچہ اپنے ہاتھ میں پتھر اٹھائے دیو ہیکل اسرائیلی ٹینک کے سامنے کھڑا پتھر ٹینک کی طرف اچھال رہا ہے۔

اسی طرح کی ایک چوتھی تصویر جس میں پانچ، چھ سال کے تین بچے کھڑے ہیں، ان میں ایک ننھی سی کمزور فلسطینی بچی بھی ہے، ان کے سامنے اسلحہ سے لیس ایک اسرائیلی فوجی کھڑا ہے، فلسطینی عوام اسرائیل کے مظالم کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں، اس احتجاجی مظاہرے کے دوران کم سن بچی اسرائیلی فوجی کے سامنے اپنا ”ننھا مکا“ لہرا کر جرات کا مظاہرہ کررہی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ننھی اور کمزور سی بچی ”عہد تمیمی“ مغربی کنارے میں اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ہمراہ ایک پرامن احتجاجی مظاہرے میں شریک تھی۔ اس دوران اسرائیلی فوجیوں نے جلوس کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔ ایک اسرائیلی فوجی عہد تمیمی کے پاس آیا تو اس نے اپنا ننھا مکا لہرا کر اسرائیلی فوجی کو اپنی معصوم جرات دکھائی۔ عہد تمیمی کو اس کی جرات کے اظہار کے اعزاز میں استنبول کی بشک شہر ضلعی کونسل کی جانب سے خنظلہ تمغہ جرات بھی دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ بچپن کا زمانہ بادشاہت کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس زمانے میں بچے ہر قسم کی پریشانی سے آزاد ہوتے ہیں، یہ زمانہ کھیل کود اور شرارتیں کرنے کا ہوتا ہے، لیکن فلسطین پر ایک عرصے سے غاصب اسرائیلی فلسطین کے مظلوم عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ فلسطین کے ننھے بچے بھی اسرائیل کے ظلم وستم سے محفوظ نہیں ہیں۔ فلسطین کے ننھے مجاہد سرزمین انبیاءکی آزادی اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی جنگ اسرائیل کے ٹینکوں، توپوں اور گولوں کے مقابلے میں غلیلوں اور پتھروں سے لڑ رہے ہیں۔ جس کی پاداش میں آئے روز اسرائیلی فوجی فلسطینی بچوں کو گرفتار کر کے بے جا تشدد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بلیٹن برائے تحفظ اطفال میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2013ءمیں بچوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ مزید تیز کردیا گیا ہے۔اسرائیلی فورسز پر پتھراﺅ کرنے والے 12سے 15سالہ بچوں کو بھی حراست میں لے کر جیل بھیجا جاتا ہے، اس وقت 11ہزار سے زائد فلسطینی باشندے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں جن میں 34 فیصد بچے شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2000ءسے 2012ءتک 8000 سے زائد فلسطینی بچے مغربی کنارے سے پکڑے گئے، کچھ قتل کر دیے گئے اور کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ملٹری کورٹ کے پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی وہ نسل جو ابھی پوری طرح 12سال کی عمر تک نہیں پہنچی یا 13سال کی عمر کو پہنچ رہی ہے، اسرائیلیوں کی طرف پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے، پتھر پھینکنے کے جرم میں مجموعی طور پرکل آبادی کا 98% جیلوں کے لاک اپ میں بند کیے جاتے ہیں اور یہ کہ ان بچوں پر مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جاتے ہیں اور سرسری سماعتوں کے ذریعے ان کو جیل بھیج دیا جاتا ہے، ان تمام قیدی بچوں کا رہائی کے بعد طرح طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا، اسرائیلی خوف و ہراس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2010ءمیں بالترتیب 2300 اور پھر 3470 بچوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا اور پھر ان کو مختلف مراحل اور خوف و ہراس سے گزار کر ان کو نفسیاتی مریض بنانے کی کوشش کی گئی۔

”دی فنس فار چلڈرن انٹر نیشنل“ نامی تنظیم کی فلسطین شاخ ”حقوق گروپ“ کے مطابق اس وقت سینکڑوں بچے مقبوضہ فلسطین کی صیہونی جیلوں میں ہیں۔ بچوں کا قید و بند کا شکار ہونا، بچوں، ان کے خاندان اور ان کے پورے سماجی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ فلسطینی بچوں کے امور کی نگران اور”یونیسف“ کی سربرا ہ ”سودا مینی“ نے چیختے ہوئے کہا: ”اسرائیل کی ظلم وسربریت پر مبنی پالیسیوں کے حوالے سے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ظالم فلسطینی بچوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلاتے ہیں اور ان کو جلد سے جلد جیلوں میں بھیج دیتے ہیں۔“

فلسطینی اسیروں پر ہونے والے مظالم کا دستاویزی ریکارڈ مرتب کرنے والے تجزیہ کار عبدالناصر فروانہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اسرائیلی انتظامیہ نے عقوبت خانوں میں کم سن فلسطینی بچوں کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے۔ دوران حراست بچوں کو اذیت ناک تشدد، بلیک میلنگ اور نہایت ظالمانہ طریقے سے ان کے خلاف فوجداری مقدمات بنا کر انہیں پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ تمام اقدامات بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی فوج اور پولیس اہلکار نہایت بے رحمی کے ساتھ ہاتھ پاوں باندھتے، انہیں ہتھکڑیاں ڈالتے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھتے ہیں۔ دوران تفتیش انہیں بھی اسی طرح کے تشدد کے حربوں کا سامنا کرنا پڑتا جس طرح بڑی عمر کے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچے، مظلومیت کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، یرغمال ہونا، قید ہونا، حتیٰ کہ قتل ہونا، معمول بن چکا ہے۔”یونیسیف“ کی رپورٹ کے مطابق یہودی آبادکاروں کے تحفظ کی آڑ میں مغربی کنارے میں اسرائیل نے غیر قانونی طورپر کم ازکم 500 فوجی چوکیاں قائم کر رکھی ہیںجو بچوں کے اسکولوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہر سال 500 سے 700 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج بلا وجہ پکڑ لیتی ہے اور ان سے بین الاقوامی انسانی حقوق اور عالمی قوانین سے متضاد سلوک کیا جاتا ہے جو انتہائی غیر اخلاقی ہے۔

فلسطین میں لاکھوں بچے اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں اور بین الاقوامی برادری فلسطینی نونہالوں کو تحفظ دلا نے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ فلسطین میں کم وبیش 19 لاکھ بچے نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جن کے بنیادی حقوق اسرائیل نے سلب کر رکھے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے تشدد، حکومتوں کی جانب سے امتیازی سلوک، قتل، غربت، گھر اور شہر بدری، گرفتاریوں، نفسیاتی، ذہنی، جسمانی اور جسمانی تشدد نیز تعلیمی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سب باتیں دنیا کے کس قانون کے مطابق انجام پاتی ہیں؟جو فلسطینیوں کے بارے میں ایسا حکم دیتا ہے۔ان پر ہر طرح کا ظلم روارکھا جاتا ہے،اس کے باوجود فلسطینی سپوت اکیلے ہی جواں مردی سے فلسطینکی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں،حالانکہ سب کو ہی مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیے اور دنیا والو ں کو اس ظلم و سربریت پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.